۲۰۲۲ بتول جونغزل - بتول جون ۲۰۲۲

غزل – بتول جون ۲۰۲۲

غزل
ہنس کے طوفاں کو ٹالتے رہیے
رنگ ہر سو اُچھالتے رہیے

اپنے دل کے حسین جذبوں کو
لفظ و معنی میں ڈھالتے رہیے

زیست کے بیکراں سمندر سے
سچ کے موتی نکالتے رہیے

پھیل جائے نہ تیرگی ہر سو
زخمِ دل کو اُجالتے رہیے

درد و غم کے اُمڈتے طوفان کو
دل کے دریا میں ڈالتے رہیے

علم و دانش چھپی ہوئی شے ہے
لمحہ لمحہ کھنگالتے رہیے

بارِ غم تو متاعِ ہستی ہے
یہ امانت سنبھالتے رہیے

با کرامتؔ ہے یہ سخن گوئی
اس روایت کو پالتے رہیے

کرامتؔ بخاری

 

 

 

غزل

کہاں دل کو اتنا تھا حوصلہ مری بات بیچ میں رہ گئی
ترے سامنے رکھوں مدعا مری بات بیچ میں رہ گئی

میں جو دیکھتا، نہیں دیکھتا، جو نہ دیکھتا، مجھے دیکھتا
یونہی وقت سارا گزر گیا مری بات بیچ میں رہ گئی

اٹھا اپنی بات بتا کے وہ، گیا اپنا درد سنا کے وہ
میں تو رہ گیا اسے روکتا مری بات بیچ میں رہ گئی

کبھی لے کے جب بھی چراغ مَیں، گیا، اپنا بزمِ ایاغ میں
مجھے دل کا داغ دکھا دیا مری بات بیچ میں رہ گئی

کہا میں نے درد سناؤں کیا تجھے دل کا راز بتاؤں کیا
سنی بات میری تو ہنس پڑا مری بات بیچ میں رہ گئی

کہا مدعا، وہ ہنسا، پہ کیوں، سبب اس سے پوچھتا، راہ میں
وہ ملا تو کب مجھے ہوش تھا مری بات بیچ میں رہ گئی

سنی اس کی میں نے جو داستاں، رکھوں دل کی، تاب تھی پھر کہاں
بھرا دل تو حوصلہ کب رہا مری بات بیچ میں رہ گئی

تری داستانِ فراق نے تری ہجر کی شبِ طاق نے
مرا اپنا آپ بھلا دیا مری بات بیچ میں رہ گئی

مرے دل کو جانے ہؤا ہے کیا ذرا آپ سنیے تو مدعا
تو کہا یہ درد ہے لادوا مری بات بیچ میں رہ گئی

کہوں دل کی سامنے بیٹھ کر مجھے تابِ دید تھی کب مگر
ہؤا جلوہ گر تو میں گر پڑا مری بات بیچ میں رہ گئی

ہوا جلوہ گر مری ضد پہ جب وہ جو ہوش تھے مرے اڑ گئے
وہ جو کوہِ طور تھا جل اٹھا مری بات بیچ میں رہ گئی

سنو تم ہو میں ہوں چراغ ہے، نہیں اور کوئی، چراغ کو
حبیب اس نے بڑھ کے بجھا دیا مری بات بیچ میں رہ گئی

 

حبیب الرحمن

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here