ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

ادارہ بتول

پون صدی کی درخشندہ روایت

غزل – حبیب الرحمٰن

ہم چلو دودھ کے جلے ہوئے ہیں
آپ کیوں چھاچھ سے ڈرے ہوئے ہیں

جاگتی ہی نہیں ہے شرم و حیا
لوگ چکنے گھڑے بنے ہوئے ہیں

چین سے وہ نہ جی سکیں گے کبھی
تیری باتوں کے جو ڈسے ہوئے ہیں

آپ سے ہم ہی شکوہ سنج نہیں
آپ بھی تو بہت بھرے ہوئے ہیں

کامیابی بہت بڑی ہے مگر
امتحاں بھی بڑے کڑے ہوئے ہیں

اجنبی کب ہیں ایک ساتھ ترے
کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں

کیا عجب دور آ گیا ہے کہ اب
کھوٹے سکے بھی سب کھرے ہوئے ہیں

فتح حاصل ہوئی ہے جب بھی کبھی
ایک پرچم کے ہم تلے ہوئے ہیں
سب کی سب سے یہاں ٹھنی ہوئی ہے
اپنی اپنی پہ سب اڑے ہوئے ہیں

کچھ بتائیں ہمیں خدا کے لیے
روٹھ بیٹھے ہیں یا بنے ہوئے ہیں

تیر و تیغ و تبر کی چھاؤں کہاں
ہم درختوں تلے پلے ہوئے ہیں

پار اتریں گے کیا ہے ڈر کہ اگر
کچی مٹی سے ہم گھڑے ہوئے ہیں

سچ بتائیں کہ کیا عدو کے لیے
ہم کبھی لوہے کے چنے ہوئے ہیں

آپ نے جتنے، آپ سے وہ دیے
جو جلائے تھے، سب جلے ہوئے ہیں

وقت پر تجھ کو سارے چھوڑ گئے
دیکھ ہم آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں

بات کیا ہے حبیبؔ آپ سے وہ
کچھ دنوں سے کھنچے کھنچے ہوئے ہیں

:شیئر کریں

Share on facebook
Share on twitter
Share on whatsapp
Share on linkedin
0 0 vote
Article Rating
Subscribe
Notify of
guest
0 Comments
Inline Feedbacks
View all comments
0
Would love your thoughts, please comment.x
()
x