گھنٹے دنوں میں دن مہینوں میں اور مہینے سالوں کا روپ دھار رہے تھے۔ یہ گزرتے ماہ وسال حاجرہ کی پریشانی میں بتدریج اضافہ کر رہے تھے۔ پریشان کیوں نہ ہوتی شوہر سر پر نہیں تھا۔ خود بھی بڑھاپے کی منزلیں پار کر رہی تھی۔اولاد میں صرف بیٹے ہی تھے لیکن ان کی شادی کی فکر تو دامن گیر تھی۔ باپ کی غیر موجودگی نے ماں کے دل میں اور زیادہ احساس ذمہ داری پیدا کر رکھا تھا۔وہ جلد از جلد اپنے فرائض سے سبکدوش ہونا چاہتی تھی۔ یہ اس خاتون کی خوش قسمتی تھی کہ لوگوں کے گھروں میں بیٹیوں کے لیے پیغام آتے ہیں لیکن اس کے گھر میں بیٹوں کے لیے پیغام آ رہے تھے۔
عبداللہ کھانا کھانے کے لیے باورچی خانے میں ماں کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ ماں نے بڑی محبت سے اس کے لیے پراٹھا بنایا اور ساتھ ساگ کو دیسی گھی کا تڑکا لگا کر دیا۔ عبداللہ جب رغبت سے کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا تو ہاجرہ بھی اپنا مدعا زبان پر لے آئیں۔
’’میرے بختاں والے پتر ! میں بھی اپنی زندگی میں تیرے سر پر سہرا سجا دیکھنا چاہتی ہوں۔ اب تو ہر ملنے والا مجھ سے سوال کرتا ہے کہ عبداللہ کی شادی کے چاول کب کھلا رہی ہو؟ ہر آنے والے رشتے کے لیے تم انکار کر دیتے ہو۔ کسی کی بیٹی کے لیے انکار پر مجھے خود بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔تمہاری کوئی اپنی پسند ہے تو مجھے بتا دو۔ تم جہاں کہو گے میں تمہارے لیے رشتہ لینے چلی جاؤں گی‘‘۔
حاجرہ کا بات کرتے کرتے لہجہ لجاجت سے تلخی کی طرف بڑھنے لگا۔ ماموں، چچا، خالہ کے گھروں کے لیے تو تم انکار کر چکے ہو۔ باہر سے آنے والے، پڑھی لکھی لڑکیوں کے رشتے بھی تمہاری ہاں پر نہیں۔ تم چاہتے کیا ہو اور اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟ اگر برادری میں رب نے عزت دی ہے تو شکر ادا کرو اس پر اتراؤ نہیں۔ چھوٹا بھائی بیاہا جا چکا ہے۔ اس سے چھوٹے کی منگنی ہو چکی ہے اور تیرے بالوں میں سفیدی آنے والی ہے۔
ماں کے مزاج کا پارا بڑھتے ہوئے دیکھ کر عبداللہ جلدی سے آگے بڑھ کر ماں کے دونوں گھٹنوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر بولا۔
’’امی جی یقین کریں اگر میرے اختیار میں ہو تو میں ہر آنے والے رشتے میں سے کسی کا انکار نہ کروں اور سب کے ساتھ شادیاں کروا لوں لیکن کیا کروں ہمارے مذہب میں مرد کے لیے حد تو صرف چار شادیاں ہیں اور میں رہا نکما، نکھٹو، ایک بیوی کے لیے بھی دال روٹی کا بندوبست کرنا مشکل لگتا ہے‘‘۔
’’چل پرے ہٹ….. کبھی چج کی بات نہ کرنا۔ میں جب بھی شادی کی بات کرتی ہوں تم مجھے ایسے ہی ٹال دیتے ہو‘‘۔
اور عبداللہ بھی مسکراتے ہوئے وہاں سے ہٹ گیا۔
@طیبہ، نادرہ اور امت اللّہ، تینوں ایک ہی گاؤں کی رہنے والی بچپن کی سہیلیاں تھیں۔ یہ اکٹھے ایک ہی سکول میں پڑھ کر اب ایک ہی کالج میں کلاس فیلو تھیں۔ ان کا انتخاب مضامین بھی ایک ہی تھا۔ دوستی ایسی پکی کہ ان تین کے گروپ میں نہ تو سکول کے زمانے میں کوئی کمی بیشی ہوسکی اور نہ ہی کالج میں۔ ان کے درمیان کچھ بھی راز نہیں تھا۔ بے تکلفی سے ایک دوسری سے دل کی بات کر لیتیں۔ کالج میں بریک ہوتی یا کوئی فارغ پیریڈ یہ باتیں کرنے بیٹھ جاتیں۔ امت اللہ باتیں کرنے میں بظاہر ان کا ساتھ دیتی لیکن اندر سے ذرا گھنی میسنی اور مختلف تھی۔ وہ گود میں کتاب رکھ لیتی یا پھر ان کی نظروں سے اوجھل اپنی دوسری طرف۔ ان کی نظروں سے بچ کر کتاب کو تھوڑا سا کھولتی سبق دیکھتی اور یاد کرتی رہتی۔ مطالعہ اور پڑھائی کی تو وہ شوقین تھی ہی لیکن زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کا بھی جنون تھا۔ اس نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کا خواب دیکھا اور آٹھویں جماعت سے ہی ساتھ اس امتحان کی تیاری بھی شروع کر رکھی تھی۔ طارق
@طیبہ، نادرہ اور امت اللّہ، تینوں ایک ہی گاؤں کی رہنے والی بچپن کی سہیلیاں تھیں۔ یہ اکٹھے ایک ہی سکول میں پڑھ کر اب ایک ہی کالج میں کلاس فیلو تھیں۔ ان کا انتخاب مضامین بھی ایک ہی تھا۔ دوستی ایسی پکی کہ ان تین کے گروپ میں نہ تو سکول کے زمانے میں کوئی کمی بیشی ہوسکی اور نہ ہی کالج میں۔ ان کے درمیان کچھ بھی راز نہیں تھا۔ بے تکلفی سے ایک دوسری سے دل کی بات کر لیتیں۔ کالج میں بریک ہوتی یا کوئی فارغ پیریڈ یہ باتیں کرنے بیٹھ جاتیں۔ امت اللہ باتیں کرنے میں بظاہر ان کا ساتھ دیتی لیکن اندر سے ذرا گھنی میسنی اور مختلف تھی۔ وہ گود میں کتاب رکھ لیتی یا پھر ان کی نظروں سے اوجھل اپنی دوسری طرف۔ ان کی نظروں سے بچ کر کتاب کو تھوڑا سا کھولتی سبق دیکھتی اور یاد کرتی رہتی۔ مطالعہ اور پڑھائی کی تو وہ شوقین تھی ہی لیکن زندگی میں آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کا بھی جنون تھا۔ اس نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کا خواب دیکھا اور آٹھویں جماعت سے ہی ساتھ اس امتحان کی تیاری بھی شروع کر رکھی تھی۔ طارق عزیز شو ہو یا کوئی اور کوئز پروگرام سب دیکھے جاتے نہ صرف دیکھے جاتے بلکہ ساتھ ساتھ سوال جواب لکھ کر ایک کاپی میں بھی محفوظ کر لیے جاتے پھر انہیں یاد کیا جاتا۔ اس کے علاوہ اس نے انسائیکلوپیڈیا کوئز کی کتابیں بھی خرید رکھی تھیں جنہیں باقاعدگی سے پڑھتی۔اخبارات کا مطالعہ روزانہ روٹین میں شامل کر لیا۔ البتہ طیبہ اور نادرا اپنی اس، بقول ان کے کتابی کیڑا سہیلی سے مختلف تھیں۔ وہ صرف پاس ہونے کے لیے پڑھتیں۔ جماعتیں پاس کرنے کا فلسفہ ان کے نزدیک صرف اچھے رشتے کا حصول تھا۔ شادی کے بعد گھر گرہستی کی حقیقت پر ان کا یقین تھا۔ اس لیے پڑھائی میں سر کھپانے سے گریزاں تھیں۔ گاؤں کے اردگرد کے حالات کا خبر نامہ بھی ایک دوسری کو سنانا ان کا مشغلہ تھا۔ اپنے لیے ہر آنے والے رشتے یا اشارہ کے بارے میں بیٹھ کر پوری داستان بنا کر سناتیں۔ امت اللہ ان کے درمیان حاضر رہ کر بھی غیر حاضر ہوتی جو اس وقت ان کے پاس بیٹھنے کو اپنے مجبوری سمجھ رہی ہوتی۔
ایک دن یہ تینوں سردیوں کی دھوپ سینکنے کے لیے کالج کی گراؤنڈ میں بیٹھی تھیں۔ گزشتہ روز طیبہ کے گھر اس کی پھوپھو اپنے دیور کے لیے اس کا رشتہ مانگنے آئی تھی۔ یہ خبر ہی اتنی بڑی تھی کہ اگلے کئی دن اس کی بیخ کنی کے لیے درکار تھے۔ پھر اچانک دونوں کے دلوں میں نہ جانے کیا بات آئی کہ وہ امت اللہ کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگیں۔
’’ نی…..گھنی میسنی! کبھی تم بھی کچھ زبان سے پھوٹ دیا کرو۔ بھلا تمہارے لیے کبھی کوئی رشتے کا پیغام نہیں آیا؟‘‘
’’نہیں‘‘۔ امت اللہ نے بس ایک لفظ میں ہی جواب دیا۔
کیسے نہیں ہمارے دیہاتوں میں تو بچپن میں ہی رشتے طے کر دیے جاتے ہیں۔ ہمیں تو شکر ادا کرنا چاہیے جو ابھی تک کسی کھونٹے سے بندھنے سے بچی ہوئی ہیں۔
امت اللہ چڑ سی گئی کیونکہ یہ اس سے پوچھے جانے والا ایک ناپسندیدہ سوال تھا۔
’’بھئی میرے لیے رشتہ کہاں سے آنا ہے۔ نہ کوئی میری پھوپھو ہے اور نہ ہی خالہ۔ چچا اور ماموں کے بیٹے میرے سے کئی سال چھوٹے ہیں۔ اب آپ کیا چاہتی ہیں کہ ان لنگوٹ باندھے بچوں کے رشتے میرے لیے آنا شروع ہو جائیں۔ جتنی فکریں تم دونوں نے شادی کی پال رکھی ہے ناں اگر پڑھائی کی فکر اس سے آدھی بھی کر لو تو تم مستقبل میں کسی افسر کرسی پر ہی بیٹھ جاؤ۔ اگر مجھے اپنے ساتھ رکھنا ہے تو آئندہ نہ میرے سے ایسا سوال کرنا ہے اور نہ ہی میرے سامنے ایسی فضول باتیں کرنی ہیں۔ یہ شادی کی فکریں تمہاری نہیں تمہارے والدین کی ہیں‘‘۔
’’ہائے….. مردہ بولے کفن پھاڑے۔ اول تو یہ بولے ہی نہ اور بولے تو بم ہی پھوڑے۔ چھوڑیں اس ملانی کو۔ اس نے تو شادی ہی نہیں کروانی۔ باقی رہ گئے ہم، بھئی ہم نے تو بڑی دھوم دھام سے شادی کروانی ہے جسے دنیا دیکھے اور دنیا کے ساتھ ساتھ یہ ملانی بھی دیکھے۔ طیبہ ایک کام کرنا ہے۔ آج رات سونے سے پہلے استخارہ کرنا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ سے یہ معلوم کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دکھا دیں وہ کون سے دو خوش نصیب حضرات ہوں گے جن کے لڑ ہم لگیں گی۔ ہماری اس تیسری مولانی نے تو کنوار کوٹھا بنانا ہے‘‘۔ نادرہ نے استخارہ کرنے کی نئی تجویز پیش کر دی۔
اس دن امت اللہ کو بھی نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے بھی چپکے سے استخارہ کر لیا اور خواب بھی دیکھ لیا۔ اگلے دن کالج میں طیبہ اور نادرہ منہ بسور کر شکوہ کر رہی تھیں کہ سارا کچھ کتاب میں دی گئی ہدایات کے مطابق پڑھا تھا لیکن نظر کچھ بھی نہیں آیا۔ امت اللہ کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا نہ اس سے کسی نے کوئی سوال کیا ۔
@’’عبداللہ پتر آج تمہارا کوئی ضروری کام تو نہیں؟‘‘
’’نہیں امی جان ضروری تو کیا کوئی عام سا کام بھی نہیں۔ آپ حکم کریں میں حاضر ہوں‘‘۔ عبداللہ نے تابعداری کا انداز اپناتے ہوئے کہا۔
’’ عبداللہ! پھوپھی زرینہ نے اپنے علاقے سے ایک رشتے کا بتایا ہے۔ پڑھا لکھا گھرانہ ہے۔ لڑکی بھی سلجھی اور سمجھدار ہے۔ آج تم نے میرے ساتھ یہ رشتہ دیکھنے جانا ہے۔ دیکھنا کیا ہے بس آج یہی رشتہ حتمی بھی ہے۔ تم نے مجھے بہت تھکا دیا ہے۔ بعد میں پھوپھی زرینہ کے گھر محفل کے لیے رکنا بھی ہے‘‘۔
’’امی بس کریں اب میرے لیے لڑکی کی تلاش۔ جو وقت اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اور جہاں لکھا ہے اسباب خود بخود پیدا ہو جائیں گے۔ امی یقین کریں کہ کسی کی بیٹی کو مسترد کرتے ہوئے مجھے خود بھی بہت شرمندگی اور دل میں تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن میں کیا کروں میرا دل کہیں بھی نہیں مانتا۔ حتیٰ کہ میری زبردستی کو بھی نہیں مانتا۔ آپ میری شادی کا خیال دل سے نکال دیں‘‘۔
’’دل نہیں مانتا تو میں کیا کروں۔ بس یہ آخری جگہ ہے اور تمہیں یہاں شادی کے لیے ہاں کرنی پڑے گی‘‘۔ حاجرہ غصہ میں بولتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ گویا آج وہ بھی حتمی فیصلہ کر چکی تھی۔
ہاجرہ نے لڑکی دیکھی جو اس کے دل کو بہت بھائی۔ لڑکی اور اس کے خاندان کی تعریف میں پھوپھی زرینہ نے جو کچھ بھی بتایا سب نظر آ رہا تھا۔ عبداللہ مہمان خانے میں لڑکی کے بھائی اور باپ کے ساتھ بیٹھا رہا۔ جنہوں نے اس کا انٹرویو کیا نتیجہ بغیر مشورہ کے ہی عبداللہ کے رشتے پر گوڈے گوڈے راضی تھے۔ واپسی پر دونوں ماں بیٹا پھوپھی زرینہ کے گھر میں آئے۔ زرینہ حاجرہ کی پھوپھی، عبداللہ کی رشتے میں نانی تھی۔ محفل ختم ہونے کے بعد گھر والے اور یہ لوگ گھر کے دوسرے صحن میں بیٹھ کر گپ شپ لگانے لگے۔
امت اللہ اپنی نانی کے پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں میں سب سے بڑی تھی۔ نانی اور نواسی میں عشق معشوقی ایسی تھی کہ دونوں کا ایک دوسری سے دور رہ کر کھٹن وقت گزرتا۔ بچپن اور لڑکپن نانی کے گھر میں ہی گزرا۔ بڑی ہونے پر دادا نے اپنے گھر بلوا لیا مگر چھٹیاں ہوتے ہیں نانی اپنی طرف بلا لیتی۔ ان دنوں میں وہ تین ماہ کی چھٹیاں گزارنے نانی کے پاس آئی تھی۔ اس وقت کسی ضروری کام کے سبب نانی کو بلانے دوسرے صحن کی طرف چلی گئی۔ وہ مہمانوں سے ملنے سے ہمیشہ کنی کتراتی تھی چاہے وہ خواتین ہی ہوتیں۔ جب سامنے چلی گئی تو مجبوراً مہمانوں کو سلام کرنا پڑگیا۔
عبداللہ اس کے ماموں کے قریب ہی کرسی پر بیٹھا تھا اور ماموں کے ساتھ اس کی دوستی کے بارے میں بھی سن رکھا تھا۔ لیکن سوئے اتفاق، دیکھا پہلی بار تھا۔ امت اللہ نے جس طرح دوسروں کو آگے بڑھ کر سلام کیا اس طرح عبداللہ کو بھی ماموں کہہ کر سلام کیا اور عبداللہ نے بھی بڑی تعظیم کے ساتھ اٹھ کر سر پر ہاتھ رکھا جس کے دوران اس کی امت اللہ کے چہرے پر بھی نظر پڑ گئی۔
’’ یہ کیا؟‘‘
عبداللہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیا۔ اسے تو ایسے تھا جیسے سووولٹ کا کرنٹ لگا ہو۔ حیرانی سے اس کا دماغ سن ہو رہا تھا ۔زمین و آسمان ایک ہو کر آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ وہ آنکھیں بند کرکے کرسی کی پشت پر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھوں سے اپنا سر سہلانے لگا۔
@’’لڑکی والوں نے تجھے پسند کر لیا ہے اور اب تجھ نواب زادے کی رائے جاننا چاہ رہے ہیں‘‘۔ حاجرہ بیچاری تو اس معاملے میں ستی ہوئی لگ رہی تھی۔
’’امی ! ہمیں نانی زرینہ دوسروں کے گھر تو دکھا رہی ہیں اسے کہیں کہ ہمیں اپنے گھر سے رشتہ دے دیں‘‘۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے عبداللہ ماں سے منت سماجت کرکے کوئی چیز مانگ رہا ہے۔
’’ہائے ہائے لگتا ہے جیسے تم کسی پچھلے زمانے میں پہنچ چکے ہو۔ بھئی ان کی ایک ہی بیٹی ہے جس کی شادی بھی اٹھارہ سال پہلے ہو چکی ہے۔ برائے مہربانی موجودہ زمانے میں تشریف لے آئیں‘‘۔
’’امی! میں ان کی بیٹی کی بات نہیں کر رہا ان کی نواسی کی بات کر رہا ہوں‘‘۔
’’واہ صاحب زادے !بڑی دور کی کوڑی لائے ہو۔ وہ بچی تو کل کی جنم ہے۔ سنا ہے کہ اس کو پڑھنے کا بہت شوق ہے جس کی تکمیل بھی اس کا دادا کر رہا ہے جبکہ ہمارے عزیزوں میں میٹرک سے زیادہ بیٹی کو پڑھانے کا رواج ہی نہیں۔ پتہ نہیں وہ شادی کے لیے مانتے بھی ہیں یا نہیں‘‘۔
’’امی ! آپ نانی سے بات تو کر کے دیکھیں۔ انشاءاللہ میری
’’امی ! آپ نانی سے بات تو کر کے دیکھیں۔ انشاءاللہ میری شادی وہیں ہوگی‘‘۔ عبداللہ نے یہ بات پورے وثوق سے کہہ دی گویا اسی جگہ شادی ہوجانے کا اسے یقین ہو۔
’’اچھا جی تیری بات بھی مان کر دیکھ لیتے ہیں‘‘۔ حاجرہ نے عبداللہ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے کیونکہ پھوپھی زرینہ سے اس کی اپنی بھی محبت تھی۔ وہ دونوں سہیلیوں کی طرح دکھ کی ساتھی بھی تھیں اور امت اللہ اسے بھی اچھی لگی تھی ۔اگلی صبح ہی حاجرہ سویرے سویرے پھوپھی زرینہ کے گھر رشتہ مانگنے پہنچ گئی گویا اگر تھوڑی دیر کردی تو یہ ٹرین چھوٹ جائے گی۔ حاجرہ کے رشتہ مانگنے پر پھوپھی زرینہ پریشان ہو گئی اور کہنے لگی۔
’’دیکھیں حاجرہ ! پہلی بات تو یہ ہے کہ میرا بے شک جتنا مرضی پیار ہے اس بچی سے لیکن شادی کا اختیار تو اس کے دادا اور باپ کے پاس ہی ہے کہ وہ راضی بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔ دوسرا جو گھر میں نے آپ لوگوں کو بتایا ہے وہ آپ لوگوں کی رائے جاننے کے لیے مجھے بھی کئی بار فون کر چکے ہیں۔اگر آپ ہمارے گھر سے رشتہ لے جاتی ہیں تو میں انہیں کیا جواب دوں گی؟ وہ برا نہیں مانیں گے؟ کہ گھر ہمارا دکھا کر رشتہ اپنے گھر سے دے دیا ہے‘‘۔
’’پھوپھی! آپ انھیں کسی طرح سے ٹال دینا۔ آپ انہیں کہہ دینا کہ میرا بیٹا نہیں مانا لیکن مجھے اپنے گھر سے خالی ہاتھ نہ بھیجنا۔ آپ تو جانتی ہیں کہ میں اس معاملے میں کتنی پریشان ہوں۔ پہلی بار میرے بیٹے نے کسی جگہ اشارہ دیا ہے‘‘۔
ہاجرہ کا بڑھتا اصرار دیکھ کر پھوپھی زرینہ نے کہا۔’’ اچھا میں آپ کے لیے اتنا کر سکتی ہوں کہ آپ کے ساتھ بھائی رحمت اللہ کے پاس رشتہ مانگنے چلی جاؤں گی‘‘۔
پھوپھی کے اس دلاسے سےحاجرہ کے دل کو کچھ اطمینان محسوس ہؤا۔
’’دیکھ میری بہن تیرے لیے میرے دل میں بڑی عزت والا مقام ہے۔ یہ تیرے بھائی کا گھر ہے توں سو بار ادھر آ لیکن میں رشتہ نہیں دے سکتا‘‘۔
امت اللہ کے دادا رحمت اللہ نے رشتہ دینے سے صاف انکار کر دیا۔
’’لالہ! میں اللہ کے واسطے رشتہ مانگ رہی ہوں۔ آپ جیسے چاہیں میرے بیٹے کی تحقیق کروالیں کوئی بری عادت نہیں ہے اس میں۔ پڑھا لکھا بھی ہے باپ کے بعد سارا کاروبار اور گھر سنبھال رکھا ہے‘‘۔
’’بہن! میں آپ کے بیٹے کی خوبیوں سے انکار نہیں کر رہا۔ میں نے ابھی بچی کی شادی ہی نہیں کرنی۔ اس کی منگنی بھی تب ہی کروں گا جب شادی کرنی ہوگی‘‘۔
حاجرہ پریشان اور خالی ہاتھ واپس لوٹ گئی۔ ساری روداد بیٹے کو سنائی لیکن بیٹا جواباً شاداں و فرحاں مسکرا رہا تھا گویا کہ کسی اور دنیا میں ہی پھر رہا ہے۔
’’امی جی میری شادی اسی گھر میں اور اسی لڑکی کے ساتھ ہی ہونی ہے۔آپ یہ لکھ کر رکھ لیں‘‘۔
حاجرہ ناسمجھی کی کیفیت میں بیٹے کو دیکھنے لگی۔ چند دن بعد عبداللہ ماں سے پھر رحمت اللہ کے پاس جانے کا اصرار کرنے لگا۔
’’عبداللہ! اب میں کیا کہوں گی جاکر۔ بھائی رحمت اللہ نے مجھے یہ نہیں کہا کہ سوچ کر جواب دوں گا بلکہ صاف الفاظ میں رشتہ دینے سے انکار کیا ہے‘‘۔
’’امی! آپ اس بار میرے کہنے پر چلی جائیں ناں۔ میرا دل کہتا ہے کہ انکار نہیں ہوگا‘‘۔
’’اچھا پتر جی! اگر تیرا دل یہ کہتا ہے تو میں تمہارے کہنے پر دوبارہ چلی جاؤں گی‘‘۔
@رحمت اللہ کا دوست حاجی زکریا، عبداللہ کے محلے کا ہی رہنے والا تھا۔ حسن اتفاق انہی دنوں وہ بھی رحمت اللہ سے ملنے آ گیا۔ رحمت اللہ نے دورانِ گفتگو اس سے عبداللہ کے آنے والے رشتے کا ذکر کیا اور ساتھ ہی انکار کا بھی بتا دیا۔ یہ سنتے ہی چارپائی پر لیٹا ہوا حاجی زکریا اچھل کر بیٹھ گیا۔
’’یار رحمت اللہ یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ رشتہ انکار کرنے والا ہے کیا؟ رشتہ داروں کا کون سا گھر ہے جن کی آنکھ اس لڑکے پر نہیں۔ اب اگر وہ دوبارہ سوال کریں تو کبھی انکار نہ کیجیے گا۔ یار اس طرح کے رشتے نصیبوں سے ہی ملتے ہیں۔ وہ بڑا سلجھا ہوا اور سمجھدار بچہ ہے‘‘۔
حاجی زکریا کی زبان سے عبداللہ کی تعریف سن کر رحمت اللہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اٹھ کر بہو کے پاس آیا اور کہنے لگا۔
’’ دھی رانی! بہن حاجرہ کو رشتے کا انکار کرکے کہیں ہم اپنی بچی کے ساتھ انجانے میں زیادتی تو نہیں کر رہے‘‘۔
’’پتا نہیں ابو جی! آپ ویسا ہی کریں جو آپ کو مناسب لگ رہا ہے‘‘۔
’’چلیں ٹھیک ہے اگر وہ دوبارہ آ جاتے ہیں تو پھر ہاں کر دیں گے‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔ بہو رانی نے بھی تابعداری کے انداز میں ہاں میں سر ہلا دیا لیکن اندر سے وہ دلی طور پر اس رشتے سے خوش تھی۔
حاجرہ کا دوبارہ آنا دونوں گھرانوں کے حق میں کام آگیا۔ امت اللہ چھپ چھپ کر، اٹھتے بیٹھتے آنسو بہاتی۔ وجہ صرف پڑھائی کا چھوٹ جانا اور اپنے خوابوں کو نہ پا سکنا تھا لیکن بعد میں آہستہ آہستہ’’جو اللہ تعالیٰ کو منظور‘‘ سمجھ کر اس نے اپنے دل کو بھی سمجھا ہی لیا۔ محض 17 سال کی عمر میں سیکنڈ ایئر کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی اس کی شادی کے شادیانے بج گئے۔ طیبہ اور نادرا نے اپنی منگنیوں کے بغیر ہی اس شادی میں شرکت کی۔ البتہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد دلہن بنی امّت اللہ کو گھنی، میسنی کہہ کر ٹہوکا ضرور لگا دیتیں۔
دلہن بنی امت اللہ کے دل میں ایک طرف سے عبداللہ کے بارے میں کچھ اطمینان تھا۔ جب شادی کے بارے میں اس سے پوچھا گیا تو اس نے اپنی والدہ سے کہا کہ’’اگر آپ میری شادی کرنے پر مصر ہو ہی چکے ہیں تو میری شادی کسی ایسے لڑکے سے کیجیے گا جو پانچ وقت کا نمازی ہو اور حرام سے دور رہنے والا ہو‘‘ ۔
خوش قسمتی سے عبداللہ میں یہ صفات موجود تھیں۔ لیکن دوسری طرف دل میں کئی خدشات بھی تھے۔ مزاج کا کیسا ہوگا؟ علم دوست ہوگا یا نہیں، تعلیم جاری رکھنے میں میرا ساتھ دے گا یا نہیں۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی عبداللہ نے بڑے مودٔبانہ انداز میں بیوی کو السلام علیکم کہا۔ جواباً امت اللہ اپنی پوری سانس کھینچ کر بھی آہستہ سی آواز میں بمشکل وعلیکم السلام کہہ سکی۔
’’آپ کو شاید علم نہیں کہ میں نے آپ کو حقیقت میں دیکھنے سے پہلے خواب میں بھی دیکھ چکا تھا‘‘۔
عبداللہ نے پھر اپنی بات مزید جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’ پچھلے سال جب میں فریضہ حج کی ادائیگی کے لیے گیا تو ایک دن میں نے مسجد الحرام میں استخارہ کیا کہ یااللہ شادی کے لیے میری راہنمائی فرما دے۔ میں وہیں مسجد کے تہ خانے میں ہی سو گیا۔ خواب میں آپ کو دلہن بن کر مسکراتے ہوئے دیکھا پھر جب میں نے آپ کو آپ کی نانی کے گھر میں دیکھا تو میں حیرانگی سے چکرا کر رہ گیا۔ میرے اللہ یہ تو وہی چہرہ ہے جو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ الحمدللہ ، آج مجھے میرے خواب کی تعبیر مل گئی ہے‘‘۔
خواب تو امت اللہ نے بھی دیکھا تھا۔ وہ اس خواب کو تقریبا ً بھول ہی چکی تھی لیکن بابل کے گھر سے رخصتی کے وقت جب خواب والا منظر جاگتی آنکھوں سامنے دیکھا تو میکے سے جدائی کا رونا ہی بھول گئی اور ششدر رہ گئی۔ اس نے خواب میں دیکھاتھا کہ وہ لہنگا پہنے ہوئے ہے اور دراز قد آدمی کے ساتھ اپنے گھر کے مہمان خانے سے رخصت ہورہی ہے۔ حالانکہ اس کی رخصتی ابو کے پورشن سے ملحق ہی چچا کے پورشن سے ہونی تھی۔مگر ہؤا یہ کہ رخصتی سے صرف 15 منٹ پہلے ایک مہمان بزرگ خاتون نے امت الله کو ملنے کے لیے پیغام بھیجا کہ’’ میں نے تم سے ضرور ملنا ہے۔ میں وہاں تک چل کر نہیں جا سکتی، تم یہاں آکر ملتی جاؤ‘‘۔
خواب کا منظر بھی تو رب نے دکھانا تھا۔ جوڑے تو رب کی مرضی سے ہی بنتے ہیں لیکن اللّہ تعالیٰ نے اپنے ان عاجز بندوں کی خواب کے ذریعے راہنمائی بھی فرما دی تھی۔
٭ ٭ ٭