انسان خوابوں اور خیالوں میں لامتناہی خواہشوں، آرزئووں اور تمناوں کے چمن میں بستا ہے۔ اس چمن خیال پہ کچھ خرچ نہیں ہوتا، کسی کی مداخلت کا ڈر نہیں ہوتا، کسی متعین جگہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فرصت ہو یا نہ ہو تصور جاناں لیے زندگی کے جھمیلے نپٹاتے رہو۔ فی زمانہ مادی اسباب و علل میں یہ واحد چیز ہے جس پہ مال خرچ نہیں ہوتا بس انسان کا زندہ ہونا ضروری ہے جب کہ ہوش و حواس میں ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔
تصوراتی دنیا دراصل اگر محرومیوں، حسرتوں کا نوحہ ہے تو کبھی کچھ حاصل کر لینے کا یقین و انبساط بھی ہے۔ تصور اور خواب و خیال انسان کی ذہنی، جسمانی اور روحانی صحت کا پیمانہ ہیں۔
انسانی عمر کی ہر منزل اس پیمانے میں مثبت یا منفی تبدیلیاں لاتی ہے۔ ماحول، تعلیم و تربیت، حالات و واقعات بھی اس میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تصوراتی دنیا ہر فرد کا ایک ایسا ذاتی سیارہ ہے جہاں وہ اپنی مملکت کا خود بادشاہ ہوتا ہے۔ مستقبل کے سارے کردار اس کی رعایا ہوتے ہیں۔ اور وہ جس کو چاہے جس مقام پہ رکھے۔ یہ کیفیت منفی ہو یا مثبت حد سے تجاوز کر جائے تو پاگل پن کہلاتی ہے۔ نشہ آور اشیاء کا استعمال اسی لیے حرام ہے کہ انسان دو انتہاوں پہ رہ کر حقیقی دنیا سے بے گانہ ہو جاتا ہے۔ اسی لیے افکار کے باہم تبادلۂ خیال کو انسان کی ذہنی نشوونما کے لیے اہم ضروت گردانا گیا ہے۔
اسلام انسانوں کو ایک متوازن طرز زندگی دیتا ہے۔ آرزئووں اور تمناوں کی بھی ترتیب وار تربیت دیتا ہے۔
بلوغت سے پہلے کی تصوراتی دنیا اتنی معصوم اور محدود ہوتی ہے کہ اس کے مطابق طرز زندگی پہ رب کی نظرِ کرم نے سوال ہی نہیں اٹھانا۔ مگر والدین خوابوں خیالوں میں اولاد کو کیا دیکھنا چاہتے ہیں اس پہ ضرور مواخذہ ہوگا۔ اسی سے خواب و خیال کی ترتیب سمجھ آجاتی ہے۔ والدین اولاد کے لیے کیا آفاقی خواب، ارادے، خواہشیں اور تمنائیں رکھتے ہیں یہ ان کے سمجھ بوجھ پہ منحصر ہے اور یہی امتحان ہے۔
تصور یا خیال نیت کا پہلا زینہ ہے۔ بچپن تو بچوں کے لیے رب عظیم کا ہدیہ ہے، والدین اور اساتذہ اور گھر کے بزرگوں کے لیے بچوں کا بچپن وہ سرمایہ ہے جس سے جنت میں حسین تصوراتی محل خریدے جا سکتے ہیں۔ اپنے لیے بھی اور آنے والی نسلوں کے لیے بھی۔
اس شاداب اورذرخیز مٹی میں اور حسبِ حال موسم میں شجر سایہ دار و ثمر دار کے بیج نہ ڈالے تو بنجر اور ویران نسلیں ہمارے مرنے کے بعد ہمیں شبنم کا قطرہ تک نہ پہنچا پائیں گی۔ ان کی تصوراتی دنیا میں کوئی ایسی تصویریں نہ ہوں گی جن سے محبت کے چراغ جلتے ہوں۔
زندگی کا چلن بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ گھر جو کبھی تین نسلوں کے باہمی تصوراتی خاکے کا حسین امتزاج ہؤا کرتے تھے، جہاں الگ الگ سیاروں کے باشندوں کا گمان نہ ہوتا تھا…. اب وہ دنیا سمٹ کر ماں باپ اور دو تین بچوں تک محدود ہوگئی ہے اور ان چند افراد کی بھی اپنی اپنی تصوراتی دنیا اتنی مضبوط اور مختلف ہے کہ اب میاں بیوی کا اپنا اپنا ’’تصوراتی سیارہ‘‘ ہے۔ جس میں داخلہ پاس ورڈ کے بغیر ممکن نہیں۔ اور ہر کوئی دوسرے کو اس پاسورڈ کا اتہ پتہ دینے سے خوفزدہ رہتا ہے۔
وہ لاسلکی دلوں کے رابطے کہاں کھو گئے؟
بچوں کے پیارے بچپن سے والدین نے لطف اندوز ہونا چھوڑ دیا۔ ایک گھر میں رہنے والے افراد گویا کہ سائے ہیں جو نظر تو آتے ہیں، آپس میں بات چیت اور تعلق نہیں رکھتے۔
اپنی آرزئووں، تمناوں اور حسرتوں پہ غور کیجیے، اپنے خواب وخیا ل کو دیرپا مستقبل سے وابستہ کیجئے۔ زندگی میں بہار لانے کے لیے نیت کی
اپنی آرزئووں، تمناوں اور حسرتوں پہ غور کیجیے، اپنے خواب وخیا ل کو دیرپا مستقبل سے وابستہ کیجئے۔ زندگی میں بہار لانے کے لیے نیت کی تجدید کیجیے۔
یہ یاد رکھیے کہ ہر فصل کا ایک موسم ہوتا ہے۔ آپ کے ارد گرد جتنے بھی بچے ہیں ان میں سے ہر بچہ آپ کی جنت میں لازوال چمن کا ضامن ہو سکتا ہے۔ اپنے بچے، ان بچوں کے ہم عمر دوست، بہن بھائیوں کے بچے، بیٹے بیٹیوں کی اولادیں، اس شیریں لب و لہجے اور مشفق لمس کو ترس رہے ہیں جو کبھی ہماری معاشرت کا حسن ہوتا تھا۔ مانا کہ اب مشینی دور ہے، فاصلے بڑھے ہیں تو انہی آلات کی بدولت سب کچھ بہت قریب بھی ہے اگرچہ مصنوعی ہے۔ زمینی حقائق سے گریز ممکن نہیں۔ جس چیز سے جو سہولت میسر ہو اس کو کام میں لانا عقلمندی ہے۔ اپنے اندازِ گفتگو سے، لفظوں کے سحر سے، دوسرے ملکوں شہروں میں رہنے والے بچوں سے محبت بھرا رابطہ رکھنا عین عبادت ہے۔ ہماری تمنائوں کا محور یہ خام مال کیوں نہیں؟ اس کو کندن بنانا ہماری سب سے بڑی خواہش کیوں نہیں؟
نئے دور کے والدین جو دوسرے ملکوں اور شہروں میں ہیں اپنے ننھے منے بچوں کو ننھیال ددھیال سے قریب رکھنے کا خیال رکھیں گے تو یہ بچے زیادہ بااعتماد ہوں گے۔
لازم نہیں کہ بچے اپنے ہی ہوں یا اپنے بچوں کے ہوں تو ہی ہم فکر کریں اور خوب صورت خواب دیکھیں۔ امتِ مسلمہ کا ہر بچہ ہم سب کا مشترکہ سرمایہ ہے۔
اپنی آرزئوئیں ان پھولوں سے وابستہ کریں۔ انبیاء کرام علیھم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کی نظر میں جو معصوم ہیں وہ یہ بچے ہیں۔
ان کے رشتوں کی محرومیوں کا مداوا بن جائیے۔
ان کو محبت سے مسجد لے کر جائیے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنائیں۔ انبیاء اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے بچپن کی باتیں بتائیں۔ محبت کو ترسے یہ بچے، بزرگوں کی شفقت سے یہ محروم بچے مستقبل میں روبوٹ کی مانند تو ہو سکتے ہیں جذبات و احساسات کے انسان نہیں۔
جذباتی تعلق کھو گیا تو یہ ایسی چیز بھی نہیں ہے کہ آنے والی نسلیں کسی عجائب گھر میں جا کر ماضی کی پرچھائیں دیکھ آئیں۔
امتِ مسلمہ کے معصوم پھول اور کلیاں ہر عمر کے افراد کی طرف سے جذباتی تعلق کے منتظر ہیں۔ نوجوان ان بچوں کے ساتھ اپنے خوابوں کا اشتراک کریں۔ ریٹائرڈ افراد اپنے ماضی کے تجربات کی روشنی میں بچوں کو بہتر مستقبل کی آبیاری سکھائیں۔ آرزئووں اور تمناوں کی وہ حسین دنیا کا نقشہ بتائیں جہاں امن و سکون ہوگا۔ فساد اور قتل و غارت نہ ہوگا، جہاں انصاف ہوگا۔ ان بچوں کے ساتھ وہ زمانہ بھی اشتراک کریں جدھر کرگس اور شاہین کا جہاں مختلف ہوتا ہے۔
کیا آپ کو معصوم پھول اور کلیاں دستیاب نہیں ہیں؟
ذرا اپنے گھر سے ہٹ کر گلیوں بازاروں سڑکوں اور کچرے کے ڈھیروں پہ جھکے بچوں کی تعداد کا پتہ تو کریں۔ اپنے کام کی جگہ سے گھر آتے ہوئے گاڑیوں کے آس پاس ہاتھ پھیلائے بچوں کے اس سوال کا جواب تلاش کر لیں جو وہ روز محشر کریں گے۔ اور اپنی حسرتوں، آرزئووں اور تمنائوں کی لاشیں اٹھائے ہوں گے اور آپ کی دنیاوی بے حس تمنائیں ماتم کرتی پھریں گی اور ہر بچہ وہ اپنا ہو یا نہ ہو شافع محشر کے سامنے شکوہ کناں ہوگا۔
خدارا! بحیثیت امتِ مسلمہ کے باشعور فرد کے، اپنے خواب و خیال کے چمن کو ایک نئی فکر سے مہکائیے، جنت کی حسین وادیوں کے نظاروں کے تصور میں گم رہنا بہت اچھا عمل ہے مگر وہاں جانے کے لیے دنیا میں بکھرے جنت کے پھولوں کی حفاظت کرنا ہوگی۔
کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی محض نافرمان عددی برتری پہ فخر ہوگا یا صالحین کی عددی برتری پہ؟
ہم نے صالحین کی عددی برتری کے لیے کوئی خواب دیکھ رکھے ہیں یا نہیں؟
جہاں خواب ہوتے ہیں تعبیر بھی وہیں ہوتی ہیں اور جیسے خواب ہوتے ہیں تعبیریں بھی ویسی ہوتی ہیں۔
٭٭٭