دعوت و تبلیغ کی حکمت عملی میں عصری تقاضوں اور حکمت و بصیرت کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے خاص طور پر جب تہذیب و تصادم کا نظریہ عام ہو چکا ہے اور مذاہب کے درمیان مکالمہ کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے ۔ ایسے میں دعوت و تبلیغ کی حکمت عملی بھی جدید تقاضوں کے مطابق تشکیل دی جانی چاہیے۔ لہٰذا اس کے اسالیب و مناہج ایسے ہونے چاہیں جس کے مطابق اسلام کے آفاقی پیغام کو دنیا کے ہرخطے ہر قوم اور عالمی مذاہب کے پیرو کاروں تک پہنچایا جاسکے ۔
علامہ ابن کثیر کے مطابق:’’ حکمت سے مراد سمجھ بوجھ مولانا مودودیؒ کے مطابق حکمت سے مراد وہ تمام دانائی کی باتیں ہیںجو نبیؐ لوگوں کو سکھاتے تھے ۔ حکمت عملی یعنی Strategyکو فوجی اصطلاح کے طور پر فوجی حسن تدبیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ Strategyکے معنی در اصل ایک مشکل اور اہم کام کو سر کرنے کے ہیں جبکہ Policyاکثر سیاسی حسن تدبیر کو کہتے ہیں ۔ پس حکمت عملی سے مراد کام کرنے کا ہر وہ طریقہ ہے جس سے وہ کام بخوبی اور احسن طریقہ سے تکمیل کو پہنچے۔
رسول اکرم ؐ اس اعتبار سے منفرد حیثیت کے حامل ہیں کہ آپ ؐ نے دعوت و تبلیغ کے تمام عمل مراحل کا نمونہ بھی دیا اور تبلیغی عمل کے لیے بہترین اصول بھی دیے تمام تبلیغی و دعوتی کارکنوں کے لیے یہ اُصول بہترین رہنمائی کا کام دیتے ہیں اور دیتے رہیں گے ۔ قرآن مجید میں جامعیت و اختصار کے ساتھ یہ اصول بیان فرمائے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’دعوت دو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور مباحثہ کرو اس طریقے کے ساتھ جو اچھا ہے‘‘۔(النحل125)
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ؐ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:
’’ اے نبیؐ ، ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر ، اللہ کی اجازت سے اس کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر ‘‘۔( الاحزاب45-46)
ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ؐ کی پانچ ایسی خصوصیات بتائی ہیں جو آپ ؐ کی صفات کا ملہ ہیں ۔
قرآن مجید میں اس سلسلے میں یہ بھی فرمایا گیا کہ اللہ کی طرف سے دعوت دینے والا یہ نبیؐ شرک اور کفر کے ان اندھیروں میں جن میں تم چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہو ، ایک روشن چراغ ہے ۔ آیات میں جہاں آپ ؐ کے داعی الی اللہ ہونے کا ذکر ہے ، وہاں بطور خاص یہ بات بتائی گئی ہے کہ آپ کو اس منصب پر اللہ نے اپنے اذن سے مقرر فرمایا ہے ۔
تاریخ شاہد ہے کہ رسولؐ اللہ نے داعیانہ منصب کے تقاضے اس طرح پورے کیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو دنیا ہی میں اس امر کی بشارت دے دی کہ آپ ؐ کی دعوت کے اولین مخاطب یعنی صحابہ کرام ؓ کو بھی بارگاہِ حق تعالیٰ سے مقبولیت کی سند عطا کردی ۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح میں اس با برکت جماعت کا تذکرہ ان الفاظ میں فرمایا:
ترجمہ’’ محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں ، وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں ، تم جب دیکھو گے انہیں رکوع و سجود اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پائوگے ۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں ، جن سے وہ الگ پہنچانے جاتے ہیں ۔ یہ ہے ان کی صفات تو رات میں اور انجیل میں ان کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی ، پھر اسے تقویت دی ، پھر وہ گدرائی ، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی ۔ کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے‘‘۔ ( ا لفتح 2 9 )
یہ مثال صحابہ کرام ؓ کی اللہ کی جانب سے پیغام خوشنودی، دعوت حق قبول کر لینے او رانتہائی نا مساعد حالات میں نبی ؐ کا ساتھ دینے پر ان کے حق میں خراجِ تحسین کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اس پاکیزہ جماعت کی یہ مقبولیت یہ ثابت کرتی ہے کہ رسول ؐ اللہ نے داعی الی اللہ کے منصب کے تقاضوں کی کس کا میابی کے ساتھ تکمیل فرمائی۔
آپؐکی تبلیغ خصوصیات اور حکمت عملی کی بدولت آپؐ کو وہ کامیابی نصیب ہوئی جو دنیا کی تاریخ میں کسی بھی پیغمبر اور مصلح کی دعوت و تبلیغ کو نصیب نہیں ہوئی ۔ چنانچہ قرآن مجید اور سیرت طیبہ سے آپ ؐ کی حسب ذیل تبلیغی حکمت عملی واضح ہوتی ہے۔
اصول تدریج
حضورؐ کی تبلیغ حکمت عملی کا پہل اصول اصول تدریج ہے آپؐ نے مکی اور مدنی دونوں ادوار میں تبلیغ اور تدریج کے اصول کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھا ۔اسی بنا پر 13سالہ مکی دور میں صرف ارکان اسلام کی تبلیغ کی گئی اور دوسرے احکام مدنی دور میں رفتہ رفتہ دیے گئے ۔ اس کی حکمت حضرت عائشہؓ نے یوں بیان فرمائی ہے :
’’ قرآن میں جوپہلی سورۃ نازل ہوئی اس میں جنت اور دوزخ کا ذکرہے جب معتدبہ لوگ اسلام کے دائرے میں آگئے تو پھر حلال اور حرام کے احکام دیے گئے اگر شروع میںامتناعی احکام آجائے تو لوگوں پر گراں گزرتے اور تعمیل میں تامل بلکہ انکار ممکن تھا‘‘۔( بخاری )
در اصل یہ طریقہ انسانی نفسیات کے گہرے ادراک کا پتہ ہے ، آسانی سے مشکل کی طرف جانا زیادہ موثر ہوتا ہے ۔ آپؐ نے حضرت معاذ ؓ بن جبل کو یمن کی طرف روانہ کرتے وقت بھی تبلیغ میں اسی اصول تدریج کو ملحوظ رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی ۔ آپ ؐنے فرمایا:
’’ پہلے ان کو توحید و رسالت کی دعوت دینا اگر وہ مان جائیں تو پھر ان کو نماز کی تعلیم دینا اگر وہ یہ بھی مان جائیں تو پھر ان کو فریضہ زکوٰۃ سے آگاہ کرنا ‘‘۔( بخاری)
موعظہ حسنۃ
حضور اکرمؐ نے اصول حکمت کو ملحوظ رکھا ۔ حکمت کی یہ تعبیر عام طورپر قبول کی جاتی ہے جو ابو حیان الاندلسی صاحب البحر االمحیط نے پیش کی ہے :
’’ حکمت سے مراد ایسا کلام یا سلوک ہے جس میں اکراہ کا پہلو موجود نہ ہوا ور طبع انسانی اسے فوراً قبول کر لے اور وہ عقل و قلب ہر دو کو متاثر کرے ‘‘۔
اس طرح حکمت اس درست کلام اور موثر طرز ابلاغ کا نام ہے جو انسان کے دل میں اُتر جائے اور مخاطب کو مسحور کر دے اس بارے میں آپؐ کو جو اختصا و امتیاز حاصل تھا اس کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے ۔ کہ عرب کے مشہور خطیب ضماد الازدیؓ نے جب آپؐ کا اثر انگیز خطبہ سنا تو اعتراف کیا کہ ایسا کلام نہ تو کاہنوں کے پاس ہے نہ جادو گروں اور شاعروں کے پاس اور اس نے فوراً اسلام قبول کرلیا۔
موعظہ حسنۃ
حضور اکرم ؐ کی تبلیغی زندگی کی تیسری خصوصیت یا حکمت عملی موعظہ حسنہ ہے یعنی عمدہ نصیحت ، کسی خیر خواہی کو اس طرح بیان کرنا کہ اس کا نا گوار حصہ بھی اس کے لیے قابل قبول ہوجائے اور مخاطب کا دل اس کی قبولیت کے لیے نرم ہو جائے اور اس کا عنوان بھی ایسا ہو کہ جس سے مخاطب کا قلب مطمئن ہوجائے۔
آپؐ کی تبلیغی خصوصیت کا اظہار کئی موقعوں پر ہؤا مثال کے طور پر دو نامور سرداروں حضر ضماد الازدی ؓ اور حضرت طفیل بن عمر والد وسی نے نبی اکرم ؐ کی پر اثر گفتگو کو سنا تو فوراً اسلام قبول کرلیا اس کے علاوہ انصار مدینہ کے وفد نے جب نبی کریم ؐ کی حکمت آمیز گفتگو سنی تووہ فوراً متاثر ہوئے اور اسلام قبول کرلیا۔ آپؐ کی حیات طیبہ اس طرح کے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے ، یہ اسی موعظہ حسنہ کا اثر تھا کہ عمیر بن وہب جو آپ ؐ کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے روانہ ہوأ تھا آپ ؐ کی خدمت میں پہنچ کر مشرف با اسلام ہو گیا۔ ( ا بن ہشام)
مجادلہ حسنہ
حضور اکرم ؐ کی ایک خصوصیت اصول مجادلہ احسن ہے قرآن مجید میں مجادلہ احسن اور مجادلہ باطل کا ذکر آتا ہے ۔ مجادلہ باطل کو کفار و مشرکین کی طرف منسوب کیا گیا ہے جس سے مراد کسی معقول دلیل کے بغیر اپنے موقف پر اصرار ، مسئلے کو غیر متعلق باتوں میں الجہاد دینے ، بے فائدہ کج بخشوں میں تضیع اوقات اور خواہ مخواہ کی موشگافیاں کرنا ہے،یہ ہمیشہ اہل باطل کا شیوہ رہا ہے اس کے برعکس اہل حق کو ابتدا میں ہدایت کی گئی کہ جہاں تک ہو سکے معاملے کو مجادلہ تک نہ پہنچنے دیں اگر مجادلہ کی نوبت آجائے تو مجادلہ احسن بنائیں ۔ ارشاد ربانی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مخاطب کو مطمئن اور قائل کرنے کے لیے محبت، اعتماد اور حسن خلق اور عمدہ استدلال سے کام لیا جائے ۔(آل عمران)
سیرت نبویؐ میں مدینہ منورہ کی زندگی میں آپؐ کی یہودیوں اور نجرانی عیسائیوں کے وفد سے مباحثہ اس کی نمائندہ مثالیں ہیں۔(طبقات ، ابن معد)
نرم بات
حضورؐ کی تبلیغی زندگی کی ایک اور اصول’’ قولِ لین ‘‘ ہے جس کا مطلب نرم بات ہے ۔ مبلغ دین کی باتوں میں نرمی کا عنصر کا پایا جانا بہت ضروری ہے اور حضورؐ رحمت اللعالمین کے اندر یہ بخوبی موجود تھا۔قرآن مجید میں ارشاد ہے :
’’ پھر اللہ کی رحمت کے سبب ہی سے ہے کہ آپ ؐ ان کے لیے نرم ہو گئے ہیں اور اگر آپ تند خوسخت طبع ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے منتظر ہو جاتے ‘‘۔( آل عمران 159)
قرآن مجید میں بیشتر مقامات پر حضورؐ کو رحمت ، ایمان والوں کے لیے رئوف اور رحیم قرار دیا ۔ نرمی ملاطفت اور مہر بانی کا جوبرتائو آپؐ نے اپنے جانی دشمنوں سے کیا اور جس نے ابو سفیان ؓ بن حرب عکرمہ ؓ بن ابی جہل ، عمری بن وہب الجمعی ، ہند ؓ بنت عتبہ اور صفوانؓ بن امیہ جیسے سینکڑوں لوگوں کی کایا پلٹ دی وہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔ آپ نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی اپنے اخلاق اور شیرینی گفتار سے اپنا اور اسلام کا گرویدہ کرلیا۔
تالیفِ قلوب
اصول تالیف قلوب بھی حضوراکرمؐ کی تبلیغی خصوصیت اور حکمت عملی کا بنیادی جزو ہے ۔ اس سے مراد آپ ؐ کا وہ سلوک ہے جو غیر مسلموں اور بعض نو مسلموں کے ساتھ اس غرض سے آپ ؐ نے کیا کہ وہ اسلام کو شفقت اور حسن سلوک کا نمونہ خیال کریں ۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ ؐ نے اپنے دشمنوں کی عام معافی کا اعلان فرمایا۔ تالیف قلب کا یہ اقدام بہت مدد گارثابت ہؤا اور چند دنوں میں ہی دوہزار قریش مسلمان ہو گئے ۔ غزوہ حنین کی فتح کے بعد مال غنیمت میں سے آپؐ نے بالخصوص نو مسلموں کے لیے زیادہ حصہ مقرر فرمایا ، جس کا مقصد بھی تالیف قلوب تھا ۔ آپ ؐ کے اس طرز ِ عمل نے ان لوگوں کو اسلام اور پیغمبر اسلام سے مخلص بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔
خلاصہ بحث
آپ ؐ کی تبلیغی زندگی کی اہم خصوصیت شفقت و رافت بھی ہے ۔ آپ ؐ مجسمہ شفقت و رافت تھے آپ ؐ کی امت سے محبت و شفقت کا یہ عالم تھا کہ آپؐ فرط رحمت سے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مسلسل غم و فکر میں گھلتے رہتے ہیں جس پر قرآن مجید میں آپ ؐ کو تنبیہہ کی گئی:
’’ کیا آپ ؐ اس غم میں کہ وہ ایمان نہیں لائے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے‘‘۔( الکہف6)صحابہ کرام ؓ کا آپؐ کے متعلق یہ کہنا تھا کہ:
’’ جو کوئی آپؐ کو پہلی بار دیکھتا وہ آپ ؐ کے دبدبے سے مرعوب ہو جاتا اور جو آپ ؐ سے معاملہ کرتا وہ آپ ؐ سے محبت کرنے لگتا۔( ترمذی)
مخالفین کو آپ ؐ کی تبلیغی زندگی میں سب سے زیادہ جس نے متاثر کیا وہ آپ ؐ کی صفت عفوو در گزر اور حسن خلق ہے آپ ؐ نے اپنے سخت ترین دشمنوں کو عام معافی عطا فرمائی اور قتل کی نیت سے آنے والوں کو معاف فرمایا ۔(ابن ہشام) اہل طائف کے ظلم اور ان کی تعدی کے باوجود یہ کہہ کر ان کو معاف کر دیا کہ اگر یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو مجھے یہ امید ہے کہ ان کی اولاد ضرور اس سے بہرہ ور ہو گی غزوہ احد میں جب مسلمانوں نے آپ ؐ کو لہو لہان دیکھ کر مشرکین کے حق میں بددعا کر نے کی درخواست کی تو رحمت مجسم نے فرمایا۔
’’ اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت فرما کیونکہ وہ نہیں جانتے ‘‘ ۔ ( فتح البا ری)
اسی طرح مدینہ منورہ پر متعدد بارحملہ کے لیے آنے والے قریشی کمان دار اعظم ابو سفیان ؓ کا گھر فتح مکہ کے دن ’’ دارالامن ‘‘ بنا دیا گیا اور اس کی بیو ی کو جس نے غزوہ احد میں کفار مکہ کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی ترغیب دینے کے لیے جذباتی اشعار گائے تھے اور جس نے سید الشہدا حضرت حمزہ ؓ کی لاش کا مثلہ کیاتھا امن دے دیا گیا ، ابو جہل کے بیٹے کو بھی معافی مل گئی ۔ آپ ؐ کو قتل کرنے کے لیے عمیرؓ بن وہب جیسے شخص کو بھیجنے والے صفوان ؓ بن اُمیہ کو چار ماہ کی مہلت عطا کردی گئی ۔ الغرض ہر ایک دشمن اسلام کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جو انسانی جذبوں کے بالکل برعکس تھا ۔ آپؐ کے اسی طرز عمل نے حساس قریشیوں کے دل موہ لیے اور وہ مشرف با اسلام ہو گئے۔
پُر حکمت انداز تلقین
آپؐ کی تبلیغی حکمت عملی پر حکمت انداز سے بھر پور تھی ۔ آپ ؐ لوگوں کا مزاج ، ان کی افتاد طبع اور موقع محل کے مطابق ان سے کلام فرماتے تھے۔ ہر شخص کو ایک لاٹھی سے ہانکنے کا اصول آپ ؐ کی تبلیغی زندگی میں کہیں نہیں ملتا ۔ حالات طبائع میں فرق کے ساتھ آپؐ کے طریقے میں تبدیلی آجاتی تھی۔
آپؐ نے ہر شخص سے وہی سلوک کیا جس کا وہ حقدار تھا ۔ آپ ؐ ہر شخص سے کامل بشاشت ، وفود مسرت اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ پیش آتے جس سے لوگوں کے دل و دماغ باغ باغ ہو جاتے اور مخاطب ترش روئی یا تند خوئی سے پیش آتا تو بھی آپؐ قطعاً برا نہ مناتے اگر نا زیبا گفتگو کرتا تو آپ تحمل فرماتے۔
ایک شخص کو آپ ؐ نے اسلام کی دعوت دی اس نے کہا کہ مجھے سب باتیں منظور ہیں مگر میں فلاں فلاں کام نہیں چھوڑ سکتا ، یہ سن کر بعض صحابہ اکرام ؓ ناراض ہوئے مگر آپ ؐ نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے قریب بلایا اور نرمی سے ان برے کاموں کی قباحت ذہن نشین کرائیں جس سے وہ خود ہی ان سے تائب ہو گیا ، ایک بدو نے مسجد نبوی کے ایک گوشے میں پیشاب کر دیاصحابہؓ اس کو مارنے کے لیے دوڑے مگر آپ ؐ نے منع کردیا جب وہ حاجت سے فارغ ہو گیا تو نہایت نرمی سے اور پیار سے اسے مسجد کی عزت و حرمت سے آگاہ کیا۔ اسی طرح آپ ؐ کی خدمت میں ایک بدو سردار ضمام بن تغلبہ حاضر ہؤا اور کئی قسمیں دے کر آپ ؐ سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ ؐ اللہ کے فرستادہ ہیں ؟ آپؐ نے اسی کامل بشاشت سے جواب دیا ۔ جب وہ چلا گیا تو آپؐ نے اس کی درشتگی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کی سادہ لوحی اورجذبہ خلاص کی تعریف فرمائی‘‘۔(بخاری)
قرآن مجید میں حضورؐ کے القاب میں ایک لقب’’ داعی الی اللہ ‘‘ یعنی اللہ کی طرف بلانے والا بھی ہے یہ لقب گویا بارگاہ الٰہی سے آپ کی کوششوں کی پذیرائی ہے جو آپ ؐ نے اس سلسلے میں اختیار کیں اس سے آپؐ کی دعوت و تبلیغ کی کاوشوں کا اندازہ لگانا کسی فرد بشر کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ یہ تو ایک بہتا ہؤا دریا ہے ۔ جو حضورؐ کی حیات طیبہ سے اب تک جاری و ساری ہے اور تا قیامت جاری رہے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’ اے پیغمبر ؐ لوگوںکو دانش اورنیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلائو اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔ جو اس کے راستے سے بھٹک گیا تمہارا پروردگار اسے خوب جانتا ہے اور جو راستے پر چلنے والے ہیں ان سے بھی خوب واقف ہے ‘‘۔( النحل 125)
اس آیت مبارکہ سے دعوت و تبلیغ اس کی حکمت عملی اور طریقہ و اسلوب بخوبی واضح ہوتا ہے ۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ نے دعوت و تبلیغ کے تین اصول اس آیت کی روشنی میں بیان فرمائے ہیں۔
’’یہ تینوں اصول وہی ہیں جو منطقی استد لال ــمیں عموماً کام میں لائے جاتے ہیں ۔ ایک تو برہانیات جن میں یقینی مقدمات کے ذریعہ دعوے کے ثبوت پر دلیلیں لائی جاتی ہیں۔ دوسرے خطابیات جن میں موثر اور دل پذیر اقول سے مقصد کو ثابت کیا جاتا ہے ۔ اور تیسرے جد لیات جن میں مقبول عام اقوال اور فریقین کے مسلم مقدمات سے استد لال کیا جاتا ہے ۔ قرآن پاک نے پہلے طریق کو حکمت، دوسرے کو موعظ حسنہ اور تیسرے کو جد ال سے تعبیر کیا اور استد لال کے یہی وہ تین طریقے ہیں جن سے ایک شخص دوسرے کے سامنے مدعا کو ثابت کرتا ہے ۔ دعوت و تبلیغ کے یہی تین طریقے ہیں ‘‘۔(سیرت النبیؐ)
خلاصہ بحث
حضور اقدس ؐ اللہ کے پیغمبر ہیں آپ ؐ کی تبلیغ کا مقصد اللہ کا دین لوگوں تک بہتر طور پر پہنچانا ہے اور اسی مقصد کے لیے آپ نے اپنی تبلیغی حکمت عملی میں قرآن مجید کے بیان کردہ اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھا اور دعوت و تبلیغ کی فرضیت اور اہمیت کے پیش نظر اور منصب رسالت اور مقصد رسالت کو بخوبی سمجھتے ہوئے موقع محل ، عقلی استد لال مخاطب کی نفسیات ، تدریج و موعظہ ، مجادلہ حسنہ کے ذریعے دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا اور امت مسلمہ کو بھی اس کی تلقین فرمائی دعوت تبلیغ امت محمد ؐ کا وہ دینی اور اجتماعی فریضہ ہے جو امت کے ہر فرد پر عائد ہے جسے ہر دور انسانیت کے ہر طبقہ اور خطہ ارض کے ہر کونے تک پوری حکمت و بصیرت کے ساتھ پہنچانا ایک دینی فریضہ ہے ۔ اس فریضے کے لیے حضورؐ کے بتائے ہوئے اصولوں ، اسالیب اور مناہج کو مد نظر رکھتے ہوئے اس پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔
دعوت و تبلیغ کی حکمت عملی اور اصولوںپر عمل پیرا ہو کر حضور ؐ نے دنیا کو توحید کے نور سے منور کیا اور دعوت دین اور اشاعت دین میں وہ بہترین کردار ادا کیا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ایک مغربی مصنف لکھتا ہے :
’’ الہامی کتابوں کے حوالے سے کوئی بھی تاریخی انقلاب اتنے ہمہ گیر اثرات کا حامل نہیں ، جس قدر وہ انقلاب ہے جو پیغمبر اسلام ؐ نے پائیدار بنیادوں پراٹھایا اور پھر اسے بتدریج استوار کیا‘‘۔(ریورنڈ جارج 1971)
اس کی وجہ وہ پائیدار بنیادیں اور تدریج ہے جن کو حضور ؐ نے اپنی دعوت و تبلیغ میں شامل فرمایا کہ اس عزم اور یقین کے ساتھ دعوت و تبلیغ کی جائے کہ ہر انسان بدل سکتا ہے ، ہر بد کار نیکو کار بن سکتا ہے ، ہر کافر مسلمان ہو سکتا ہے ، ہر مخالف ساتھ آ سکتا ہے ، ہر گمراہی میں ڈوبے ہوئے دل کا قفل کھل سکتا ہے ۔ صرف مذہب اور عقیدہ دنیا کے حالات میں کوئی انقلاب پیدا نہیں کر سکتا ۔ اس کے ساتھ اگر عمل بھی ہو تب بھی دنیا سے برائی کو نہیں روک سکتا ۔ عقیدے اورعمل کے ساتھ دعوت اسلام کا مشن ہے ۔ یہی وہ مجموعہ ہے جو پیغمبر اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور یہی وہ مجموعہ ہے جو ڈوبی ہوئی نائو کو تیرا سکتا ہے ۔
دل کی نرمی، گفتگو کا سلیقہ ، لہجہ کی شیرنی ، اخلاق و کردار کا حسن و جمال ، عفو ودرگزر ، غصہ ، حسد اور کینہ سے پاک دل اور اخلاق و اعمال ، مساوات دعوت و تبلیغ کے ان اسالیب اور حکمت عملی پر قائم رہنا ضروری ہے ۔
٭…٭…٭