یہ لفظ ہندی زبان سے ماخوذ اسم ‘’بڑھا‘ کے ساتھ ‘’پا‘ بطور لاحقۂ صفت لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں عربی رسم الخط کے ساتھ بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ 1795ء کو’’دیوانِ قائم‘‘ میں مستعمل ملتا ہے۔
اس لفظ کو پڑھتے اور سنتے ہی پتا نہیں کیوں اپنا آپ بوڑھا بوڑھا لگنے لگ جاتا ہے !
شاید اس لیے کہ یہ اپنے ساتھ اداسی لیے ہوتا ہے یا ڈھلتے سورج کی مانند زندگی کے سفر کی شام ہونے والی ہوتی ہے۔ارادے تھک چکے ہوتے ہیں ،قویٰ کمزور ہوچکے ہوتے ہیں، زمانے کی متعلقہ ضرورتیں پوری ہوجانے کی بنا پر بے اعتنائی رواج بن چکی ہوتی ہے اور بڑوں کی وہ تمام نصیحتیں جنہیں اپنی جوانی کے وقت اہمیت نہیں دی ہوتی ،ہر جوان کا کرنے کو دل چاہنے لگ جاتا ہے۔ اور پھر صرف نصیحت ہی نہیں ،یہ توقع بھی کی جاتی ہےکہ ہر کوئی ان باتوں کو پلے سے مضبوطی سے باندھے اور ان پر عمل بھی کرے۔
دل میں تہہ در تہہ اداسیاں اتر آتی ہیں،اپنا آپ بلا وجہ ہی فالتو سا لگنے لگ جاتا ہے،جوانی میں طاقت اور ذمہ داریوں کا ہجوم پریشانی سے بچائے رکھتا ہے لیکن جب بدن کمزور پڑنے لگتا ہے تو خواہش کےباوجود بھی مصروفیتیں کم سے کم ہوتی جاتی ہیں۔چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں نشتر کی طرح سے چبھنے لگ جاتی ہیں ۔انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہی محفلوں کا مرکز رہے لیکن کب تک؟ بالآخر کورٹ سے نکلنا پڑتا ہے۔ صرف زمانہ ہی بے وفائی نہیں کرتا اپنے اعضا بھی انکاری ہوجاتے ہیں۔یہ زندگی کا سب سے مشکل وقت اور مرحلہ ہوتا ہے۔بچپن میں وہ کمزور ضرور ہوتا ہے لیکن ماں باپ اور بہن بھائیوں کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے ۔ہر کوئی مددگار اور جانثار، دل امنگوں کے امتحان سے نا آشنا ۔نوجوانی آتی ہے تو جذبوں کا بہاؤ دن رات کو قوس ِقزح بنائے رکھتا ہے۔
پھر جوانی ڈیرہ جماتی ہے اور جوانی تو ہوتی ہی دیوانی ہے۔اور دیوانوں کو ہوش کب ہوتا ہے؟یاروں کی محفلیں اور تاروں بھرے آسمان ہر شب کو گلزاربنائے رکھتے ہیں ۔
وقت گزرتے پتا ہی نہیں چلتا اورپتہ چل بھی جائے تو اس کو کوئی روک سکا ہے؟
پھر گھر اور خاندان کی تعمیر،وقت کا پہیہ چلتا نہیں پر لگائے اڑتا ہے۔اور پھر وہ وقت بھی آجاتا ہےجب دن کے سائے لمبے ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور رات اپنی دراز زلفیں سمیٹ لیتی ہے ۔بچے ایک ایک کرکے اپنی اپنی سمتوں کی جانب اڑانیں بھر لیتے ہیں ۔ تب انسان کو اپنے اندر جھانکنے کی فرصت میسر آتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ اندر تو خالی خالی سا ہے اس میں تو کئی نادیدہ خواہشیں جو پوری نہ ہوسکیں یا کی نہ جاسکیں، ابھرنے لگتی ہیں اور کئی پچھتاوے آس پاس منڈلانے لگ جاتے ہیں ۔
جوان اپنے جذبوں کی شدتوں میں مگن، بڑوں کی باتیں بھی شاید انہیں بوڑھی بوڑھی لگتی ہیں ۔پھر انسان کسی اپنے ہم عمر فرد کی تلاش میں نکلتا ہے تاکہ جی بھر کر باتیں سن اور سنا سکے اور ان گزرے دنوں کو تخیل کے آئینے میں پھر سے تلاش کرسکے جن کی تکمیل نے جوانی اور ادھیڑعمری میں آنکھ نہیں جھپکنے دی ہوتی۔
کسی شاعر نے شاید اسی وقت کی منظر کشی کی ہے ؎
حال پرسی نہیں کرتا کوئی
بےکسی ہے مرے غم خانے میں
اس طرح دل میں ہے آہوں کا دھواں
جیسے خاک اڑتی ہے ویرانے میں
منیر نیازیؔ نے بڑھاپے کا خوش دلی سے استقبال کرتے ہوئے
کہا تھا:
کتابِ عمر کا اک اور باب ختم ہؤ&ا
شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہؤا
بڑھاپے کو خوبصورت بنانے کا ایک نسخہ جو نوبیل انعام یافتہ ناول نگار ہرمین ہیسے کے مضمون ’’بلوغت کے ساتھ انسان نوجوان تَر ہوتا جاتا ہے‘‘ سے انتخاب ہے، اور اسے’’بڑھاپے کے باغ میں‘‘ کے نام سے مقبولؔ ملک نے جرمن زبان سے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے( اے آر وائی ویب ڈیسک ) اس تحریر سے بڑھاپے کو خوبصورت بنانے کی کئی عمدہ تجاویز سامنے آسکتی ہیں ۔
’’کوئی انتہائی بیمار اور قریبُ المرگ انسان ، جو اپنے بستر پر لیٹا اس دنیا سے خود کو دی جانے والی کوئی بھی آواز بہ مشکل ہی سن پاتا ہے،اس کی بھی اپنی ہی اہم اور ضروری ذمے داریاں ہوتی ہیں جو اسے پوری کرنا ہوتی ہیں۔
بوڑھا ہونا بھی اتنا ہی خوب صورت اور مقدس کام ہے، جتنا جوان ہونا۔ مرنا سیکھنا اور مرنا بھی اتنا ہی اہم عمل ہے، جتنا کوئی بھی دوسرا کام، بشرطیکہ اسے زندگی کی مجموعی تقدیس اور اس کی مقصدیت کے لیے احترام کے ساتھ مکمل کیا جائے۔
کوئی ایسا بوڑھا، جو بوڑھا ہونے، سفید بالوں اور موت کی قربت سے صرف نفرت کرتا ہو اور خوف کھاتا ہو، وہ اپنی زندگی کے اس مرحلے کا کوئی باوقار نمائندہ نہیں ہوتا، بالکل اس جوان اور توانا انسان کی طرح جو اپنے پیشے اور روزمرّہ کی پیشہ وارانہ زندگی سے نفرت کرتا ہو اور اس سے فرار کا خواہش مند ہو۔
مختصر یہ کہ ایک بزرگ انسان کے طور پر اپنے مقصد کو پورا کرنے اور اپنے فرائض کی منصفانہ انجام دہی کے لیے انسان کو بڑھاپے سے، اور جو کچھ بڑھاپا اپنے ساتھ لے کر آتا ہے، اس سے اتفاق کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنا چاہیے۔
اس ’’ہاں‘‘ کے بغیر، فطرت کے اس مطالبے کے سامنے سَر جھکائے بغیر جو وہ ہم سے کرتی ہے، چاہے ہم بوڑھے ہوں یا جوان، ہمارے دن اپنی قدر اور اہمیت کھونے لگتے ہیں اور ہم زندگی کو دھوکا دینے لگتے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ بڑھاپا اور ضعیفی اپنے ساتھ مسائل لے کر آتے ہیں اور ان کے اختتام پر موت کھڑی ہوتی ہے۔
انسان کو سال بہ سال قربانیاں دینا اور بہت سی باتیں ترک کرنا پڑتی ہیں، اپنی حسّیات اور توانائیوں پر بداعتمادی سیکھنا پڑتی ہے۔ وہ راستہ، جسے طے کرنا کچھ ہی عرصہ پہلے تھوڑی سی چہل قدمی جیسا ہوتا تھا، بہت طویل اور کٹھن ہو جاتا ہے اور پھر ایک روز ہم اس رستے پر چل ہی نہیں پاتے۔ وہ کھانے جو ہم زندگی بھر بڑے شوق سے کھاتے رہے ہوتے ہیں، ہمیں وہ بھی چھوڑ دینا پڑتے ہیں۔ جسمانی خوشی اور لذّت زیادہ سے زیادہ کم یاب ہو جاتی ہیں اور ہمیں ان کی زیادہ سے زیادہ قیمت چکانا پڑتی ہے۔
پھر تمام تر عارضوں اور بیماریوں، حواس کے کم زور پڑتے جانے، اعضا کے بتدریج مفلوج ہوتے جانے، کئی طرح کے درد اور تکلیفوں اور اکثر ان کے بہت طویل اور بے چینی سے عبارت راتوں میں تسلسل میں سے کسی کو بھی آسانی سے جھٹلا کر اس سے بچا تو نہیں جا سکتا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن خود کو یہ دیکھے بغیر ہی پوری طرح شکست و ریخت کے اس منفرد عمل کے حوالے کر دینا بھی محرومی کی مظہر اور ایک الم ناک بات ہو گی کہ بڑھاپے کی عمر کے بھی اپنے ہی اچھے اور مثبت پہلو ہوتے ہیں، اپنی ہی خوشیاں اور ڈھارس بندھائے رکھنے کے اپنے ہی ذرائع۔
جب دو بوڑھے انسان آپس میں ملتے ہیں، تو انہیں گلہڑ کی بدذات بیماری، اکڑے ہوئے پٹھوں والے اعضا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پھول جانے والے سانس کے بارے میں بالکل بات نہیں کرنا چاہیے، انہیں اپنے دکھوں اور ان موضوعات پر بھی کوئی گفتگو نہیں کرنا چاہیے جو انہیں خفا کر دیتے ہیں۔ ایسی باتوں کے برعکس انہیں آپس میں ایک دوسرے کے خوش کن اور آرام دہ تجربات اور مشاہدات پر تبادلہ خیال کرنا چاہیے۔ ایسے تجربات ہر انسان کو بہت سے ہوئے ہوتے ہیں۔جب میں بوڑھے لوگوں کی زندگی کے اس مثبت اور خوب صورت
رخ کے بارے میں سوچتا ہوں، اور اس بارے میں بھی کہ ہم سفید بالوں والے طاقت، صبر اور خوشی کے ان ذرائع سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جو نوجوانوں کی زندگی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔
میں یہاں ان بہت سی عنایات میں سے چند ایک کا شکریے کے ساتھ اور باقاعدہ نام لے کر ذکر کر سکتا ہوں، جو بڑھاپا تحفے کے طور پر ہم پر کرتا ہے۔ میرے لیے ان تحائف میں سے سب سے قیمتی عنایت تصاویر کا وہ خزانہ ہے جو کوئی انسان بہت طویل زندگی گزارنے کے بعد بھی اپنی یادوں میں لیے پھرتا ہے اور جسے جسمانی سرگرمیاں ختم ہونے کے بعد بھی ماضی کے مقابلے میں ایک بالکل مختلف انداز میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
ایسے انسانی وجود اور انسانی چہرے، جو مثلاً ساٹھ ستّر برسوں سے زمین پر موجود ہی نہیں، وہ ہمارے اندر زندہ رہتے ہیں، ہمارا حصہ ہوتے ہیں، ہم ان کی صحبت میں رہتے ہیں اور وہ ہمیں اپنی جیتی جاگتی آنکھوں سے دیکھتے بھی ہیں۔
مکانات، باغات اور شہر جو دریں اثناناپید ہو چکے یا قطعی طور پر بدل چکے ہوتے ہیں، ہم انہیں پہلے کی طرح ان کی اصلی حالت میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہ دور دراز پہاڑیاں اور سمندروں کے ساحل جو ہم نے عشروں پہلے سفر کے دوران دیکھے ہوتے ہیں، ہمیں تصاویر کی اپنی انہی کتابوں میں دوبارہ اسی طرح رنگین اور تر و تازہ نظر آتے ہیں۔
ان تصویروں کو دیکھنا، ان کا مشاہدہ اور ان پر غور و فکر کرنا ہماری عادت اور بار بار کی جانے والی مشق بن جاتے ہیں اور انہیں دیکھنے سےمتعلق طبیعت کا میلان اور زاویہ نگاہ غیر محسوس طریقے سے ہمارے مجموعی رویوں میں گھلنا ملنا شروع ہو جاتا ہے۔
ہم میں سے بہت سے انسانوں کا ان کی خواہشات، خواب، چاہتیں اور پسندیدہ شوق سال ہا سال تک پیچھا کرتے رہتے ہیں اور عشروں پر محیط اس دوڑ کے باعث ہم بےصبرے، تناؤ کا شکار اور طرح طرح کی امیدوں سے بھر جاتے ہیں، جس دوران کامیابیاں یا ناکامیاں ہم پر شدت سے اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ لیکن آج اپنی زندگی کی تصاویر سے بھری اس بہت بڑی کتاب کے بڑی احتیاط سے صفحے پلٹتے ہوئے ہم یہ سوچ کر حیران بھی ہوتے ہیں کہ یہ کتنی اچھی اور خوب صورت بات ہے کہ ہم ہر طرح کی دوڑ دھوپ اور مقابلے سے بچ کراپنی ہی زندگی کا اتنے پرسکون انداز میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
یہاں، بڑھاپے کے اس باغ میں کئی ایسے پھول بھی کھلتے ہیں جن کی نگہداشت کے بارے میں ماضی میں ہم نے شاید ہی کبھی سوچا تھا۔ ان میں سے ایک صبر کا پھول بھی ہے، حقیقی معنوں میں انتہائی قیمتی پودوں میں سے ایک۔ اسے دیکھتے ہوئے ہم زیادہ پرسکون اور معاملات پر زیادہ تدبر کرنے والے بن جاتے ہیں۔ پھر ہمارے اندر کسی معاملے میں مداخلت یا اس میں عملاً کچھ کرنے کی خواہش جتنی کم ہوتی ہے، اتنی ہی ہمارے اندر یہ اہلیت زیادہ ہو جاتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد فطرت اور انسانوں کی زندگی کو آرام سے بیٹھے مگر توجہ سے دیکھتے اور سنتے رہیں۔
اسی اہلیت کی وجہ سے ہم کوئی تنقید کیے بغیر اور ہر بار ایک نئی حیرانی کے ساتھ زندگی کو اس کے تمام تر تنوع سمیت اپنے قریب سے گزرنے دیتے ہیں۔ قریب سے گزرتی اس متنوع زندگی میں ہم کبھی کبھار شامل بھی ہو جاتے ہیں، کبھی خاموش تاسف کے ساتھ، کبھی مسکرا کے، کبھی کھل کر ہنستے ہوئے تو کبھی مزاحیہ انداز میں۔
جب بہت نوجوان لوگ اپنی توانائی کی برتری کے بَل پر اور اپنی لاعلمی کی وجہ سے ہماری پیٹھ پیچھے ہم پر ہنستے ہیں، ہماری مشکل سے چلی جانے والی چال، ہمارے سروں پر باقی رہ جانے والے چند سفید بالوں اور ہماری گردنوں پر ابھری ہوئی نسوں کو مضحکہ خیز سمجھتے ہیں، تو پھر ہم خود کو یاد دلاتے ہیں کہ کس طرح ہم بھی کبھی ایسی ہی جسمانی طاقت کے مالک اور اتنے ہی لاعلم تھے اور اسی طرح ہنستے تھے۔
یوں ہم خود کو ہارے ہوئے اور مفتوح نہیں سمجھتے بلکہ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم بڑے ہو کر زندگی کے اس مرحلے سے نکل آئے ہیں اور تھوڑے سے زیادہ دانش مند اور زیادہ صابر ہو چکے ہیں‘‘۔
طیبہ ضیاء نوائے وقت 17مئی2017 کے اپنے کالم ’’طاری ہؤا بڑھاپا رخصت ہوئی جوانی ‘‘میں لکھتی ہیں:
’’امریکی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ اگر آپ زیادہ دیر تک بیٹھے رہنے کی عادت میں مبتلا ہیں تو آپ اتنی ہی تیزی سے بڑھاپے کا شکار بھی ہوں گی۔ 1500 خواتین پر کیے گئے مطالعے سے معلوم ہؤا کہ جو خواتین زیادہ آرام پسند ہوتی ہیں وہ اندرونی طور پر اپنی اصل عمر کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بوڑھی ہوتی ہیں جبکہ خود کو کام کاج میں مصروف رکھنے اور ورزش کرتی رہنے والی عورتوں پر عمر رسیدگی کے اثرات نسبتاً کم مرتب ہوتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین میں ممکنہ طور پر تیزی سے عمر رسیدگی کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ایک خاص عمر کے بعد زیادہ حرکت کرنا چھوڑ دیتی ہیں اور آرام کو کام پر زیادہ ترجیح دینے لگتی ہیں۔ اس کی بجائے بہتر اور زیادہ جسمانی سرگرمی پر مشتمل معمولات اختیار کر کے وہ نہ صرف بڑھاپے سے بچ سکتی ہیں بلکہ درجنوں امراض سے بھی محفوظ رہ سکتی ہیں۔عمر کا ہر مرحلہ پر کشش ہوتا ہے۔بچپن میں بیٹی ، پھر باجی، مزید عمر بڑھی تو آنٹی اور پھر ماں جی …..لیکن لطف تب ہے کہ بیٹی سے ماں جی کہلانے تک سوچ تنومند اور جوان رہے۔ بڑھاپا جھریوں کا نام نہیں، بڑھاپا تھکی ہوئی شکست خوردہ سوچ کا نام ہے‘‘۔
تو آئیے آج ہی سے سوچوں کو خوبصورت بنائیں اور جوانی کی طرح سے بڑھاپا بھی مایوسی کے بجائے پرعزم ہوکر گزاریں، اور جیسے جوانی کے معرکوں کی پہلے سے تیاری کرنے کی عادت تھی ایسے ہی اس عرصے کے لیے بھی مضبوط منصوبہ بندی کریں۔خوش رہیں اور جوانوں کو خوش رہنے دیں۔
نوٹ: یہ کچھ نوجوان کیوں میری طرف گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کہ خود تو اس وادی کے داخلی دروازے پر کھڑی ہیں ہمیں کیوں ابھی اداس کرنا چاہ رہی ہیں ۔تو سن لو بچے وقت گزرتے پتا ہی نہیں چلتا۔ہم بھی ایسا ہی سمجھتے تھے۔ادا ؔجعفری نے کیا خوب کہا ہے۔
بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں
سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا
٭ ٭ ٭