کنویں کی منڈیر کے ساتھ ٹیک لگا کر اپنے دوست کے ساتھ کھڑا منہ میں تنکا دبائے دور سے آتی ہوئی چھمک چھلو سی لڑکی کو وہ بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔
’’اس کے بارے میں کیا خیال ہے پھر….‘‘ اس نے فیقے کو کہنی مار کر کہا۔
فیقا سٹپٹا سا گیا ’’کس کے بارے میں؟‘‘
’’یار وہ سامنے سے آ رہی ہے جو ….کیوں نہ آج اس کوچھیڑا جائے!‘‘
اور فیقے نے جو اس طرف دیکھا تو خوف سے آنکھیں ابل کر باہر آ گئیں۔
’’ اوئے ناں ناں ….اسے نہیں‘‘۔
فیقے کی بات اور تاثرات کا جائزہ لیے بغیر اس نے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے بیروں میں سے ایک لیا اور اس چھمک چھلو کی طرف اچھال پھینکا۔
غراتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے وہ من موہنی صورت قریب آئی ، للکارتی ہوئی شیرنی کی طرح جھپٹی۔
’’ابے اوئے ….تمہاری جرأت کیسے ہوئی؟ ٹانگیں تڑوا دوں گی ، آنکھیں نکلوا دوں گی،سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو….؟ ابھی کرتی ہوں جاکر چچا سے تمہاری شکایت…. پھر دیکھنا تمہارا حشر کیا ہوتا ہے‘‘۔
ایک بیر کے بدلے اتنی خفت…. گرتے گرتے وہ لڑکھڑایا اور سیدھا کھڑے ہوتے پھر لڑ کھڑا گیا۔
’’منہ بند کر لے ، چلی گئی ہے وہ ‘‘ فیقے نے چند ساعتوں بعد اس کے کندھے کو ہلاتے ہوئے کہا ۔
’’ابھی جو بجلی گرجی تھی وہ….‘‘ ارے یار اتنی کڑوی کسیلی ؟ تھی کون ؟ جب حواس بحال ہوئے تو کچھ لمحوں بعد جا کر اس نے فیقے سے پوچھا۔
’’ابے مروائے گا تو ،میری بات تو سن لیتا ،شہد کے چھتے کو چھیڑ لیا تو نے …. ‘‘ فیقے نے پریشان کن آواز میں کہا۔
’’میں سمجھا ،شرما لجھا کر تیز تیز قدم اٹھاتی بھاگتی چلی جائے گی اور میں بھی چند قدم اس کے پیچھے ۔ مگر اس نے تو پوری کلاس لے ڈالی ،‘‘
’’تو اس بات کو چھوڑ کے اس نے تیرے ساتھ کیا کیا تو آنے والے وقت کی فکر کر کہ اس کا چچا تیرے ساتھ کیا کرے گا ، چاچے اسلم کی بھتیجی ہے شہر سے آئی ہے ‘‘ فیقے نے ہاتھ ہوا میں گھما کر کہا۔
’’ مروا دیا یار ۔ چاچا اسلم تو ابا کا یار ہے۔ ابا تک بات پہنچی تو جان سے مار دے گا مجھے ‘‘ وہ خوف سے کپکپانے لگا ۔
’’نہ! ایسے آرام سے تھوڑی مارے گا جان سے ، پہلے ابا بالن کے ڈھیر سے چن کر موٹی لکڑی اٹھائے گا ،خوب دھلائی کرنے کے بعد لکڑی پھینکے گا اور کھسہ اتارے گا….‘‘ فیقہ نے کیا کہا، کیا نہیں کہا مگر اس کی بولتی بند ہو گئی۔
ڈرتے ڈرتے گھر کے دروازے پر پہنچا ،دروازے کے ساتھ کان لگا کر غور کیا ،خاموشی سے لگ رہا تھا کہ ابا ابھی گھر نہیں آیا تھا ،دروازہ کھول چپکے سے اندر داخل ہؤااور دبے پاؤں چلتا صحن سے گزر کر برآمدے میں جانے لگا کہ اماں کی آواز آئی۔
’’آگیا تو …. آج تو شام سے پہلے کیسے آگیا گھر ، خیر تو ہے ‘‘ غیر متوقع آواز سن کر وہ یوں سٹپٹایا جیسے کسی نے اس کی چوری پکڑ لی ہو ۔
’’آج باہر کوئی کھیلنے ہی نہیں آیا اماں‘‘ اس نے گھٹی سی آواز میں کہا ۔
’’اوئے اکبر ادھر آ بات سن ‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’یہ تو ابّا کی آواز ہے!‘‘ چند ثانیے اس نے سوچا اور دہل کے رہ گیا ۔
’’اماں اوئے اماں ، ابا آج باہر نہیں گیا ‘‘ اس نے سرگوشی میں پوچھا ۔
’’ گیا تھا ، مگر آج تیرا ابا بھی جلد واپس آگیا ، لیکن تیری ہوائیاں کیوں اڑی ہوئی ہیں‘‘۔
’’ ام ام اماں ….یہ ابا مجھے کیوں بلا رہا ہے‘‘اکبر نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’تو جا کے سن لے مجھ سے کیا پوچھتا ہے کوئی کام ہوگا‘‘۔
اکبر نے بیگ پھینکا اور بھاگ کر صحن میں آگیا ۔
’’ارے ادھر کہاں جا رہا ہے ‘‘ اماں نے پوچھا ۔
’’غسل خانے جا رہا ہوں، ابے کو بتا دینا ‘‘اس نے کہا اور تیزی سے غسل خانے میں گھس گیا ۔
آج تو غسل خانے سے تب تک نہیں نکلوں گا جب تک ابا باہر نہ چلا جائے،یقیناً اس لڑکی نے چاچے اسلم کو اور چاچے اسلم نے ابا کو میری شکایت کردی ہے۔اسی لیے ابا جلدی گھر آ گیا ہے اور مجھے بلا رہا ہے۔
غسل خانے میں بیٹھ بیٹھ کر پاؤں سوج گئے، کان باہر کی آوازوں پر لگے تھے ،کافی دیر بیٹھنے کے بعد اب ابا کے کھنگورے، صحن کے پکے فرش پر کھسے کی چر چر اور باہر کا گیٹ کھلنے کی آواز آئی، جو اس بات کا ثبوت تھا کہ ابا باہر چلا گیا ہے۔
وہ جلدی سے اٹھا اور غسل خانے سے باہر آ گیا۔ شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ وہ اپنی ٹانگیں سہلاتا کمرے میں جا گھسا۔ کمرے میں بے چینی سے ادھر ادھر ٹہلتا رہا پھر یہ سوچ کر فٹافٹ اسکول بیگ کھولنے لگا کہ ابا مجھے پڑھتے ہوئے دیکھ کر شاید میرا قصور معاف کر دے اور اس کا دل پسیج جائے ۔
کوئی آدھ پون گھنٹہ تو اسے بیگ کا منہ متھا ٹھیک کرنے میں لگا ، پھر کوئی کتاب نکال کر ہونقوں کی طرح اسے گھورتا رہا ،اسے گھورنے سے دل بھر گیا تو کوئی کاپی نکال لی ، اماں نے برآمدے سے گزرتے ہوئے اسے جب پڑھتے ہوئے دیکھا تو ٹھٹک گئی ۔پچھلے ہفتے محلے کے مولوی صاحب سے اس کے لیے دعا کرنے کا کہا تھا کہ پڑھتا نہیں ہے، شاید ان کی دعا قبول ہوگئی ہے، اس نے دل میں سوچا۔
’’کھانا کھا لے اکبر ‘‘
کچھ دیر بعد اماں کی آواز آئی تو وہ خیالوں کی اس دنیا سے باہر آگیا کہ اس کے ساتھ آئندہ آنے والے وقت میں کیا ہونے والا تھا ۔
جلدی جلدی نوالے نگلنے کے بعد وہ پھر سے کمرے میں گھس گیا اور بے چینی سے ٹہلنے لگا ۔ اگر شام کے وقت ابا کو نہیں پتہ تھا تو اس وقت تک چاچے اسلم نے سب بتا دیا ہو گا، ابا اور چاچا شام کے بعد زمینوں کی طرف چکر ضرور لگاتے تھے اور گپ شپ کے بعد عشاء کے قریب لوٹتے تھے۔
اسی پریشانی میں دروازے کے کھلنے اور کھسے کی چر چر کی آواز نے اسے چونکا دیا ۔
آگیا ابا، اس نے خود کلامی کی اور چھلانگ لگا کر بستر میں گھس گیا ، کمبل کس کر اوڑھ لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
ابا نے آتے ہی اکبر کو آواز دی ۔
آنکھیں بند کیے اکبر نے سونے کی ایکٹنگ کی اور آہستہ آہستہ سانسیں لینے کے ساتھ ساتھ کندھے کو بھی ہلکا ہلکا اوپر نیچے کرنے لگا، چند لمحوں بعد ہی کھسے کی چر چر کی آواز کمرے میں آنے لگی اکبر کا دل زور سے دھڑکا ۔
’’اکبر اوئے اکبر ….‘‘ لگتا تھا ابا اس کے سرہانے کھڑا اسے دیکھ رہا ہے۔
لگتا ہے سو گیا ہے ، آج جلدی سو گیا ، چلو کل کرتا ہوں بات اس سے ،، یہ کہہ کر ابا کمرے سے چلا گیا اور اکبر نے گہری سانس لی اور پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔
’’ابا کہہ رہا تھا کہ کل کروں گا بات اس سے ، لگتا ہے کہ ابے کو پتا چل گیا ہے ، آج کی رات تیری بچت ہے کل صبح تیری خیر نہیں ،تیاری پکڑ لے اکبر‘‘ اس نے خود کلامی کی۔
پانی بھرنے ، باہر کا دروازے کھلنے اور وہی کھسے کی چرر چرر کی آوازوں کے ساتھ آنکھ کھلی اس کی۔
’’ابا ڈنگروں کو پانی پلانے حویلی چلا گیا ہے‘‘ اس نے سوچا اور جھٹ سے اٹھ کر باہر آیا ،اماں چونترے میں بیٹھی روٹی پکا رہی تھی۔
’’اماں روٹی دے جلدی ‘‘ اس نے بیٹھتے ہوئے کہا ۔
’’ہیں …. تجھے کیا ہؤا تو کیوں جلدی اٹھ گیا آج ‘‘۔
’’اماں بھوک لگی ہے جلدی کر ‘‘۔
روٹی کھانے کے بعد اٹھا اور سکول کی وردی پہن بیگ کندھے میں ڈال کر باہر دروازے تک پہنچا ہی تھا کہ ابا آ گیا ۔
’’ارے اکبر یہ تو اتنی سویر کو کہاں جا رہا ہے ‘‘۔
’’سک سک سکول….‘‘ اس نے بمشکل تمام بات پوری کی۔
’’مگر آج تو اتوار ہے ‘‘۔
یہ سن کر اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی، آج اگر وہ بغیر کسی کے کہے سکول جارہا تھا تو آج اتوار ہو گیا ، اور وہ سکول کہاں جا رہا تھا وہ تو راہ فرار حاصل کر رہا تھا ۔
’’جا بستہ اندر رکھ اور یہ پکڑ بالٹی ،آج تجھے چھٹی ہے باقی ڈنگروں کو تو پانی پلا اور پھر آجا ذرا تیرے ساتھ بات کرنی ہے‘‘۔
پھر اگلا آدھا گھنٹہ وہ پانی پلاتا رہا اور گھر سے نکلنے کے بہانے ڈھونڈتا رہا ، جب خالی پانی کی بالٹی لے کر وہ گھر آیا تو گھر کا منظر دیکھ کر اس کے حواس باختہ ہو گئے۔ کیا دیکھتا ہے کہ چاچا اسلم اور ابا سامنے ٹاہلی کے درخت کے نیچے چارپائی پر بیٹھے چائے پی رہے اور آہستہ آہستہ باتیں کر رہے ہیں ، اس نے جلدی سے بالٹی پھینکی اور باہر کو دوڑا ۔
چاچا اسلم ،ابا اور اماں نے اس کی طرف دیکھا ، ابھی اس کے بارے میں بات ان کے منہ میں تھی کہ وہ غائب بھی ہو گیا۔
اور اکبر جو فرار ہوا تو جا کر فیقے کے گھر کے سامنے پناہ لی۔ پھولتی سانسوں کے ساتھ اسے باہر بلایا اور ساری کارروائی سنا ڈالی۔
’’تجھے چاچے اسلم نے کچھ کہا نہیں؟ ‘‘ فیقے نے پوچھا ۔
’’یار میں رکا ہی نہیں ، میں تو اسے دیکھتے ہی بھاگ آیا ، شام سے پہلے نہ گھر جاؤں گا،آخر کتنی دیر بیٹھے گا چاچا ، کبھی تو اٹھ کر جائے گا‘‘۔
’’وہ لڑکی تو چلی گئی شہر، آج صبح جاتے دیکھا میں نے ‘‘فیقے نے اسے بتایا۔
’’واقعی ؟ ‘‘یہ سن کر اکبر کو نہ جانے کیوں یک گونہ سکون سا ملا ۔
’’ہاں ،چاچے اسلم کا بیٹا ان سب کو شہر والی بس میں بٹھانے گیا تھا ‘‘ فیقے نے بتایا ۔
’’چلی گئی مگر جاتے جاتے مجھے پھنسا گئی،ایک لمحے کو سکون نہیں ، نہ گھر جا سکتا ہوں نہ باہر آرام ہے‘‘۔
اس کے بعد کافی دیر پھرنے پھرانے اور کھیل کود کے بعد جب تھک گئے تو فیقے کے مشورے اور سمجھانے کے بعد اس نے گھر جانے کا فیصلہ کیا ۔
’’یار ایک بار تو ابے کی سننی پڑے گی ، تو سن لو، جو ہو گا دیکھا جائے گا ،اس کے بعد اس بھاگ دوڑ سے جان تو چھوٹ جائے گی ‘‘۔
گھر داخل ہؤا تو عصر کا وقت تھا ، ابا سامنے چارپائی پر بیٹھا چائے پی رہا تھا ۔
’’تو آگیا بے شرم ، کیوں ٹک کر نہیں بیٹھتا ،کل سے کہہ رہا ہوں کہ بات سن لے مگر تیری بے چین روح….‘‘
’’جی ابا ، وہ میں فیقے کے ساتھ….‘‘
’’ایک تو اور ایک تیرا وہ فیقہ…. ‘‘ابے نے خفگی کیساتھ کہا ۔
’’وہ اپنا درزی ارشاد نہیں ہے ، اس سے تیرا ناپ گم ہو گیا ہے ، دو دن ہو گئے اس نے پیغام دیا ہؤا ہے کہ اکبر کو بھیجو دوبارہ ناپ کرنا ہے ، اب جا ، جا کر ناپ دے نہیں تو مامے کے گھر اس کی لڑکی کی بارات پر پرانے کپڑے پہن کر جانا پڑے گا ‘‘۔
’’جی اچھا ‘‘ اکبر کے زخم پر جسے مرہم رکھ دی ہو کسی نے ۔
’’ابا بس یہی…. یا کچھ اور بھی؟ ،، اکبر نے ڈرتے ڈرتے کہا ۔
’’ہاں اب جا بھی شام ہونے میں کتنی دیر ہے جلدی آنا ‘‘
’’ابا وہ…. ابا وہ وہ چاچا اسلم کیوں آیا تھا صبح‘‘اس نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ۔
’’چاچا اسلم ؟ وہ اگلی فصل کی بجائی کا مشورہ کرنے آیا تھا ،اور تو نے سلام تک نہیں کیا اسے، کہہ رہا تھا یہ اکبر کو کیا ہو گیا آج ۔ کوئی ادب لحاظ سیکھ لے، پتہ ہے تجھے کتنا چاہتا ہے، اس کےبچے مجھے عزیز ہیں اور تو اس کو ، آخر سالوں پرانا اساتھ ہے ہمارا ، اچھا اب جا جلدی کر‘‘۔
وہ گولی کی طرح نکلا اور گلی میں غائب ہو گیا اس کا رخ فیقے کے گھر کی طرف تھا۔ پہلے اسے بتائے گا کہ کل شام سے جس کرب سے وہ گزر رہا تھا اس کا حصار اس نے خود گھڑ لیا تھا ،چاچے اسلم تک شکایت پہنچی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد ارشاد درزی کی دوکان پر جائیں گے دونوں ….اور راستے میں اگر کوئی چھمک چھلو مل گئی ….
اس خیال سے ہی اس کو جھر جھری سی آ گئی۔
ناں میری توبہ ۔۔۔ !!!
٭٭٭