غزل

غزل

نہیں ہے بیری تو کیوں مرے گھر برس رہے ہیں
سبب تو ہوگا جو اتنے پتھر برس رہے ہیں
خطاؤں کے داغ سب دھلیں گے جو آنسوؤں کے
اگر یہ بادل جو دل کے اندر برس رہے ہیں
بجھے گی کس طرح پیاس دھرتی کی میری یارو
جو سارے بادل سمندروں پر برس رہے ہیں
بشر میں شر ہے تو کیوں یہ پتھر ملامتوں کے
ہر اک طرف سے مرے ہی سر پر برس رہے ہیں
جو کوئی بولا ہمیں بھی حق دو تو حاکموں کے
انھیں پہ غیظ و غضب کے خنجر برس رہے ہیں
تجھے خبر ہے جہاں بھی ظلمت کی کھیتیاں ہیں
انھیں پہ کیوں تیرے بادل آ کر برس رہے ہیں
جہاں بھی قانونِ عدل و انصاف حکمراں ہے
انھیں زمینوں پہ لعل و گوہر برس رہے ہیں
جو ظلمتوں کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے ہیں
انھیں پہ ابرِ ستم برابر برس رہے ہیں
جو چاہتے ہیں جہاں میں ظلمت کا خاتمہ ہو
انھیں پہ تاریکیوں کے لشکر برس رہے ہیں
حبیبؔ ہمارے سوا قفس میں کہیں ہیں زندہ
دکھائیں ہم کو بھی جو پچھتر برس رہے ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here