ایکتھا بادشاہ اس کی ایک ہی بیٹی تھی ۔شہزادی بہت زیادہ گوری تھی اس لیے بادشاہ نے اس کا نام بیانکا(بالکل سفید) رکھ دیا۔شہزادی کو اپنے گورے رنگ پہ بہت ناز تھا۔ کالا یا کالے رنگ سے ملتا جلتا کوئی رنگ پسند نہیں تھا۔ ویسے وہ بہت فرمانبردار تھی لیکن اس کی اس بے تکی عادت سے ملکہ عالیہ بہت پریشان تھیں جبکہ بادشاہ ہمیشہ اس کا بچپنا کہہ کر بات کو ٹال دیا کرتے تھے۔ انھوں نے حکم دے رکھا تھا کہ شاہی محل میںان رنگوں والی چھوٹی سے چھوٹی شے بھی نظر نہ آئے ۔
ایک دن بیانکا محل کی پچھلی طرف بنے باغیچے میں چہل قدمی کر رہی تھی کہ چلتے چلتے سبزیوں والی جگہپر آ گئی۔مولی،گاجر،گوبھی کودیکھ کر وہ ہلکا سا مسکرائی مگر جیسے ہی اس کی نظر بینگن پہ پڑی تواس کا منہ بگڑ گیا۔
’’ یہ کالے بینگن میرے محل میں کیا کر رہے ہیں؟ میں ابھی بابا جان سے کہہ کرانھیں اترواتی ہوں۔‘‘
شہزادی اپنی چھوٹی سی ناک پھلا کر محل میں داخل ہوئی اور زور زور سے ’’بابا جان بابا جان ‘‘ پکارنے لگی۔
بادشاہ نےاس کی آواز سنی تو تخت سے اٹھ کر باہر آیا جہاں شہزادی نوکروں پہ گرج برس رہی تھی۔
’’کیا ہوا بیانکا، کیوں غصہ کر رہی ہیں آپ؟‘‘
بادشاہ نے پیار سے شہزادی کا سر سہلاتے ہوئے پوچھا۔
’’بابا جان ہمارے محل میں کوئی کالی چیز نہیں ہے نا؟‘‘
شہزادی نے معصومیت سے استفسار کیاتو بادشاہ نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
’’تو پھران کے کالے بینگنوں کا کیا کام ؟ان کو نکال باہر کریں ہمیں اپنے محل میں بینگنوں کا نام و نشان بھی نظر نہیں آنا چاہیے۔‘‘
شہزادی غصہ میں حکم صادر کرتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
بادشاہ نےفوراً حکم دیا۔
’’ سپاہیو! محل سے تو کیا ہمارے پورےملک سے بینگنوں کا خاتمہ کردیا جائے بینگن جیسی معمولی سبزی کے لیے ہمشہزادی کی خفگی برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘
سپاہی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے پورے ملک میں پھیل گئے اورتھوڑے ہی دنوں میں بینگنوں کانام و نشاں بھی نہ رہا۔شہزادی مطمئن ہو گئی۔
ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ بادشاہ رات کو کھانا کھانے کے بعد اپنی آرام گاہ میں سونے کے لیے گیا مگر اگلے دن ناشتے کے لیے نہیں آیا۔ملکہ بھی نہیں تھی ۔بیانکا شہزادی کو تشویش ہوئی۔ وہ اپنا شاہی لباس سنبھالتی ہوئی اٹھی اور بادشاہ کے کمرے میں گئی۔ اس نےملکہ عالیہ سے پوچھنے کی کوشش کی تو وہ منہ پھر کر چلی گئیں۔
’’بابا جان ، بابا جان!‘‘شہزادی تقریباً چلاتے ہوئے اس کے بستر کے قریب آئی۔
یہ دیکھ کر اُسے پیروں تلے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی کہ بادشاہ بے سدھبستر پر پڑا ہے۔ اسی وقت ملکہ عالیہ حکیم صاحب کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں ۔حکیم صاحب نے اچھی طرح سے بادشاہ کا معائنہ کیا اور بولے۔
’’بادشاہ سلامت کو دل کی تکلیف ہوئی ہے۔درد برداشت نہ کر سکنے کی وجہ سے یہ بے ہوش ہو گئے ہیں جلدی سے بینگن منگوائے جائیں تب تک میںانھیں ہوش میں لانے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
شہزادی نے فوراً وزیر اعظم کو حکم دیا:۔
’’جلدی سے بینگنوں کا بندوبست کیا جائے ہم بابا جان کے علاج میں ذرا بھی سستی برداشت نہیں کریں گے۔‘‘
مگر بینگن ہوتے تو لائے جاتے ۔ انھیں تو شہزادی کے حکم سے دیس نکالا مل گیا تھا ۔ اب شہزادی پچھتائی ۔ اُسے اپنے اوپر رونا آنے لگا۔بادشاہ کو ہوش تو آ گیا مگر علاج نہ ہونے کی وجہ سے دن بہ دن صحت بگڑنےگی۔
’’شہزادی !ہم تمھیں کہتے تھے نا کہ اپنی یہ عادت بدل ڈالواللہ کی بنائی ہوئی ہر شے میں حکمت ہے ۔ مگر تم نہ سمجھیں۔‘‘ ملکہ عالیہ کواس پر سخت غصہ آ رہا تھا ۔شہزادی شرمندگی سے سر جھکا کر بولی ۔’’ جی امی جان آپ صحیح کہتی ہیں اس جہاں میں کوئی بھی چیز بے وجہ نہیں۔‘‘
شہزادی نے مصلہ بچھایا اور رو رو کر اللہکے حضور معافی مانگی۔ بادشاہ کوبستر پہ پڑے بیس دن ہو گے تھے۔شہزادی کی دعائیں لمبی ہوتی جا رہی تھیں۔ آخر کار اللہ نے اس کی دعائیں سن لی۔دور دراز علاقوں سے ڈھونڈ کر سپاہی بینگن لے آئے۔حکیم صاحب نے بینگنسے دوا تیار کی اور بادشاہ کو کھلائی۔ایک ہفتہ دوائی کھانے سے بادشاہ کے درد کو آرام آ گیا۔
بادشاہ کی صحت بحال ہونے کی خوشی میں محل میں بہت بڑی دعوت کا اہتمام کیا گیاجس میں شہزادی نے موتیوں کے کام والا کالا لباس پہن کر شرکت کی۔
٭٭٭