ڈیوٹی پہ آئے دن نہیں آتی ہیں ماسیاں
سو سو طرح کے حیلے بناتی ہیں ماسیاں
رو رو کے اپنے دکھڑے سناتی ہیں ماسیاں
اس ایکٹ سے بھی پیسے کماتی ہیں ماسیاں
حیراں ہے اِس نظارے پہ شوہر کی بے بسی
بیگم کو جیسے آنکھیں دکھاتی ہیں ماسیاں
جھاڑو ادھر کو پھینک، چلی ہاتھ جھاڑ کر
پل بھر میں اپنا رنگ دکھاتی ہیں ماسیاں
ماسی کو ہیں شکایتیں اپنی کولیگ سے
اک دوسرے کو نیچا دکھاتی ہیں ماسیاں
یعنی اسامیوں سے ہیں زائد امیدوار
جاتی ہے ایک، دو نئی آتی ہیں ماسیاں
دشواریاں ہیں کام میں جن بیگمات کو
دن بھر سو ان کا ہاتھ بٹاتی ہیں ماسیاں
شوہر کو کیوں گلہ نہ ہو خاتونِ خانہ سے
فارغ ہیں آپ، گھر تو چلاتی ہیں ماسیاں
ان ہی کے دم سے آج محلے میں ربط ہے
قصے یہاں وہاں کے سناتی ہیں ماسیاں
ہوتی ہیں دیس میں تو بہت انڈر ایسٹِمیٹ
پردیس جا کے یاد پھر آتی ہیں ماسیاں
بنتے ہیں بے جواز گداگر یہاں جو لوگ
محنت کا درس ان کو پڑھاتی ہیں ماسیاں