اینڈ بلائٹن/ مدیحہ نورانیرم جھم لاج - نور اپریل ۲۰۲۱

رم جھم لاج – نور اپریل ۲۰۲۱

مومو نے امی اور دادی جان کو آمنہ کے اسکالر شپ کے امتحان میں پاس نہ ہونے کی خبر دی تو امی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ۔
’’ آمنہ اسکالر شپ حاصل نہیں کر سکی؟ مگر کیسے ؟ آمنہ تو ہمیشہ ہی اول آتی رہی ہے ۔‘‘ ان کا صدمے سے برا حال تھا۔
دادی جان البتہ بالکل حیران نہ ہوئیں ’’ ہمیں اسی بات کا ڈر تھا ۔‘‘ مگر پھپھو جان ۔ اب آمنہ کیا کرے گی ؟ ہم یونیورسٹی کی فیس کیسے ادا کریں گے ؟ یا خدا! ہماری پریشانیاں کب ختم ہو ں گی ؟‘‘آسیہ بیگم سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔
’’ جو بھی ہو آسیہ ، آمنہ کو اپنے آپ کو خاندان کا حصہ بنانا چاہیے اور گھر کی ذمہ داریوںمیں شریک ہونا چاہیے ۔ رات کو عشاء کے بعد سب بچوں کو اکٹھا کرو تاکہ مستقبل کا لائحہ عمل طے کیا جا سکے ۔‘‘
’’ جی پھپھو جان ، جویریہ اور جنید کو سُلا کر ہم سب بیٹھ جائیں گے ‘‘ انھوں نے سر ہلایا۔
’’ نہیں آسیہ ، جویریہ اور جنید کا بھی اس میٹنگ میں ہونا ضروری ہے ۔وہ کوئی دودھ پیتے بچے نہیں ہیں ، سمجھدار ہیں ۔ ہارون ایک دو سال تک سرجری نہیں کر سکے گا ۔ اس کا علاج بھی کروانا ہوگا اور گھر کا خرچ بھی چلانا ہوگا ۔ ایسے میں گھر کے ہر فرد کو اپنا حصہ ڈالنا پڑے گا ۔‘‘
عشاء کے بعد سارا خاندان ( سوائے ڈاکٹر ہارون کے ) کھانے کی میز پر جمع تھا۔ بیگم خدیجہ نے میٹنگ شروع کی ’’ ہمارا ایک مشورہ ہے ۔ رم جھم لاج نہ صرف بڑا اور خوب صورت ہے بلکہ پہاڑی پر ہونے اور باغ کی وجہ سے انتہائی پر سکون بھی ہے ۔ ایسی جگہ پر لوگ چھٹیاں گزارنا پسند کرتے ہیں ۔ کیوں نہ ہم گھر کا کچھ حصہ کرایے پر اٹھا دیں ؟ لڑکیوں کو ایک کمرے میں اور لڑکوں کودوسرے کمرے میں منتقل کرنے سے ہارون کی اسٹڈی کے علاوہ دو اور کمرے بھی خالی ہو جائیں گے ۔ اگر لوگوں کو صاف ستھرے کمرے اور وقت پر کھانا ملا تو امید ہے کہ وہ خوشی سے پانچ ہزار روپے فی ہفتہ دینے کو تیار ہوجائیں گے۔‘‘
آمنہ کو یہ مشورہ ذرا نہ بھایا مگر مومو بہت خوش ہوئی ۔’’آپ کا مطلب ہے پئینگ گیسٹ۔ یہ تو بہت اچھا ہوگا دادی جان ! میں اسکول چھوڑ کر امی کی مدد کروں گی اور مہمانوں کے لیے کھانا بھی پکا لوں گی ۔‘‘
’’ مگر تم ابھی اسکول نہیں چھوڑ سکتی۔ ابھی تو تمھیں میٹرک کے بعد کالج بھی جانا ہے ۔‘‘ دادی جان نے اسے ٹوکا۔
مگر آسیہ بیگم خوش ہوگئیں ’’ مومو تم کتنی اچھی ہو ۔ ویسے بھی تم اسکالر شپ تو حاصل کر نہیں سکتی ، نہ کسی اور طریقے سے روپے کما سکتی ہو تو اس طرح تم اپنا حصہ ڈال سکتی ہو۔‘‘
مومو یہ سن کر لال ہو گئی ۔ اس نے دادی جان کی طرف دیکھا ان کی آنکھ کا اشارہ پا کر وہ ذرا سا کھنکاری ۔ اب وقت آ گیا تھا کہ وہ اپنے راز سے پردہ اٹھا دے ۔ اس نے اعتماد سے کہا ۔
’’ امی ! میں پچھلے تین مہینوں سے تین ہزار روپے فی ہفتہ کما رہی ہوں ۔‘‘
’’ کیا مومو؟ تم … تم روپے کما رہی ہو مگر کیسے ؟ ‘‘ آسیہ بیگم حیران ہوگئیں۔
’’ آپ کو پتا ہے نا کہ مجھے کہانیاں پڑھنے اور سنانے کا کتنا شوق ہے۔ دادی جان کے مشورے پر میں نے اخبار میںکہانیاں لکھ کر بھیجیں اور اب ہر ہفتے میری کہانی بچوں کے صفحے پر چھپتی ہے اورمجھے اس کا معاوضہ بھی ملتا ہے ۔ ‘‘
’’ اوہ مومو باجی ! کیا یہ وہی کہانیاں ہیں جو جویریہ اور میں بڑے شوق سے پڑھتے ہیں اور جمع کر کے رکھتے ہیں؟‘‘ جنید نے حیرت اور خوشی سے پوچھا مومو نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
’’ مگر مومو ، تم نے تو مجھے کبھی بتایا ہی نہیں ‘‘ امی نے شکایتاً کہا ۔
’’ امی ! آپ کو میں نے پہلی کہانی پڑھنے کو کہا تھا مگر وہ آپ کو اتنی بے کار لگی کہ پھر کبھی دوبارہ مجھے حوصلہ نہ ہوا۔‘‘
’’ اچھا!‘‘ ہاں مجھے یاد ہے کہ تم نے مجھے ایک کہانی پڑھنے کو کہا تھا مگر تم یہ تو بتا دیتی کہ کون سی کہانی پڑھنی ہے ۔ میں نے تو بڑوں کے صفحے پر چھپنے والی کہانی پڑھی تھی اور آمنہ کو بھی وہی پڑھنے کو کہا تھا ۔‘‘
’’ اوہ امی ، اگر مجھے پتا ہوتا کہ آپ نے غلط کہانی پڑھی ہے تو میں آپ کو ضرور صحیح کہانی پڑھواتی اور اپنی خوشی میں شامل کر تی۔‘‘ مومو نے تاسف سے کہا۔
’’ مومو باجی تم کس نام سے اپنی کہانیاں بھیجتی ہو ؟ مومو تو اچھا نام نہیں ہے ۔‘‘ ابراہیم نے پوچھا۔
’’ ہاں ! مومو مجھے ذرا نہیں پسند ۔ میں مریم ہارون کے نام سے لکھتی ہوں ۔ آخر وہی تو میرا اصل نام ہے ۔‘‘
’’ واہ بھئی مومو … میرا مطلب ہے مریم۔ ہمیں واقعی تمھیں مریم پکارنا چاہیے۔ مجھے تو تم پر رشک آ رہا ہے ۔‘‘ آمنہ بولی۔
’’ ابا کو یہ خبر سن کر کتنی خوشی ہو گی مریم باجی وہ آپ پر فخر کریں گے ‘‘ جویریہ سے بھی بولے بغیر رہا نہ گیا ۔
داجی جان چپ چاپ مسکراتی رہیں۔
آمنہ اور ابراہیم سوچنے لگے کہ ان کی خبریں تو ابا کو مایوس ہی کریں گی۔
’’ امی ، میں یہ روپے گھر پر خرچ کرنا چاہتی ہوں ‘‘ مومونے سب کو مزید حیران کر دیا ۔
’’ اور امی ہمیں بھی آپ کو کچھ بتانا ہے ‘‘ جویریہ بولی۔
’’ ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ ہم مالی بابا کا کام سنبھالیں گے ۔ ہم باغبانی کی دیکھ بھال اچھی طرح کر سکتے ہیں ۔ ہم پھلوں اور سبزیوں کے متعلق سب جانتے ہیں ۔ اس طرح مالی بابا کی تنخواہ بھی بچ جائے گی اور جو پھل اور سبزی اگیں گے ، وہ ہم بازار میں فروخت بھی کر سکتے ہیں ۔‘‘
جنید نے نے اضافہ کیا ’’ مومو باجی… یعنی کہ مریم باجی کی مدد سے ہم پھلوں کا جام ، مربہ وغیرہ بھی بنا کر فروخت کر سکتے ہیں ۔ مالی بابا کو آرام سے دوسری نوکری مل جائے گی ۔ آخر ان کا تجربہ جو اتنا زیادہ ہے ۔‘‘آسیہ بیگم سے کچھ نہیں بولا جا رہا تھا ۔ پہلے مومو اور اب جویریہ اور جنید جن بچوں کو وہ کسی لائق نہیں سمجھتی تھیں ، وہی مدد کے لیے آگے آگے تھے۔
’’ مگر ہم سوچ رہے تھے کہ اگر ابراہیم بھائی کھدائی میں ہماری مدد کردیں تو اچھا ہوگا ۔ کیوں ابراہیم بھائی ؟‘‘ جویریہ نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
’’ ہاں ! میں تم دونوں کی مدد ضررور کروں گا اور امی ، میرے پاس بھی آپ کے لیے ایک خبر ہے ۔ میں نے حسن صاحب کے باغات پر نوکری کرلی ہے ۔ مجھے گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوتے ہی وہاں کام پر جانا ہوگا ۔ پہلے مہینے میں وہ مجھے دو ہزار روپے ہفتہ اور پھر تین سے چار ہزار روپے ہفتہ دیں گے ۔‘‘یہ خبر سب سے زیادہ دھماکا خیزتھی۔
ابراہیم جو کبھی کسی معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتا تھا ،نا صرف جویریہ اور جنید کی مدد کرنے کو تیار تھا بلکہ اس نے اپنے لیے نوکری بھی ڈھونڈ لی تھی ۔ سب گھر والے حیران تھے ۔
امی بولیں ’’ نہیں بیٹا ! تم تھک جائو گے ۔ وہ تم سے بہت کام لیں گے ۔‘‘
اس کے برعکس دادی جان بہت خوش تھیں ۔’’ ارے آسیہ ، اسے مت روکو جوان ہے ، ہٹا کٹا ہے۔ تازہ ہوا اور محنت مشقت اس کے لیے بہت ضروری ہے ۔ ضرور جائو بیٹے ابراہیم ۔ ہم تم سے آج بہت خوش ہوئے۔‘‘
’’ دادی جان ۔ یہ تجویز مولوی صاحب کی تھی ۔ انھوں نے ہی میرے لیے حسن صاحب سے بات کی ۔ امی میں بھی اپنی خاندان کی مدد کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
’’ اچھا بیٹے ، مگر تم کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہوگا ۔‘‘ امی بولیں
’’ کیسا وعدہ امی ؟‘‘
’’ یہ وعدہ کے حسن صاحب کے ساتھ صرف گرمیوں کی چھٹیوں کے دو مہینے کام کرو گے ۔ اسکول کھلتے ہی تم یہ کام چھوڑ کر پوری توجہ سے پڑھائی کرو گے ۔‘‘
ابراہیم کا سر جھک گیا ۔ وہ یہ وعدہ کیسے کر سکتا تھا ؟ وہ تو اسکول واپس جا ہی نہیں سکتا تھا ۔
دادی جان نے ابراہیم کو خیالوں کی دنیا سے باہر نکالا’’ بولو ابراہیم۔ اپنی والدہ سے وعدہ کرو۔‘‘
’’ میں … میں یہ وعدہ نہیں کر سکتا ‘‘ اس نے پست آواز میں کہا۔
’’ کیا مطلب ہے تمھارا ؟ کیوں نہیں کر سکتے ۔ تم یہ وعدہ ؟‘‘ امی نے اس کا چہرہ اپنے ہاتھ سے اوپر کر تے ہوئے پوچھا۔
ابراہیم برا پھنساتھا۔ اب اس کو سب کے سامنے بتانا ہی پڑے گا اس کا سر شرمندگی اور ندامت سے پھر جھک گیا ۔ اس نے لرزتی ہوئی آواز میں جواب دیا ’’ امی، مجھے معاف کر دیجیے میں … میں اسکول واپس نہیں جا سکتا کیونکہ … کیونکہ مجھے اسکول سے نکال دیا گیا ہے ۔‘‘
امی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس گر گیا ۔ ’’ کیا ؟‘‘
آمنہ اور مومو کے منہ سے بھی بے ساختہ نکلا ’’ کیا مطلب ہے ابراہیم ؟‘‘
’’ کیا آپ کو اس لیے نکالا جا رہا ہے کہ آپ کی پھینکی ہوئی بوتل سے عثمان کے سر پر گہری چھوٹ لگی ؟‘‘ جنید نے پوچھا۔
جویریہ بول اٹھی ’’ مگر ابراہیم بھائی آپ نے تو عثمان سے معافی مانگ لی تھی اور روزانہ اُسے دیکھنے ہسپتال بھی جاتے ہیں ۔ آپ نے اس کو اپنی پسندیدہ خوردبین بھی دی ہے ۔ اس نے جنید کو دکھائی تھی ۔ اس نے تو آپ کو معاف کر دیا ہے ۔‘‘
دادی جان نے واقعات کے سرے ملاتے ہوئے کہا :
’’ اچھا ، اسی لیے تم عثمان کے حادثے والے دن سے ہی اتنے خاموش اور سنجیدہ رہنے لگے ہو‘‘ امی تو جیسے سکتے کے عالم میں بیٹھی تھیں ۔ ان سے کچھ بھی نہیں بولا جا رہا تھا ۔ ابراہیم نے دھیمی آواز میں دوبارہ گویا ہوا ۔‘‘ صرف وہی واقعہ میری سزا کی وجہ نہ بنا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ دوسرے لڑکوں پر میرا برا اثر پڑتا ہے ۔ میری صحبت سے وہ غیر ذمے دار اور لا پروا بنتے جا رہے ہیں ۔ امی ، انھوں نے میرے کہنے پر وعدہ کیا تھا کہ آپ کو کچھ دن تک نہیں بتائیں گے ورنہ وہ آپ کو پہلے ہی آگاہ کر چکے ہوتے ۔ امی ، میں بہت شرمندہ ہوں ۔ پلیز مجھے معاف کردیں ۔‘‘
بیگم آسیہ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ’’ ابراہیم ، مجھے تو تم پر اتنا ناز تھا ، فخر تھا اور تم نے…‘‘
مزید کچھ کہے بغیر وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔
مومو ان کے پیچھے جانے لگی تو دادی جان نے اس کو روکا ’’ ٹھہر جائو۔ ابھی ہمیں اور بھی فیصلے کرنے ہیں ۔‘‘ پھر وہ ابراہیم سے مخاطب ہوئیں ۔
’’ ابراہیم ،تمھارا موڈ کچھ دن سے خربا تھا، وہ تو ہم سب ہی دیکھ رہے تھے ، مگر تمھیں اسکول سے ہی نکال دیا ہوگا ، یہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ مگر شکر ہے کہ تمھیں اپنی غلطی کا احساس ہے اور اب تم خود کو بدلنے پر آمادہ ہو۔‘‘
’’ جی دادی جان ۔ میں ان شاء اللہ آئندہ کبھی اپنے خاندان کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ ابراہیم نے پر عزم لہجے میں کہا۔
’’ اچھا بات یہ ہے ابراہیم ۔ جویریہ او ر جنید ، تم دونوں باغ سنبھالو گے ۔ رم جھم لاج ہفتہ وار کرایہ پر چڑھا یا جائے گا ۔ فی الوقت ہمارے پاس دو مہمان موجود ہیں ۔ ایک تو ہم خود ہیں اور دوسری ہماری سہیلی آنٹی ماہرہ ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ انہیں یہاں رہنے میں مزہ آئے گا ۔‘‘ دادی جان نے پورا پروگرام بنا کر سامنے رکھ دیا۔
’’ نہیں دادی جان ۔ آپ ہرگز کرایہ نہیں دیں گی۔ آپ بھی تو ہمارے خاندان کاحصہ ہیں۔ ‘‘ مومو فوراً بولی۔
’’ اور آپ توخود ہی گھر کے اتنے کام کر دیتی ہیں ۔‘‘ جویریہ نے لقمہ دیا ۔
’’ بس جو بھی ہو ۔ اب ہم یہاں رہنے کا کرایہ دیں گے ۔ اب صرف آمنہ کو سوچنا ہے کہ اس نے کیا کرنا ہے ۔ ‘‘ دادی جان نے سوالیہ نظروں سے آمنہ کی طرف دیکھا ۔ موموجھٹ سے بولی۔
’’ آمنہ باجی، یہ جو مجھے کہانیوں کا معاوضہ ملا ہے ، اس سے تم یونیورسٹی کی فیس ادا کر دو میں نے سوچ لیا ہے کہ میں گھر پر رہ کر امی کا ہاتھ بٹائوں گی اور فارغ وقت میں زیادہ کہانیاں لکھا کروں گی ۔‘‘
مومو کا خلوص دیکھ کر آمنہ کی آنکھوں میں آنسو گئے ۔ وہ اب یونیورسٹی جا سکے گی ۔ مومو اس کی خاطر اپنا اسکول بخوشی چھوڑ دے گی ۔ جویریہ اور جنید باغ میں ہر موسم کی سختیاں جھیلنے کو تیار تھے اور تو اور ابراہیم بھی حسن صاحب کے باغوں میں مشقت کرنے کو راضی تھا ۔ آمنہ کا دل پگھلنے لگا ۔ پہلی دفعہ اس نے محسوس کیا کہ اسے اپنے خاندان سے محبت ہے ۔
اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’ نہیں مومو! تم مجھ پراپنے روپے نہیں خرچ کرو گی اور تم اسکول بھی ہرگز نہیں چھوڑو گی میںنے فیصلہ کیا ہے کہ میں گھر داری میں امی کا ساتھ دوں گی ۔
میں جلد ہی سیکھ لوں گی ۔ میں ہر وہ کام سیکھنا چاہوں گی جس کی گھر چلانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے اور عائشہ کہتی ہے کہ یہ کام سب لڑکیوں کو آنے چاہئیں ۔‘‘
مومو نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا مگر آمنہ نے اسے روک دیا ۔
’’ نہیں مومو ! میں نے فیصلہ کرلیا ہے ۔‘‘
دادی جان اتنی حیران تھیں کہ ان سے ایک لفظ بھی نہ کہا گیا ۔ ابراہیم ، جویریہ اور جنید نے تالیاں بجانی شروع کردیں۔
’’ میں کبھی نہیں سوچ سکتی تھی آمنہ باجی کہ آپ ایسا کر سکتی ہیں ۔‘‘جویریہ بولی۔
جویریہ ، میں خود بھی نہ سوچ سکتی تھی مگر میں نے جو بھی کہا اس کا ایک ایک لفظ دل سے کہا ہے۔ ہم سب ایک خاندان ہیں اور ہمیں ایک دوسرے کی مدد کرنی ہے۔‘‘ آمنہ کا انداز بالکل بدل گیا تھا۔
’’ ہمیں خوشی ہے کہ آمنہ نے بہت سمجھداری کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اور ہم یقین سے کہتے ہیں آمنہ بیٹی کہ تم اپنے اس فیصلے پر کبھی نہ پچھتائو گی ۔‘‘ دادی جان نے پیار سے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔
’’ ابراہیم اور آمنہ تم دونوں قابل تعریف ہو کہ اپنی غلطیوں سے طبق سیکھ کر صحیح راستے کاانتخاب کیا ہے ۔ ہارون کو دونوں کی طرف سے کچھ مایوسی تو ہو گی مگر جب وہ تمھیں محنت کرتے دیکھے گا تو خوش بھی بہت ہو گا ۔ ‘‘ پھر بات بدلتے ہوئے بولیں ۔
’’ چلو ، اب دیر ہو رہی ہے سب سونے جائو ورنہ فجر پر نہ اٹھ سکوں گے ۔ ہم جا کر آسیہ کو دیکھتے ہیں ۔‘‘
٭…٭…٭
آسیہ بیگم کمرے میں اکیلی بیٹھی تھیں۔ ڈاکٹر ہارون کا حادثہ آمنہ کا اسکالر شپ نہ حاصل کر پانا اور ابراہیم کا اسکول سے نکالا جانا ۔ کتنی ساری آزمائشیں ایک ساتھ آگئی تھیں ۔ کاش! یہ سب نہ ہوا ہوتا ۔ کاش! سب کچھ پہلے کی طرح سے ہو جائے۔
پھپھو جان آسیہ بیگم کے پاس بستر پر بیٹھ گئیں اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سمجھانے لگیں ’’ دیکھو آسیہ ہر کسی کی زندگی میں اونچ نیچ آتی ہے ۔ یہی تو ہمارا متحان ہے کہ ہم آرام و سکون کے وقت خدا کا شکر اور مصیبت کے وقت صبر کرتے ہیں یا نہیں ؟ دیکھو ، ہم سیدھی بات کریں گے چاہے تمھیں اچھا لگے یا نہیں آمنہ اور ابراہیم کو بگاڑنے میں تمھارا سب سے زیادہ ہاتھ ہے ۔ مگر اب دونوں ہی اپنی کوتاہیوں سے سیکھ کر صحیح کاموں میں مصروف ہونا چاہتے ہیں۔‘‘
آسیہ بیگم نے ٹھنڈی سانس بھری ۔ پھپھو جان نے آسیہ بیگم کو آمنہ کے یونیورسٹی نہ جانے اور گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے فیصلے سے آگاہ کیا۔
’’ مگر اس کو تو گھر کے کاموں سے نفرت ہے ۔‘‘ آسیہ بیگم سخت دل گرفتہ تھیں۔
’’ دیکھو آسیہ ۔ کیا تمھیں پسند نہیں کہ جب تمھارا شوہر اور بچے گھر آئیں تو تم نے ان کے لیے گھر کو صاف ستھراہوا ہو، ان کی پسند کے کھانے بنائے ہوئے ہوں ۔ اب یہی کام آمنہ کو سیکھنے دو یہ زندگی بھر اس کے کام آئے گا چاہے وہ کوئی نوکری کرے یا نہیں ۔‘‘
’’ جی پھپھو جان ۔ مگر بے چارے ہارون ! کیا سوچیں گے وہ جب ان کو آمنہ اور ابراہیم کے بارے میں پتا چلے گا ؟‘‘
’’ہارون کی طبیعت بہتر ہونے تک اس سے اس بارے میں کچھ نہ کہنا چلو، اب سو جائیں ۔ دیر ہو گئی ہے اور کل بہت سے کام کرنے ہیں ۔‘‘
٭…٭…٭
اس رات آمنہ نے صبح ساڑھے چھ کا الارم لگایا ’’گھر کا کام صبح سویرے ہی شروع کرنا چاہیے کیوں صبح کے وقت میں برکت ہوتی ہے ۔ ‘‘ اس نے آنکھیں موندتے ہوئے سوچا ۔

(جاری ہے )

٭…٭…٭

1 COMMENT

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here