This Content Is Only For Subscribers
جتنی جلدی تشخیص ہو گی ، اسی قدر کامیاب علاج ممکن ہوگا
انسان کسی بھی نوعیت کے مرض میں مبتلا ہو تو خود کو انتہائی بے بس محسوس کرتا ہے اور بسا اوقات زندگی سے انتہائی مایوس ہو جاتا ہے ۔ اسی بناء پر خوش گوار زندگی کو صحت اور تندرستی سے مشروط سمجھا جاتا ہے ۔ نبی اکرامﷺ کی ایک حدیث مبارکہ بھی ہے جس میں آپ ؐ نے نصیحت فرمائی ہے کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ صحت کو بیماری سے پہلے ۔ بعض عوارض اپنی نوعیت کے اعتبار سے کافی خطرناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں ۔ کینسر کا مرض میں انہی میں سے ایک ہے ۔ ٹیکنالوجی ، انفارمیشن اور جدت کی اس دنیا میں اگرچہ کینسر اب لا علاج نہیں رہا تاہم بعض صورتوں میں یہ مرض اب بھی باقی تمام امراض کے مقابلے میں کافی خطر ناک ہے ۔
کینسر کا مرض اور اموات کی شرح
WHOکے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں کینسر کے مریضوں کی تعداد18.1ملین ہے ۔ ادارے کی تحقیق کے مطابق کینسر دنیا بھر میں اموات کی وجہ بننے والی بڑی بیماری ہے ۔ گزشتہ سال دنیا بھر میں کینسر کے باعث 9.6ملین اموات رپورٹ ہوئیں ۔ عالمی سطح پر 6میں سے 1موت کینسر کی وجہ سے ہوتی ہے ۔70فیصد اموات کا تعلق کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک سے ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے مختلف میڈیا رپورٹس میں بتایا جاتا ہے کہ ملک میں کینسر کے14لاکھ مریض ہیں اور ہر سال 80ہزار لوگ اس بیماری کی وجہ سے اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں ۔ طبی ماہرین کے خیال میں پاکستان میں کینسر کے مریضوں کی اصل تعداد اس سے زیادہ ہے کیونکہ بہت سے کینسر رپورٹ نہیں ہوتے ۔ کینسر یا سر طان کا تعلق انسانی جسم میں موجود خلیات کی خرابی سے ہے ۔ یہ بیماری اس وقت لاحق ہوتی ہے جب جسم کے کچھ خلیات معمول (Normal)کی رفتار سے اپنی نشوونما جاری نہ رکھ پائیں اور تیز رفتاری سے اپنی تعداد اور جسامت میں اضافہ (Grow)کرنا شروع کر دیں ۔ یہ تعداد اور جسامت بڑھتے بڑھتے ایک بڑے مجموعے کی شکل اختیار کر لیتی ہے جسے ٹیومر ، ورم یا رسولی کہا جاتا ہے ۔ اسی سے کینسر کی بیماری جنم لیتی ہے ۔
کینسر کی متعدد اقسام ہیں ، پاکستان میں پھیپھڑوں، منہ اور چھاتی کے کینسر خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔ بد قسمتی سے پھیپھڑوں اور منہ کے کینسر کی وجہ صرف اور صرف مریض خود بنتے ہیں ۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ پھیپھڑوں کا کینسر اور منہ کا کینسر مریض خود خریدتے ہیں ۔اس بات کا تشریح یوں کی جاتی ہے کہ منہ اور پھیپھڑوں کا کینسر 90فیصد ایسے افراد کو ہوتا ہے جو پان ، چھالیہ گٹکا ، تمباکو، سگریٹ اور شراب کا بے جا اور انتہائی زیادہ استعمال کرتے ہیں ۔ دوسری جانب چھاتی کا کینسر بھی ہمارے ملک کا ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ پاکستان ایشیا بھر میں بریسٹ کینسر کے مریضوں کی سب سے بڑی تعداد والا ملک ہے ۔ یہاں ہر نویں خاتون کو بریسٹ کینسر کے خطرے کا سامنا ہے ۔ 40ہزار خواتین ہر سال اس بیماری کی وجہ سے اپنی جانیں کھو بیٹھتی ہیں ۔ ہر سال 90ہزار خواتین اس بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں۔
اس وقت دنیا بھر میں کینسر کے مریضوں کی تعداد بلحاظ اقسام درج ذیل ہیں :
(۱) پھیپھڑوں کا کینسر (2.09ملین مریض)
(۲) چھاتی کا کینسر (2.09ملین مریض)
(۳) Colorectalکینسر(1.80ملین مریض)
(۴)پروسٹیٹ کا کینسر (1.28ملین مریض)
(۵) جلد کا کینسر Non-Melanoma(1.04ملین مریض)
(۶) معدے کا کینسر (1.03ملین مریض)
منہ کا کینسر
Globocanکی رپورٹ کے مطابق منہ کا کینسر پاکستان میں مردوں میں سب سے زیادہ شرح اموات کا باعث ہے ۔ یہ 90فیصد ایسے افراد کو ہوتا ہے جو پان ، چھالیہ ،گٹکا ، تمباکو، سگریٹ اور شراب کا بے جا اور کثرت سے استعمال کرتے ہوں ۔ ایسے لوگ در حقیقت خود اپنے لیے کینسر خریدتے ہیں ۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کو مہنگے آپریشن اور ریڈیائی شعائوں کے صبر آزما اور تکلیف دہ پیچیدہ عمل سے گزارنا پڑتا ہے ۔ تمام تر علاج کے باوجود 40-45اس مرض سے جانبر نہیں ہو پاتے۔ جو 50-55فیصد افراد اس مرض سے بچ جاتے ہیں ، انہیں ایک مشکل زندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کا معیار زندگی انتہائی پست رہ جاتا ہے ۔ افسوس ناک عمل یہ ہے کہ شفایاب افراد میں سے کچھ علاج کے بعد دوبارہ سے چھالیہ کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس سے منہ ، گلے اور کھانے کی نالی میں سرطان کے دوسرے کینسر کا خطرہ منڈلانا شروع کر دیتا ہے ۔ مختصراً منہ کے کینسر کا علاج منہ کی عادت سے بچائو میں پنہا ہے ۔ اس سلسلے میں عوامی آگاہی اور مضر صحت اجزا کی فروخت کو محدود کرنا ہی باعث کامیابی ہوگا۔
چھاتی کا کینسر
چھاتی کے کینسر کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو ابتدائی سٹیج پر تشخیص کر لیا جائے کیونکہ اس صورت میں سو فیصد اس بیماری پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس ضمن میں امریکن سوسائٹی آف کینسر نے کچھ رہنما اصول متعین کیے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے بریسٹ کو ابتدائی مراحل پر ہی پکڑا جا سکتا ہے ۔
(۱) جب کسی خاتون کی عمر 20سال ہو جائے تو اسے ہر مہینے اپنی چھاتی کا خود معائنہ کرنا چاہیے۔
(۲) جب کسی خاتون کی عمر 20سے39سال کے درمیان ہو تو اس کو ہر تین سال میں ایک مرتبہ ڈاکٹر سے معائنہ کروانا چاہیے۔
(۳) جب کسی خاتون کی عمر 40سال سے زیادہ ہو جائے تو اسے سال میں ایک مرتبہ ڈاکٹر یا معائنہ اور میمو گرافی کروانی چاہیے۔
چھاتی کے کینسر کی ابتدائی علامات میں گلٹی کا بننا ایک اہم علامت ہے ۔ اس کی صحیح وجہ تو عام معلوم نہیں ، تاہم کچھ خطرہ بڑھانے والے اسباب اس کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ اگر خاندان میں کسی کی نانی ، خالہ ، والدہ یا بہن کو یہ بیماری ہے تو ایسی عورت میں عام عورتوں کے مقابلے میں خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔ جن خواتین میں ماہانہ مخصوص ایام (Menstrual cycle)جلدی یعنی گیارہ سال کی عمر سے پہلے شروع ہو جائیں اور دیر تک رہتے ہوں ان میں بھی اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے ۔ اولاد کا نہ ہونا یا پہلا بچہ 30سال کی عمر کے بعد ہونا بھی چھاتی کے کینسر کے خطرے کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ یہ خواتین بھی زیادہ عرصے تک زنانہ ہارمون ایٹروجن کے اثر میں رہتی ہیں ۔ اس کے علاوہ موٹاپا ، جسمانی کام نہ کرنا اور آرام دہ زندگی ، ہار مونز پر مشتمل ادویات کا استعمال اور شراب نوشی بھی بریسٹ کینسر کی وجہ بن سکتے ہیں۔
بریسٹ کینسر کی جلد تشخیص سے جان بچنے کا 90فیصد امکان ہے لیکن بد قسمتی سے بریسٹ کینسر کو جلد رپورٹ کرنے کی شرح انتہائی کم ہے ۔
پھیپھڑوں کا کینسر
اکثر اوقات پھیپھڑوں کے کینسر کی ابتدائی کسی علامت کے بغیر ہوتی ہے ۔ بعض دوسری وجوہات کی بناء پر پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوتی ہے ۔ اکثر اوقات سینے کے ایکسرے یا کسی اور وجہ سے ہونے والے سی ٹی سکین سے ہی کینسر کا پتہ چلتا ہے لیکن زیادہ تر لوگوں میںپھیپھڑوں کے کینسر کی علامات مختلف شکلوں میں ظاہر ہو جاتی ہے جن میں سے کچھ اہم علامات میں مسلسل کھانسی ، کھانسی کے ساتھ خون کا آنا، آواز میں تبدیلی ، سانس لینے میں دشواری، سانس میں خراخراہٹ ،وزن میں متواتر کمی شامل ہے ۔ کھانسی میں اگر علاج کے باوجود کوئی بہتری نظر نہ آئے اور تھوک میں خون بھی آنا شروع ہو جائے تو یہ پھیپھڑے کے کینسر کی ابتدائی علامت ہو سکتی ہے ۔ ایسی صورت میں احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ فوراً ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے ۔ شہرکے لوگوں میں پھیپھڑوں کے کینسر کا رسک اس لیے بھی زیادہ ہے کہ عمومی طور پر ہمارا شہری ماحول دیہات کی نسبت زیادہ آلودہ ہے، جبکہ سگریٹ نوشی بھی عام ہے ۔
اس کے علاوہ اپنے وزن کے بارے میں بھی محتاط رہنا چاہیے ۔ اگرچہ ہمارے معاشرے میں وزن کم یا زیادہ ہونا عام سی بات ہے تاہم مختصر مدت میں غذا او ورزش کی تبدیلی کے بغیر اگر وزن تیزی سے کم ہو تو یہ کینسر کی علامت ہو سکتی ہے ۔مختصر مدت میں تیزی سے وزن میں کمی زیادہ سنگین ہوتی ہے ۔ خاص طور پر اگر وزن میں کمی کے ساتھ ساتھ تھکاوٹ اور کمزوری بھی محسوس ہو تو ڈاکٹر سے ضرور رابطہ کرنا چاہیے۔
مختصر مدت میں غذا او ورزش کی تبدیلی کے بغیر اگر وزن تیزی سے کم ہو تو یہ کینسر کی علامت ہو سکتی ہے ۔مختصر مدت میں تیزی سے وزن میں کمی زیادہ سنگین ہوتی ہے ۔ خاص طور پر اگر وزن میں کمی کے ساتھ ساتھ تھکاوٹ اور کمزوری بھی محسوس ہو تو ڈاکٹر سے ضرور رابطہ کرنا چاہیے۔
کینسر اور کورونا وائرس
کینسر کی تشخیص اور علاج کے متعلق جاننے سے قبل ضروری ہے کہ کینسر کے ممکنہ یا کنفرم مریضوں پر کورونا وائرس کے مضر اثرات کے بارے میں کچھ بنیادی چیزیں سمجھ لی جائیں ۔ہم جانتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کا شکار ہے ۔ یہ وائرس انسانی پھیپھڑوں اور بعض اوقات دماغ پر حملہ آور ہوتا ہے ۔ یہ وائرس عمومی حالات میں مہلک نہیں ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ انسان کو موت کی دہلیز پر پہنچا دیتا ہے ۔ چونکہ اس وائرس سے بچائو کا کوئی طریقہ علاج بشمول ویکسین تاحال میسر نہیں ہے اس وقت اس کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کو اختیار کرنا واحد ذریعہ ہے ۔ اب تک اس وائرس کے حوالے سے جو تحقیق سامنے آئی ہے اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ ایسے مریض جو کینسر میں مبتلا ہوں ، وہ اس وائرس کا آسان شکار ہو سکتے ہیں کیونکہ ان میں پہلے ہی اس بیماری کے سبب قوت مدافعت انتہائی کمزور ہوتی ہے ۔ کینسر کے ایسے مریض جو ذیل میں سے کسی گروپ میں شامل ہیں ، انہیں بالخصوص بہت زیادہ احتیاط کرنی چاہیے اور مسلسل اپنے ڈاکٹرز کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہیے تاکہ وہ کورونا کے سبب ہونے والی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکیں ۔
۱۔ کیمو تھراپی کرانے والے ۔
۲۔پھیپھڑوں کے کینسر کے لیے ریڈیو تھراپی کرانے والے۔
۳۔ خون یا بون میرو کے کینسر میں مبتلا افراد جوعلاج کے کسی بھی مرحلے پر ہوں ۔
۴۔کینسر کے ایمیونو تھراپی یا دیگر Continuing Antibody علاج کرانے والے۔
۵۔ کینسر کے ایسے طریقہ علاج کو اختیار کرنے والے جس سے ان کی قوت مدافعت کمزور ہو مثلاًPARP inhibitors /protein kinase inhibitors
۶۔ جن کا گزشتہ چھ ماہ میں بون میرو یا stem cellٹرانسپلانٹ ہوا ہو یا وہ ابھی تک immunosuppressionادویات استعمال کر رہے ہوں۔
حوالہ : https://www.cancerresearchuk.orn/
اگر کینسر کا کوئی مریض مذکورہ بالا گروپس میں شامل نہیں تو اسے کورونا سے بچائو کو عمومی احتیاطوں کولازمی طور پر اختیار کرنا چاہیے جن میں مسلسل ہاتھوںکو دھونا ، ماسک پہننا ، دوسروں کے ساتھ فاصلہ رکھنا ، ہجوم میں جانے سے گریز کرنا اوردیگر ہدایات پر عمل شامل ہے اس کے نتیجے میں کورونا وائرس کے خطرے سے محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔ کینسر کے وہ مریض جو ماضی میں اس کا شکار رہے ہوں اور اب تندرست زندگی گزار رہے ہوں انہیں بھی ان احتیاطوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ۔ اس لیے کہ کینسر کے علاج سے مدافعتی نظام کا فی حد تک کمزور ہو جاتا ہے اور واپس اپنی اصل حالت میں آنے کے لیے اسے کچھ وقت در کار ہوتا ہے ۔ بعض ماہرین کے خیال میں ماضی میں اگر کسی کو کینسر کا مرض لاحق رہا ہو تو علاج مکمل ہونے کے بعد اس کا امکان موجود نہیں کہ وہ کمزور افراد کے گروپ میں شامل ہو ۔ تاہم اسے عام افراد کی طرح عمومی احتیاطوں کو لازمی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
عام طور پر کینسر کے مرض یا اس سے ہونے والی ایک تہائی اموت کا تعلق ہمارے روز مرہ طرز زندگی اور غذا سے ہے ۔ ماہرین اس ضمن میں درج ذیل امور کی نشاندہی کرتے ہیں :
(۱) باڈی ماس انڈیکس کی زیادتی
(۲) فروٹ اور سبزیوں کا کم استعمال
(۳)جسمانی سر گرمی نہ ہونا
(۴) تمباکو کا استعمال
(۵) شراب نوشی
ان میں سے تمباکو کا استعمال سب سے خطر ناک عنصر ہے جو کہ اندازاً22فیصد اموات کا باعث ہے۔ ہمارے ہاں پان ، چھالیہ ، گٹکا ، تمباکو ، سگریٹ وغیرہ کا استعمال عام ہے ۔ گٹکے اور چھالیہ کی بے دریغ ترسیل اور فراہمی اس بیماری میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں ۔ اس امر
کے باوجود کہ قانون سازی ایسی تمام اشیاء کو مانع صحت قرار دیتی ہے ، چھالیہ اور گٹکے کی بے دریغ فروخت نہ صرف بازار کی زینت بنتی ہے بلکہ اسکول اور اعلیٰ تعلیمی درس گاہیں بھی اس نشے سے محفوظ نہیں ہے ۔افسوس ناک عمل یہ ہے کہ شفایاب افراد میں سے کچھ علاج کے بعد دوبارہ سے چھالیہ کی لت میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس سے منہ ، گلے اور کھانے کی نالی میں سرطان کے دوسرے کینسر کا خطرہ منڈلانا شروع ہو جاتا ہے ۔
تشخیص و علاج
کینسر کی تشخیص کے لیے biopsyیا مختلف ٹیسٹ کیے جاتے ہیں ۔ جسم کے متاثرہ حصے سے چھوٹا یابڑا ٹکڑا (piece)نکالنے کو biopsyکہا جاتا ہے جس کے بعد اس ٹکرے کا مائیکرو سکوپ کے ذریعے معائنہ کیا جاتا ہے کہ اس میں کینسر موجود ہے یا نہیں ۔ بریسٹ کینسر کے مرض کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر سے چھاتیوں کا معائنہ ، الٹرا سائونڈ ، ایکسرے یا میمو گرافی کروائی جاتی ہے ۔
کینسر کی موجودگی کی تصدیق کے بعد اس چیز کا تعین کیا جاتاہے کہ آیا کینسر محدود ہے یا دیگر اعضاء تک پھیل چکا ہے ، جس کے لیے مختلف قسم کے ٹیسٹ ، ایکسر ے اور سی ٹی سکین سے مدد لی جاتی ہے ۔ اگلے مرحلے پر stagingکی جاتی ہے ۔stagingکرتے ہوئے ٹیومر کا سائز دیکھا جاتا ہے ، اس کے پھیلائو کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔ stagingکرتے ہوئے مریض کی عمومی صحت، آپریشن کے لیے اس کی سکت اور طاقت کا تعین کیا جاتا ہے ، جس کے بعد علاج کا مرحلہ شروع ہو تا ہے ۔ کینسر کا علاج تین طرح سے ہو سکتا ہے ۔
(۱) سرجری
(۲) کیمو تھراپی
(۳) ریڈی ایشن یا شعاعوں کا لگنا
اگر ٹیومر اپنی جگہ محدود اور سائز میں چھوٹا ہو تو سرجری سے اس کا علاج کیا جاتا ہے ۔ سرجری کی صورت میں زیادہ امکان موجود ہوتا ہے کہ مرض کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جا سکے اور اس کے بعد مریض عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکے ۔ اگر ٹیومر پھیل چکا ہو اور سرجری کے ذریعے علاج ممکن نہ ہو تو کیموتھراپی کی جاتی ہے جس میں دوا کے ذریعے اس مرض کا علاج کیا جاتاہے۔ اس میں انجکشن اور ادویات (tablets)دونوں شامل ہوتی ہیں جنہیں مناسب وقفوں سے مریض کو دیا جاتا ہے ۔ ہمار ے پیش نظر رہنا چاہیے کہ کیمو تھراپی کے ساتھ side effects بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس طریقہ علاج کو اس لیے اختیار کیا جاتا ہے کہ اس موقع پر اصل مقصد مریض کی جان بچانا ہوتا ہے ۔ کینسر کے علاج کا تیسرا طریقہ Radiation therapyہے جس میں شعائوں کے ذریعے کیسنرCellsکا خاتمہ کیا جاتا ہے ۔ یہ بات مد نظر رہنی چاہیے کہ کیمو تھراپی یا ریڈیشن تھراپی اس مرض کو جڑ سے ختم نہیں کرتا بلکہ اس سے کینسر کے پھیلائو کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔
جلد تشخیص ، کامیاب علاج
کینسر کے بارے میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کی جتنی جلدی تشخیص ہو گی ، اسی قدر کا میاب علاج ممکن ہوگا ۔اس کے ساتھ ساتھ منہ کی عادات کو کنٹرول کر کے بھی یعنی پان ، چھالیہ ، گٹکا ، تمباکو، سگریٹ اور شراب کے استعمال سے باز رکھ کر بھی خود کو اس موذی بیماری سے محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔ کیسنر کے نتیجے میں نہ صرف مریض بلکہ پورے خاندان کو تکلیف دہ حالات سے گزرنا پڑتا ہے ، اس کے علاج کے مشکل مراحل در پیش ہوتے ہیں اور اضافی معاشی ، بوجھ اٹھانا پڑتا ہے جس کے اکثر اوقات ہم متحمل نہیں ہو سکتے اور نا مکمل علاج کے باعث اپنی جان کو خطرے سے دو چار کر دیتے ہیں اس بناء پر ایسا طرز زندگی اختیار کرنا چاہیے جس میں کینسر کے امکانات کو کم کیا جا سکے اور تمباکو نوشی، چھالیہ ، گٹکا جیسی اشیاء کے استعمال سے سختی کے ساتھ پرہیز کرنا چاہیے۔
٭…٭…٭