’’مجھے نہیں کھانے یہ بینگن…. آپ کو کچھ بھی اچھا پکانا نہیں آتا مما…. ہر وقت یہ سبزیاں پکا کر رکھ دیتی ہیں‘‘ تابش نے ناگواری سے ٹرے پیچھے کھسکائی۔
’’تمہارے بابا کوئی مل اونر نہیں ہیں جو روز مرغ مسلّم بناؤں گی۔اتنی مہنگائی ہے اتنی مشکل سے خرچہ پورا کرتی ہوں پر نواب صاحب کے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے‘‘۔
مریم غصےمیں ذرا اونچی آواز میں بولی، پر آج کے بچے کب کسی کی اونچی آواز برداشت کرتے ہیں خواہ سامنے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔
’’تو یہ بینگن بھی نہ پکاتیں، اپنی بچت کا گلّہ بھر لیتیں…. ہم بھوکے مریں آپ کو اس سے کیا‘‘ تابش نے چیخ کر جواب دیا اور ٹرے کو مزید زور سے دھکیلتا ہوا تن فن کرتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔ مریم بھی غصہ میں اس کو مارنے کو لپکی پر تابش دروازہ مقفل کرچکا تھا۔
مریم کا دماغ کھولنے لگا، وہ بڑبڑاتی ہوئی فرش پر گری سبزی صاف کرنے لگی۔
مریم کے تین بچے تھے بڑا بیٹا تابش جو چودہ سال کا تھا اور دس سال کی جڑواں بیٹیاں ثانیہ اور ہانیہ ‘تابش حد سے زیادہ خود سر ہوگیا تھا نہ آنکھ میں مروت رہی تھی نہ زبان میں لحاظ ‘بچپن ہی سے تھوڑا ضدی تو تھا پر اتنا تنگ کبھی نہیں کیا تھا جتنا پچھلے کچھ مہینوں سے کرنے لگا تھا ہر وقت چیخنا چلانا ہر بات میں من مانی، جب سے آٹھویں کلاس میں گیا تھا اس کو اپنے ماحول اپنے طرزِ زندگی سے شکایت رہنے لگی تھی مریم کو لگتا شاید اسکول میں لڑکوں کی صحبت ٹھیک نہیں ہے مریم روز بروز تابش پر مزید سختی بڑھا رہی تھی پر فائدہ کچھ نہ ہو رہا تھا تابش کے بابا فکرِ معاش میں اتنے مصروف تھے کہ ان کے پاس بھی تابش کےلیے وقت نہ تھا ۔
مریم ‘ تابش کو بگڑتا دیکھ رہی تھی اور ازحد پریشان تھی پر سجھائی کچھ نہ دے رہا تھا۔
پڑوس میں شاید نئے لوگ آئے تھے ۔چار پانچ نوجوان ٹرک سے سامان اتار کےگھر کے اندر لے جارہے تھے۔ مریم دو چار دفعہ کھڑکی سے جھانک آئی تھی کوئی خاتون نظر نہیں آرہی تھی۔ مریم کے دل میں تجسس اٹھ رہا تھا کیا پڑوس کا گھر ان چھڑے چھانٹ لڑکوں نے لے لیا تھا ؟ اگرچہ لڑکے سارے معقول ہی لگ رہے تھے پر محلے میں فیملی کے بغیر صرف اکیلے لڑکے آکے رہیں اس بات کو آج بھی معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا ۔خاندان کی اہمیت ابھی برقرار تھی لوگ یوں اکیلے لڑکوں کے رہنے سے الجھن محسوس کرتے تھے۔ مریم بھی دل میں یہ ہی دعا کر رہی تھی کہ کوئی اچھے پڑوسی آئیں ۔
سامان تقریباً گھر کے اندر پہنچا دیا گیا تھا کہ ایک کار آکے رکی جس میں سے ادھیڑ عمر میاں بیوی اترے۔ مریم نے شکر ادا کیا ۔کچھ فربہ جسم کی باوقار خاتون تھیں ،مریم کو پہلی نظر میں ہی اچھی لگیں۔ اس نے پہلی فرصت میں ان سے ملاقات کا ارادہ کیا اور دوسرے ہی دن ان سے ملنے بھی چلی گئی۔ سلیمہ بھابھی نہایت ہی نرم مزاج خاتون تھیں۔ جب بات کرتیں تو دل چاہتا وہ بولتی رہیں اور چپ کرکے ان کو سنتے رہو۔ چھ بیٹے تھے اللہ نے بیٹی کوئی نہ دی تھی پر گھر جا کر محسوس نہ ہوا کہ گھر میں بیٹی نہیں ہے۔ وہ ان کے گھر گئی تو ایک بیٹا صحن دھو رہا تھا اور ایک کچن میں ماں کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ سلیمہ بھابھی مریم کو دیکھ کر کچن سے نکل آئیں اور اسے لے کر ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئیں۔ ان کے چائے پانی کا انتظام بھی ان کے بیٹے نے ہی کیا۔ مریم کو تو بڑی حیرت ہوئی اور اس نے اپنی حیرت کا اظہار ان سے کر بھی دیا۔
’’ماشاءاللہ آپ کے بیٹے تو بہت فرمانبردار ہیں آپ نے ان کی بہت اچھی تربیت کی ہے میرا تو ایک ہی بیٹا ہے وہ ہی میرے قابو میں نہیں آتا آپ نے پتہ نہیں کیسے چھ بیٹوں کو کنٹرول کیا ہوگا ‘‘۔
سلیمہ بھابھی بس مسکرا دیں پہلی ملاقات تھی کیا تفصیل بتاتیں۔
سلیمہ نے بہت خلوص سے ان کو گھر آنے کی دعوت دی اور اپنے گھر آنے کا وعدہ لے کر ہی اٹھی۔
شام کو اکیڈمی کا وقت ہوگیا تھا مگر تابش ابھی تک تیار ہوکر نہیں آیا تھا مریم گھڑی دیکھ کر پریشان ہوگئی اور آٹا گوندھتے ہوئے تابش کو زور زور سے آوازیں دینے لگی دونوں چھوٹی بیٹیاں تیار ہوکر کب کی ٹیوشن جا چکی تھیں پر تابش کے کانوں میں جوں ہی نہ رینگ رہی تھی مریم نے غصہ میں جلدی جلدی آٹا سمیٹا اور جا کے دھاڑ سے تابش کے کمرے کا دروازہ کھولا تابش تیز تیز بولتا ہؤا ٹیب میں کوئی گیم کھیلنے میں مصروف تھا ماں کو دیکھ کر منہ پر انگلی رکھ کر چپ رہنے کا اشارہ کیا پر مریم چیختی ہوئی اس کے سر پر پہنچی۔
’’ گھڑی دیکھی ہے اکیڈمی کا وقت ہوچکا ہوش ہی نہیں ہے جانے کا، ٹیسٹ ہونے والے ہیں پر کوئی احساسِ ذمہ داری ہی نہیں ہے ہر وقت اس نحوست مارے ٹیب میں گھسے رہتے ہو‘‘۔
تابش نے ٹیب بند کر کے زور سے بیڈ پر پھینکا۔
’’منع کیا تھا بولیے گا نہیں پر آپ کو تو ہر وقت چلانا ہوتا ہے اسپیکر کھلا ہؤا تھا آپ کی سب آواز میرےدوستوں کو گئی ہے ہر وقت ہمیں تمیز سکھانے کی پڑی رہتی ہے خود اتنے مینرز نہیں ہیں کہ کسی کے کمرے میں دستک دے کر آنا چاہیے‘‘۔
مریم اتنی بد تمیزی پر بل کھا کے رہ گئی آخر وہ اس لڑکے کا کیا علاج کرے۔
’’اسکول سے آکر سارا وقت تم کمرہ بند کیے پڑے رہتے ہو چار چار گھنٹے اس ٹیب میں آنکھیں گاڑھے رہتے ہو پڑھنے لکھنے کی کوئی روٹین نہیں ہے اور مینرز تم ماں کو سکھاؤ گے کل سے تم کمرہ بند نہیں کروگے صرف ایک گھنٹہ کھیلو گے وہ بھی لاؤنج میں بیٹھ کر‘‘۔
’’ایک گھنٹہ کی بھی کیا ضرورت ہے اس ایک گھنٹے میں بھی آپ میرے گلے میں رسی ڈال کر اپنے سامنے لاؤنج میں باندھ لیجئے گا‘‘۔تابش نے ٹیب اٹھا کر فرش پر دے مارا اور بیگ اٹھا کر باہر نکل گیا ۔
مریم سکتے کی حالت میں فرش پر پڑے ٹیب کو دیکھتی رہ گئی جو اب چار ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ پانی بہنے لگا یہ بےبسی کے آنسو تھے جو کسی طور رکنے کو تیار نہ تھے جانے کتنی دیر گزری تھی کہ کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ چونک کر مڑی پیچھے سلیمہ بھابھی کھڑی تھیں اس کو یوں آنسو بہاتے دیکھ پریشان ہوگئیں۔
’’کیا ہؤا مریم ایسے کیوں رو رہی ہو گھر کا دروازہ بھی پورا کھلا ہؤا ہے سب خیریت تو ہے نا؟‘‘ ان کا ذہن کسی واردات کی طرف گیا تھا۔
’’جی جی سب خیریت ہے ابھی تابش اکیڈمی گیا ہے شاید وہ کھلاچھوڑ گیا ہو گا آپ آئیے‘‘۔
مریم جلدی سے چہرہ صاف کرتی زبردستی مسکرائی اور ان کو لے کر لاؤنج کی طرف بڑھ گئی کتنے غلط وقت پر آگئی تھیں سلیمہ بھابھی، مریم نے کوفت سے سوچا جب کہ وہ خود ہی دعوت دے کر آئی تھی ۔
ان کو صوفہ پر بٹھا کر وہ باہر آگئی منہ پر دو چار چھپکے مارے ایک گلاس پانی پی کر اوسان بحال کیے اور پانی کی بوتل لے کر واپس لاؤنج میں آئی۔
مریم کو کیا پتہ تھا کہ وہ کتنے صحیح وقت پر آئی تھیں ان کو آج غیب کی طرف سے مریم کے لیے مددگار بنا کر بھیجا گیا تھا۔
’’کیا ہؤا مریم اتنی پریشان کیوں ہو کوئی مسئلہ ہوگیا ہے‘‘۔ انہوں نے پانی پیتے ہوئے مریم کی سوجی آنکھوں کو بغور دیکھا۔
’’نہیں بھابھی بس ایسے ہی دل بھر آیا تھا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔
’’دیکھو مریم اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے ایسے وقت جب تم اکیلی کھڑی آنسو بہار ہی تھیں مجھے تمہارے پاس بھیجنے کی بھی کوئی وجہ ہوگی میں بے شک تمہارا مسئلہ حل نہ بھی کر سکوں پر تمہیں تسلی تو دے سکتی ہوں تمہارے دل میں امید کی لو جلا سکتی ہوں تمہارے کاندھے پر دلاسے بھری تھپکی دے سکتی ہوں اللہ نے انسان کو ہی انسان کا سہارا بنایا ہے تم مجھ پر اعتبار کرسکتی ہو‘‘۔
سلیمہ بھابھی اتنی نرمی سے بول رہی تھیں اتنی اپنائیت تھی ان کے لہجہ میں کہ مریم کی ایک بار پھر آنکھیں چھلک پڑیں اس نے بے اختیار ہی اپنا دل ان کے آگے کھول کے رکھ دیا تابش کا بدلتا ہؤا رویہ اس کی بدتمیزیاں اپنی پابندیاں سدھارنے کی کوششیں سب گوش گزار کردیں مریم چپ ہوئی تو ایسا لگا دل ہلکا ہلکا ہوگیا ہو چھلکتی آنکھیں بھی خشک ہو چکی تھیں وہ ان سے معذرت کر کے کچن میں آئی اور جلدی سے چائے بنائی کچھ بسکٹ اور نمکو وغیرہ ٹرے میں رکھ کر لے آئی اب وہ ان کے بولنے کی منتظر تھی ۔
سلیمہ نے سنجیدگی سے اس کی منتظر نگاہوں کو دیکھا ۔
’’تمہاری روداد سن کر مجھے بہت تکلیف ہوئی مریم اور یہ تکلیف تابش کے نہیں بلکہ تمہارے رویہ سے ہوئی‘‘۔مریم نے کچھ حیرت سے ان کی طرف دیکھا۔
’’اولاد کو پال پوس کر بڑا کرنا الگ بات ہے اور ان کی تربیت کرنا دوسری بات، اللہ نے اگر ماں کا رتبہ عظیم رکھا ہے تو اس کی ذمہ داری بھی بڑی رکھی ہے اولاد کی تربیت اولاد کی پرورش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتی ہے اور جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی رہتی ہے طریقہ پرورش اور اندازِتربیت دونوں بدلتے رہتے ہیں اگر تم اب بھی تابش کے ساتھ وہ ہی رویہ رکھتی ہو جو تم بچپن سے رکھتی آئی ہو تو تم غلطی پر ہو‘‘۔
کیوں اب کیا فرق آگیا تابش ابھی بھی بچہ ہی تو ہے مریم نے الجھ کر پوچھا۔
’’بس تمہاری یہ ہی سوچ معاملات میں بگاڑ پیدا کر رہی ہے لڑکا ہو یا لڑکی ان کی لڑکپن کی عمر یعنی جسے ٹین ایج کہا جاتا ہے سب سے نازک عمر ہوتی ہے۔ یہ زندگی کا وہ موڑ ہوتا ہے جب بچہ اپنے بچپن سے نکل کر نو جوانی میں داخل ہورہا ہوتا ہے اس کے جسم میں ہارمونز کی تبدیلی ہورہی ہوتی ہے اس کی خوراک بڑھ جاتی ہے اس کا جوش وجذبہ بڑھ جاتا ہے ذہنی وسعت بڑھ جاتی ہے یہ وہ عمر ہوتی ہے جب ذہن بچے کو سگنل دیتا ہے کہ اب میں بڑا ہوگیا ہوں جبکہ والدین اور اساتذہ اس عمر کے بچوں کو چھوٹا بچہ ہی سمجھتے ہیں۔ ان پر وہ ہی حاکمیت اور سختی قائم رکھتے ہیں جو وہ بچپن سے رکھتے آئے ہیں یہیں سے اس عمر کے بچوں میں بدتہذیبی پنپتی ہے وہ چڑچڑے ہو جاتے ہیں‘‘۔ سلیمہ کا دھیما انداز مریم کے دل میں اتر رہا تھا۔
’’تو ایسے میں والدین کو کیا کرنا چاہیے اس نے بے تابی سے پوچھا‘‘۔
’’نہایت آسان اور سادہ سا حل ہے اگر بچہ خود کو بچہ نہیں سمجھ رہا اگرچہ ابھی بھی وہ بچہ ہی ہے اس کے پاس نہ تجربہ ہے نہ کوئی خاص مشاہدہ نہ ہی اپنےاچھے برے کی تمیز ہے پھر بھی وہ خود کو بڑا سمجھ رہا ہے تو والدین کو چاہیے وہ بھی اسے بچہ سمجھنا چھوڑ دیں اس کے ساتھ بھی وہ ہی انداز و اطوار اپنائے جائیں جو کسی بڑے کے ساتھ روا رکھے جاتے ہیں‘‘۔
’’مثلاً کس طرح ؟‘‘ مریم نے پر سوچ انداز میں پوچھا۔
’’مثلاً اس وقت ہم دونوں یہاں موجود ہیں ہم دونوں میں سے کوئی بھی بچہ نہیں ہے اس وقت اگر میں یہ بسکٹ پرے دھکیل کر بولوں کیا بےکار بسکٹ ہیں میں نہیں کھاتی یہ ،تو کیا تم پلٹ کر مجھے تھپڑ ماروگی‘‘ ۔
’’ارے نہیں‘‘ بے ساختہ مریم کے منہ سے نکلا۔
’’اچھا تو پھر یہ بولوگی تمہارے باپ کی ملیں نہیں چل رہیں جو نخرے دکھا رہی ہو‘‘ سلیمہ نے مسکرا کر پوچھا ۔
’’کیسی باتیں کر رہی ہیں بھابھی‘‘ مریم کچھ شرمندہ ہوگئی۔
’’اچھا تو دھیان سے سوچ کر بتاؤ تم کیا کروگی‘‘۔
مریم نے ایک لمحہ سوچا پھر بولی۔
’’ میرا دل آپ کی طرف سے خفا ہو جائے گا پھر بھی کوئی ردعمل نہیں دوں گی چپ چاپ آپ کے سامنے سے ٹرے اٹھا کر لے جاؤں گی اگر اس کی جگہ میرے پاس کوئی دوسری خاطر کی چیز ہوگی تو میں لے آؤں گی لیکن آپ سے پہلے کی طرح بے تکلفی سے بات نہیں کروںگی آپ کو خود ہی میرے خراب موڈ کا اندازہ ہو جائے گا‘‘۔
’’بالکل ہوجائے گا اور تمہیں پتہ ہے بارہ منٹوں کے اندر میں نادم بھی ہوجاؤگی اور گمان غالب ہے کہ اپنے برے رویے کی معافی بھی مانگ لوں کیونکہ سائنس کہتی ہے کہ غصہ ہو یا خوشی یا کوئی اور دوسرا جذبہ صرف بارہ منٹ ہی حاوی رہتا ہے پھر اس کا زور ٹوٹ جاتا ہے تو بس تمہیں تابش کی رویوں کی شدت میں کوئی بھی برا ردعمل نہیں دینا یہ شروعات ہے تاکہ تمہارے اور اس کے درمیان بدگمانی کی جو دیوار کھڑی ہوگئی ہے وہ گر سکے۔ اس کے بعد تم اس کو اہمیت دو گھریلو معاملات میں اس سے مشورے کرو اس کی چھوٹی موٹی غلطیاں نظر انداز کرو یہ عمر دودھ کے ابال کی طرح ہوتی ہے اگر آنچ دھیمی نہیں کروگی تو ان کو حدود سے نکلنے سے نہیں روک پاؤ گی‘‘ ۔
سلیمہ اسے سبھاؤ سے سمجھاتی جانے کےلیے کھڑی ہوگئیں۔
’’تھوڑی دیر اور ٹھہر جائیے نا بھابھی مجھے آپ سے بات کرکے بہت اچھا لگا پتہ ہے میری دوستوں کے واٹس ایپ گروپ پہ سب اپنے اپنے بچوں کے دکھڑے روتے ہیں پر اس طرح بچوں کی نفسیات کو کسی نے نہیں پکڑا‘‘۔
’’ دراصل مریم یہ ہمارے تمہارے والا سادہ دور نہیں ہے یہ اسکرین کا دور ہے ہماری زندگیوں میں روبرو گفتگو کے مواقع کم ہورہے ہیں نہایت قریبی تعلق داروں میں بھی رابطے ، موبائل کے محتاج ہیں اب نہ بزرگوں کے پاس بیٹھ کر ان کے تجربات سننے کا رواج رہا نہ بچوں کا سر گود میں رکھ کر سبق آموز کہانیاں سنانے کا تعزیت ہو یا عیادت، مبارکباد ہو یا پرسہ سب موبائل فون کے تابع ہؤا تو جب یہ ہمارے لیے اتنا ہی ضروری ہوگیا ہے تو ہم اس کا مثبت استعمال بھی تو کر سکتے ہیں نیٹ پر بچوں کی تربیت کے حوالے سےکتنی معلومات موجود ہیں اسلام کے حوالے سے بھی کافی مواد ہے تم اس سے مدد لے سکتی ہو اولاد کے لیے دعا کیا کرو یہ اللہ کا حکم ہے باقی اللہ نے ہم دونوں کو پڑوسی بنادیا مجھے ماشاءاللہ چھ بیٹوں کا تجربہ ہے جب بھی پریشان ہو میرے پاس آجایا کرو اللہ نے چاہا تو ہم دونوں مل کر تابش کو جلد ہی سدھار دیں گے‘‘ ۔
سلیمہ بھابھی نے ہنس کے کہا اور اجازت لے کر باہر کی طرف چل دیں مریم نے پر سوچ نظروں سے ان کو باہر جاتے ہوئے دیکھا اور تابش کے ساتھ اپنا رویہ بدلنے کا مصمم ارادہ کیا۔
ثانیہ ہانیہ ٹیوشن سے آئیں تو بھوک بھوک کا شور مچادیا۔
’’رک جاؤ تھوڑی دیر بھائی جان آجائیں تو ساتھ ہی کھانا کھانا ‘‘۔ مریم نے کہا ہی تھا کہ تابش بھی اندر داخل ہؤا منہ سوجا ہؤا تھا وہ مما سے ناراض تھا اسے پتہ تھا اسے دیکھتے ہی مما نے اس کی شامت لینی ہے اسے خود بھی ٹیب ٹوٹنے کا دکھ تھا کتنی مشکل سے اپنی جیب خرچ میں سے پیسے جمع کر کے لیا تھا وہ لاؤنج میں بیگ ڈال کر خود بھی صوفہ میں دھنس گیا۔
’’آجاؤ تابش بیٹا کھانا کھالو‘‘ مریم اسے بلانے اس کے پیچھے آئی۔
’’کیا پکایا ہے؟ ‘‘مما کو یوں نارمل انداز میں بات کرتے دیکھ کر اس کو حیرت ہوئی۔
’’پکایا تو بھنڈی پیاز ہے پر دو کباب رکھے تھے تو میں نے انڈے والا برگر بنادیا آجاؤ فٹافٹ ہاتھ دھو کے‘‘۔
مما مجھے بھی برگر کھانا ہے ثانیہ جھٹ سے بولی
’’جی بیٹا دو برگر بنائے ہیں ایک بھائی کا ہے اور ایک تم دونوں کاــ‘‘۔
’’کیوں جب بھائی کا پورا ہے تو ہم دونوں کا آدھا آدھا کیوں ہے؟‘‘ہانیہ نے اعتراض اٹھایا
’’بھئی بھائی بڑا ہے نا اس لیے بھائی کا پورا ہے تم دونوں چھوٹی ہو اس لیے تم دونوں مل کے کھانا جب بھائی جتنی بڑی ہوجاؤ گی تو تم کو بھی پورا پورا دیا کروں گی ‘‘۔
مریم بچیوں کو پچکار رہی تھی پر کن انکھیوں سے تابش کو دیکھ رہی تھی۔ ماں کے اتنے سے جملے سے ہی اس کے چہرے پر مسکراکٹ آگئی تھی۔
وہ بچیوں کو لے کر دستر خوان تک آئی تابش بھی پیچھے پیچھے آگیا ناراضگی اپنی جگہ پر بھوک اپنی جگہ۔
مریم نے پورا برگر تابش کے آگے رکھا اور آدھا آدھا بچیوں کے ‘ لیکن بچیوں کو کھانے سے روک دیا۔
’’پہلے آدھی آدھی روٹی سے سبزی کھاؤ پھر برگر کھانا تاکہ پیٹ بھی بھر جائے اور آخر میں منہ کا ذائقہ بھی اچھا ہوجائے‘‘۔
بچیاں چپ چاپ پہلے سبزی کھانے لگیں تابش کو بھی آدھا برگر کھا کے اندازہ ہوگیا کہ صرف برگر سے اس کا پیٹ نہیں بھرے گا اس نے بھی اپنا باقی کا آدھا برگر آخر میں کھانے کے لیے سائیڈ میں رکھا اور سبزی کی طرف ہاتھ بڑھا دیا مریم زیرِلب مسکرادی ۔
اس کی سمجھ آگیا تھا کہ کچی مٹی کا سانچہ جب اپنی حتمی مراحل میں پہنچتا ہے تو اس کو مضبوط اور بےعیب شکل دینے کے لیے ہاتھ کو نرم رکھنا ہی پڑتا ہے۔
اس کویقین ہو چلا تھا کہ اس کے دل سے نکلی ہوئی دعائیں اور نئی حکمت عملی اس کے تھوڑے سے بگڑے بچے کو جلد ہی فرمانبردار اولاد میں ڈھال لے گی۔
اک نئی راہ دکھانے کے لیے اسے سلیمہ بھابھی کا بھی خاص شکریہ ادا کرنا تھا۔٭
٭ ٭