۲۰۲۳ بتول فروریچاندی کا تاج محل - بتول فروری ۲۰۲۳

چاندی کا تاج محل – بتول فروری ۲۰۲۳

دروازہ ہلکے سے بجا ۔
شہلا اٹھ چکی تھی لیکن بستر جیسے ابھی اُسے جکڑے رکھنا چاہتا تھا ۔ اس نے نرم گرم روئی کے گالے جیسے کمبل کو سمیٹ کر زور سے بھینچا اور گہری سانس لے کر جواب دیا ۔
’’آجائیں بوا‘‘۔
چالیس پینتالیس سال کی موڈرن بوا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں ۔شہلاکو قدیم اور جدید کا امتراج اچھا لگتا تھا گھر کے لیے میڈ منتخب کی تو اسے پہلے دن ہی دوسری ہدایات کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ انہیں بوا کہا جائے گااور وہ شہلا کو شہلا بی کہیں گی۔
وہ اس طرح اپنی خاندانی روایات سے جڑ کر رہنا چاہتی تھیں انہیں اچھا لگتا تھا ۔ جب اپنی کسی موڈرن سہیلیوں کے سامنے وہ میڈ کو بوا اور بوا اُن کو شہلا بی کہتیں تو انہیں اپنی سہیلیوں سے یہ کہنا بہت اچھا لگتا کہ یہ سب ان کے بزرگوں کی روایات ہیں۔
نادیہ ماچس والا ، میشاء سیٹھانی ، زرینہ مارکوس تو اتنے متاثر ہوتے کہ جتنے ان کی ڈرائینگ روم کی مہنگی اور حسین سجاوٹ سے نہ ہوتے جو وہ ہر سال بہت شوق سے تبدیل کرتی تھی۔ ہاتھی کے دانت کی نازک اور حسین بگھی چاندی کا تاج محل جس کے میناروں پر سبز زمرد کے ہلال تھے… ہر سال باہر سے واپسی پر ان کے ڈرائینگ روم میں کئی لا جواب اور البیلی چیزوں کا اضافہ لازمی تھا۔
بوا نے انہیں اطلاع دی کہ کئی دفعہ فون آچکا ہے کہ شہلا سے کہیں کہ ایمرجنسی سے فون ہے۔
ایمرجنسی ؟ کس ہسپتال سے ؟
بوا نے لا علمی کا اظہار کیا اور ساتھ ہی موبائل کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ آپ کے موبائل پر بھی فون کررہے تھے۔
اسی وقت موبائل کی اسکرین روشن ہوئی۔ بوا نے شہلا کے اشار ے پر موبائل اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دے دیا۔
کوئی اجنبی نمبر سے فون تھا۔
شہلانے ڈرتے ڈرتے اٹھایا ۔ دل میں دعا کر رہی تھیں کہ کوئی اچھی خبر ہو ۔ صبح صبح دن کا آغاز خوشی کی خبر سے ہو تو کیسا دل شاد رہتا ہے ۔
ہیلو آپ کون بول رہے ہیں ؟
آپ سردار تیمور کی بیگم ہیں ؟
جی میں بول رہی ہوں۔شہلا کی آواز ڈری ہوئی تھی۔
بیگم تیمور اگر آپ ہسپتال آجائیں تو اچھا ہے ۔تیمور صاحب یہاں موجود ہیں ۔
انہیں کیا ہؤا ہے ؟ خیریت سے تو ہیں ؟
شہلا بی سے گھبراہٹ کے مارے بولانہیں جا رہا تھا ۔جی وہ بہترہیں ، آپ آجائیں۔ ٹیلی فون بند ہوگیا تھا۔
شہلا بی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ پہلے کیا کریں دونوں بیٹے جو باہر ہیں ان کو بتائیں یا بعد میں بتائیں ابھی تو سب سے پہلے ہسپتال جا کر خبر لینی چاہیے ۔شہلا بی نے بوا کو صورت حال بتائی ۔ یہ کوئی نئی نہیں تھی پچھلے دو سالوں میں کئی دفعہ انہیں ہسپتال سے ایمرجنسی میں بلاوا آچکا تھا ۔ کبھی ایک آدھ دن اور کبھی ایک ہفتہ رہ کر تیمور کو ہسپتال سے چھٹی مل جاتی تھی۔شہلا نے سستی سے کپڑے بدلے پرس میں چند کارڈ ڈالے بوا سے ڈرائیور کو تیار رہنے کا کہا اور کافی کے چند گھونٹ لے کر باہر آگئیں۔
تیمور نے کبھی جو اپنی صحت کا خیال رکھا ہو ہر وہ چیزجو ڈاکٹر نے منع کی خوب خوب استعمال کی۔ آدھے سے زیادہ تو مہینے کے دن وہ باہر ہی ہوتے تھے کبھی دوبئی کبھی امریکہ اور برطانیہ … دوبئی تو جیسے دوسرا گھر تھا ۔ کئی لوگوں نے اور مشترکہ دوستوں نے شہلا بی کوخبر دار کیا تھا کہ تیمور

نے شادی تونہیں کرلی؟ ذرا گہری نظر رکھیں۔
لیکن شہلا بی اب عاجز آگئی تھیں پچھلے دس سالوں سے انہوں نے بہت زیادہ نظر انداز کرنا شروع کردیا تھا ۔ آخر وہ کہاں تک چیک رکھ سکتی ہیں ۔ بس بہت ہو گیا ۔ تیمور اب اس عمر میں بھی باز نہ آئیں تو وہ کیا کریں۔
بیٹے بہت پہلے تعلیم کے لیے باہر گئے اور اب وہ وہیں کے ہو گئے تھے ۔ ہفتے دس دن مہینے میں بھی اگر ایک فون آ جاتا تو شہلا کو اچھا لگتا لیکن ان ساری باتوں کو انہوں نے غمِ دل نہیں بنایاتھا… بھئی دنیا میں اور بھی بہت کچھ ہے جس میں مگن رہا جا سکتا ہے اور خوش بھی … وہ جیسے اپنے آپ کو سمجھاتی تھیں۔ انہوں نے کلائی پر نظر ڈالی خوبصورت ڈائمنڈ کٹ سیاہ گھڑی کی سوئیاں بارہ سے آگے نکل گئی تھیں ۔چار بجے انہیں کلب کی بزنس پلس میرج پارٹی میں شرکت کرنی تھی۔ لیکن اب تو ہسپتال جانا ہی جانا ہے انہوں نے موبائل پر مسیج کر دیا ۔گاڑی میں بیٹھتے ہی ان کی ساری ہی سہیلیاں طرح طرح کے ناراضگی والے ایموجیز بھیج رہی تھیں۔
انہوں نے بیزاری سے منہ بنایا … کسی نے جو فون پر خیریت بھی دریافت کرنے کی زحمت کی ہو … بس موبائل دیکھے کی ہمدردیاں ۔
انہوں نے کھڑکی سے باہر تیزی سے گزرتے مناظر کی طرف توجہ کرلی … بیٹوں کو بھی میسج کردیا تھا لیکن انہیں تو ابھی دیکھنے کی بھی فرصت نہیں ملی ہو گی …یہ تو ہوتاہے … دور دیس بس جانے والی اولاد … انہوں نے دل کو زیادہ غم کھانے سے روکا، ابھی تووہاں رات ہے ۔
کمرے کے سامنے طویل راہداری جس کے خوبصورت ٹائٹل دمک رہے تھے ۔ وکٹورین کٹ ڈیزائن اور نازک بیل بوٹے بتا رہے تھے کہ اب ایگزیکٹو اور وی آئی پی کمروں کا احاطہ شروع ہو گیا ہے ۔
سیاہ عربی فیشن کے جدید انداز کے عبائے میں ایک خاتون تیزی سے گزریں نہ جانے کس روم سے نکلی تھیں شہلا کو بالکل اندازہ نہیں ہؤا۔
کمرے میں تیمور جاگ رہے تھے اور پورے ہوش و حواس میں بھی تھے۔
شہلا نے گہری سانس لی سکھ کی تھی یا دکھ کی … چہرے پر ملے جلے سے جذبات لیے شہلا کرسی پر بیٹھ گئیں۔
شکر ہے خدا کا آپ خیریت سے ہیں ۔ آئے کب ؟ کچھ پتہ نہیں ہوتا آپ کا ۔
شہلا کے انداز میں شکوہ تھا … محبت تھی یا نہیں یہ تو خودشہلا کو بھی اندازہ نہیں تھا۔
ابھی تک کی شادی شدہ زندگی ایسے ہی گزری تھی ایک دوسرے کو نظر انداز کرتے ہوئے یا پھر نظر انداز کرنے کی کوشش کرتے ہوئے … کہ تمہارا رشتہ اہم ہے مگر اتنا بھی اہم نہیںدنیا میں اور بھی مشاغل ہیں ۔
اس طرح کے اونچے اسٹیٹس میں کچھ یہ ہی ہوتا ہے کہ کوئی رشتہ اہم نہیں ۔ اہم اپنی مرضی شوق اور اپنا دل ہے جوچاہے کرے اور جب چاہے کرے لیکن انسان تو پیار کا بھوکا ہوتا ہے وہ بھی اصلی تے وڈے پیار کا نمائشی اور دکھاوے والے نہیں … لہٰذا ایک مقام ایسا آ ہی جاتا ہے … جیسا شہلا پر بھی آیا تھا اور شاید تیمور پر بھی۔
شہلا نے تیمور کوغور سے دیکھا …نہ دکھ نہ کوئی کمی… کوئی پچھتاوا… وہاں تو کچھ نہیں تھا، بڑے سکون کی کیفیت تھی۔
شہلا بھی جیسے ہڑ بڑا سی گئی۔ ایسا کیوں ہے بھئی ؟
ان کے دل نے ان سے پوچھا۔
تیمور ابھی تک خاموش تھا جیسے شہلا کی بات نہ سنی ہو۔ شہلا نے آگے بڑھ کر تیمور کا ہاتھ تھام لیا ۔ تیمور نے چونک کرشہلاکو دیکھا … ایساکتنے دن کتنے سال بعد ہؤا ہے ؟
نہ تیمورکویاد آیا نہ شہلا کو … دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر بھی جیسے نہیں دیکھ رہے تھے ۔
تم نے اس کو دیکھا ؟
کس کو ؟ شہلا نے حیرانی سے پوچھا۔
اس سیاہ عبائے والی عورت کو !
ہاں باہر نظر آئی تھی کون ہے ؟
شہلا نے سوچا کوئی دوبئی کے دوست کی بیوی ہو گی کسی رشتہ دار کی عیادت کرنے آئی ہو گی تو میاں کے کہنے پر تیمور کی بھی عیادت کرلی ہوگی

اپنے میاں کی طرف سے …
جتنی دیر تیمور چپ رہے شہلا کی ذہنی مشق جاری رہی اور ایک اچھی اور مناسب توجیہہ تیار ہو گئی۔
شہلا تیمور کودیکھ رہی تھی اس کے سوال کا جواب نہیں ملا تھا ۔ تیمور چپ تھا وہ اس کے چہرے سے نظریں ہٹا کرآخر کار بول اٹھا ’’ وہ میری بیوی ہے ‘‘ ۔
بیوی؟
شہلا کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ تیمور کا ہاتھ چھوڑ کر وہ کرسی پر بیٹھ گئی دکھ کی کاٹ دار لہر تھی جس نے دل سے اٹھ کر پورے وجود کواپنی لپیٹ میں لے لیا تھا …
سن ہوتے ذہن نے گواہی دی، ایسا تو ہوتا ہے اس طرح کی باتوں میں !٭
…٭…٭

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here