کہانی
رخسانہ شکیل کراچی
ہم سب بچپن میں اپنے بڑوں سے خوب کہانیاں سنا کر تے تھے۔نانی دادیوں کی تربیت کا ایک انوکھا اور مزےدار طریقہ کہانی سنانا ہوا کرتا تھا۔
نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی اس میں شریک ہوا کرتے تھے۔بہت سی ایسی باتیں جن کو سمجھانےمیں بڑوں کو مشکل پیش آتی کہانی کے ذریعے آسانی سے بچوں کو سمجھا دی جاتی تھیں ۔
جیسے جیسے زمانہ ترقی کی جانب رواں دواں ہوااور بہت سی نئ چیزیں ہماری زندگی میں داخل ہوئیںتو بہت سی پرانی روایات کو ہماری زندگی سے بے دخل کرتا گیا۔ ان میں سے ایک کہانی بھی ہے ۔اب نہ تو نانی دادی کی وہ قربت بچوں کو میسر ہےاور جہاں خاندان قریب بھی ہیں وہاں بڑے اور بچے دونوں ہی وقت کی کمی کا شکار ہیں۔
جب میں قرآن پڑھتی ہوں اور اس میں نبیوں کی زندگی کے بارے میں جس آسان اور پراثر انداز میں اللہ اپنے نبیوں کے حالا ت و واقعات بیان کرتا ہےاس پر بھی یہی گمان ہوتا ہے کہ میرا پیارا رب میری آسانی کے لیے مجھے کہانی کی طرح بتا رہا ہےتاکہ مشکل بات میرے بندے کو آسانی سے سمجھ آجائے۔
تو میرا ذاتی خیال ہے شاید آپ بھی متفق ہوں کہ ہمیں بچوں کو کہانی سنانا پھر سے شروع کر نا چاہئے ۔اس سے وہ نہ صرف کہانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ تربیت بھی ہوتی ہے۔ لہٰذاکہانی سنائے کہانی لکھیے کہانی کار بنیے ۔ اس سے اچھے اور بامقصد ادب کو فروغ بھی ملے گا،بچوں کی تربیت بھی ہوگی، مل بیٹھنے کے کچھ مواقع بھی میسر آئیں گے ۔ تو پھر کیا خیال ہے؟ شروع ہو جائیں۔