زبدہ بیاہ کے سسرال میں داخل ہوئی تو بہت سی چھوٹی چھوٹی خامیوں اور خوبیوں کے ساتھ ماں کی ایک عادت جہیز میں لے کر آئی تھی۔
اسے کم گوئی کی عادت نہیں تھی بلکہ ضرورت کے وقت الفاظ منہ سے نکالنا سکھایا گیا ۔البتہ ضرورت نہ ہو تو وہ کئی کئی گھنٹے منہ بند ہی رکھتی تھی۔
شادی بخیر و عافیت ہوئی۔ کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے سونے جاگنے سے لے کر ہزار مسائل میں سسرال کا مزاج الگ ہی تھا ۔
زبدہ کی سلجھی فطرت ،اخلاق حسنہ اور دین سے شغف نے اس میں برداشت کا مادہ وافر مقدار میں پیدا کردیا تھا ۔مزاج تو سگی بہنوں کے بھی فرق ہوتے ہیں اس لیے وہ زیادہ پریشان نہیں بلکہ پر امید ہی تھی
شادی شدہ زندگی کو دس ہفتے گزرے تھے جب ساس نے بآواز بلند اس کا نام لے کر پکارا ۔
’’جی امی جان‘‘ ،وہ پل بھر میں تابعداری سے حاضر ہوئی ۔
’’مجھے پتہ چلاہے فروہ تمہاری رشتہ دار ہے ‘‘،انہوں نے سوال کیا تھا یا بتایا تھا زبدہ کو اندازہ نہیں ہو سکا۔
’’کون فروہ ؟‘‘ وہ سوچ میں پڑ گئی ۔
ساس کے منہ پر روز روشن کی طرح طنزیہ مسکراہٹ نے جھلک دکھلائی ۔
’’تمہارے بڑے بھائی کی سالی…..‘‘کچھ کچھ چبھتا سا انداز تھا ساس کا۔
’’اوہ آپ زینی بھابھی کی بہن کی بات کر رہی ہیں ۔۔ڈاکٹر فروہ حسین کی ؟ ‘‘وہ شانت ہوئی ۔
ساس کے چہرے پر اب عجیب و غریب سے تاثرات تھے۔
’’جی بہو رانی ڈاکٹر فروہ حسین جسے سنا ہے دو ماہ پہلے طلاق ہوئی تھی ‘‘۔
زبدہ خاموش رہی ۔اس جملے میں کوئی بات جواب طلب نہیں تھی لیکن ساس کو اس کی خامشی کھلی ۔
’’ارے اب تو سسرال کو اپنا گھر سمجھ ہی لو‘ بندہ ہر وقت چپ رہتا اچھا نہیں لگتا….آخر کوئی وجہ تو ہو گی طلاق کی ؟‘‘انہوں نے باقاعدہ طور پر سوالیہ لہجہ اختیار کیا ۔
’’امی جان مجھے نہیں معلوم ،میں نے پوچھا نہیں کبھی نہ ہی بھابھی نے بتایا‘‘ ،اس کا یہ موقف سسرال میں باعث ندامت بن رہا تھا ۔
’’بتانا نہ چاہو تو اور بات ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم گھر والوں کو اس کی طلاق کی وجوہات معلوم نہ ہوں‘‘ ۔ساس کے لہجہ میں زہر کی ساری اقسام موجود تھیں ۔
’’امی جان قسم لے لیں ہمارے ہاں دوسروں کے متعلق کرید کرنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا ،بھابھی کو یقینی طور پر بہن کی علیحدگی کے بارے میں معلومات ہوں گی لیکن امی کو یا مجھے بالکل نہیں معلوم …‘‘زبدہ کی بات میں نمکین پانی شامل ہو گیا تھا اور آواز بھیگی ہوئی تھی۔
’’اچھا بھئی ،ہم تو زمانے بھر کے گناہگار ہوں گے پھر تمہاری نظر میں‘‘ ۔ساس نے گفتگو سمیٹتے ہوئے کہا ۔انداز میں تکبر اور حقارت سی محسوس ہوئی۔ منہ ہی منہ میں بد بداتے ہوئے بہت سے الفاظ زبدہ کے کانوں میں پگھلا ہؤا سیسہ بن کر زبردستی داخل ہو رہے تھے۔
’’ارے پارساؤں کا خاندان ہے ،ہم ہی کریدنے اور ٹوہ لینے میں ماہر ہوئے پھر‘‘۔
زبدہ خاموشی سے اٹھ گئی۔ سارا دن کام کرتے ہوئے آنسو
زبدہ خاموشی سے اٹھ گئی۔ سارا دن کام کرتے ہوئے آنسو پونچھتےہی گزرا ۔
زبدہ کے نرم و نازک دل پر ضرب بہت شدید لگی تھی۔ رات گئے سب کو کھانا دیا برتن دھو سمیٹ کر رکھے ۔سب کو سونے سے پہلے الائچی والا دودھ پینے کی عادت تھی۔ سردیوں میں گرم دودھ الائچی ڈال کر اور گرمیوں میں ٹھنڈا ،مگر ابالتے ہوئے الائچی ضرور ڈالی ہو، ساس کے بقول رات میں منہ سے سانس لیتے ہوئے خوشبوآتی ہے ۔
سب کو ان کے کمروں میں دودھ دینے کے بعد ساس سسر کو دودھ دینے گئی تو ا س کے قدم تھم گئے ۔ساس کی آواز میں جلال تھا ۔ موضوع سخن زبدہ تھی جو سسر کے کانوں میں گھنی میسنی ،چالاک بنا کر پیش کی جارہی تھی ۔
’’ہونہہ بھلا دنیا میں کوئی ایسی نند ہوگی جسے بھابھی کی بہن کی طلاق کا ہی پتہ نہ ہو،ابھی شروع میں یہ حال ہے آگے اس کے رنگ دیکھیے کیا سامنے آتے ہیں !‘‘ ساس نے نخوت سے کہا ۔
دودھ کے گلاسوں کی ٹرے ہاتھ میں لیے زبدہ سوچ رہی تھی کہ کیا ایسے بھی ممکن ہے نیکی کی قدر دانی کی بجائے نیکی پر شرمساری اور پچھتاوا ہونے لگے ۔
’’نہیں نہیں‘‘ ،اس کے اندر سے آواز آئی ،’’طوبی للغرباء….نیکی کرنا مشکل ضرور ہے نیکی کی قدردانی کرنے والے بھی کم ہی ہوتے ہیں لیکن نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی…..نیکی رائی کے بیج برابر کیوں نہ ہو برگ و بار لے کر ہی آتی ہے کیونکہ نیکی کی قدروقیمت دنیا والوں کو معلوم ہو یا نہ ہو،اللہ اس کا سب سے بڑا قدردان ہوتا ہے‘‘۔
وہ جو چند لمحے قبل سوچ رہی تھی اسے اب ساس کے کمرے میں جانا چاہیے یا نہیں ،بہت مطمئن انداز میں ساس کے کمرے میں داخل ہو گئی۔ اس کے چہرے پر وہ ازلی سکون و اطمینان تھا جس کے لیے چغل خور اور پیٹھ پیچھے برائی کرنے والے ہمیشہ ترستے ہی رہتے ہیں!