انسانیت کا صحیح اندازہ امتحان پڑنے پراور ایسے مواقع پر ہوتا ہے جب ہر قسم کے ذرائع اور مواقع حاصل ہوں کہ چوری ، گناہ ، حق تلفی کی جا سکے مگر انسان کے اندر کی کیفیات اس کا ہاتھ پکڑ لیں ۔انسانیت در حقیقت ایک بڑا مرتبہ ہے ، لیکن انسانیت کے خلاف انسان ہمیشہ خود بغاوت کرتا ہے۔ کبھی نیچے سے کترا کر نکل گیا، کبھی اپنے آپ کو انسانیت سے بر تر سمجھا۔
دنیا میں لوگوں نے جب خدائی کادعویٰ کیا یا، لوگوں نے ان کو یہ درجہ دیا تو دنیا میں بگاڑ ہی بگاڑ بڑھتا گیا ، جب ایک معمولی سی گھڑی کسی اناڑی کے ہاتھ پڑ جاتی ہے اور وہ اس کی مشین میں دخل دیتا ہے تو وہ بگڑ جاتی ہے ، تو یہ نظام عالم ان مصنوعی خدائوں سے کیسے چل سکتا ہے ؟ اس دنیا کے اتنے مسائل، اتنے مراحل اور اس میں اتنی پیچیدگیا ں ہیں کہ اگر ایک انسان اس دنیا کو چلانا چاہے تو یقینا اس کا انجام بگاڑ ہوگا ۔لوگوں نے فطرت سے زور آزمائی کی ہے اور فطرت سے لڑ کر انسان نے ہمیشہ شکست ہی کھائی ہے۔
دوسری طرف اکثر ایسے انسان گزرے ہیں ،جنھوں نے اپنے آپ کو چوپایہ جانا، ان کو بحیثیت انسان اپنی ترقی کا کوئی احساس نہیں ہوا، اپنی انسانیت ، اپنی روحانیت اور خدا شناسی کو ترقی دینے کا ان کو خیال تک نہیں ہوا ، دنیا میں زیادہ تعدادانہی انسانوں کی رہی ہے۔
کتنے انسان ہیں جن کو انسانیت کا احساس ہے ؟ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صرف ایک معدہ اور پیٹ ہی نہیں دیا گیا ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو روح بھی دی ہے ، دل بھی دیا ہے ، اور دماغ بھی عطا کیا ہے۔
خواہشات اور مادی ضروریات کے ریلے میں ایسے بہے چلے جا رہے ہیں ، جیسے ایک گاڑی اپنے اختیار سے باہر لڑھک رہی ہو ، جس پر کسی کا کوئی قابو نہ ہو۔
جغرافیہ کی نئی تحقیقات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین گول ہے ، لیکن مجھے جغرافیہ کے استاد اور طالب علم معاف کریں ، میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ زمین ڈھلوان کی طرح ہے ، اس لیے کہ ساری قومیں اور ان کے تمام افراد اخلاقی بلندی سے حیوانی بستی کی طرف لڑھکتے چلے آ رہے ہیں اور روز بروز ان کی رفتار تیز ہوتی جا رہی ہے۔
ہماری زمین کا کرہ ضرور آفتاب کے گرد گردش کر رہا ہے ، مگر اس کرہ ارض پر بسنے والا انسان مادیت اور معدہ کے گرد چکر لگا رہا ہے۔ زمین کی گردش کا انسانوں کے اخلاق اور معاملات پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، لیکن انسانوںکی اس گردش کا تمام دنیا کے اخلاق اور حالات پر اثر پڑرہا ہے۔
آج دنیا میں سب سے وسیع رقبہ معدہ کا ہے ، یوں کہنے کو تو وہ انسان کے جسم کا مختصر حصہ ہے لیکن اس کا طول و عرض اور عمق اتنا بڑھ گیا ہے کہ ساری دنیا اس میں سماتی چلی جا رہی ہے ، یہ معدہ اتنی بڑی خندق ہے کہ پہاڑوں سے بھی نہیں بھرتا۔
آج سب سے بڑا مذہب ، سب سے بڑا فلسفہ معدہ کی عبادت ہے ۔تعلیم گاہوں میں اس کا غلام بنانا سکھایا جا رہا ہے ۔آج ’’ کامیاب انسان‘‘ بننے کا فن سکھایا جاتا ہے ، دوسرے الفاظ میں دولت مند بننے کا آج دولت مند بننے کی ریس ہے ، دولت مند بننے کی حرص اتنی بڑھ گئی ہے کہ انسان کو خود اپنے تن من کا ہوش نہیں رہا ۔مطالعہ علم اور فنون لطیفہ کا مقصد بھی یہی ہو گیا ہے کہ انسان کہاں سے زیادہ سے زیادہ روپیہ حاصل کر سکتا ہے ؟ سب سے بڑا علم اور ہنر یہ ہے کہ لوگوں کی جیبوں سے کس طرح روپیہ نکال کر اپنی جیب بھری جائے ؟ اتنا ہی نہیں بلکہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت مند بننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دولت مند بننے کی کوشش تمدن اور سوسائٹی کے لیے اتنی مضر نہیں جتنی جلد دولت مند بننے کی ہوس ہے۔ رشوت ، خیانت ، غبن ، چور بازاری ، ذخیرہ اندوزی اور حصول دولت کے دوسرے مجرمانہ طریقوں کے بغیر جلد دولت مند بننا ممکن نہیں۔
آج انسان جونک بن گئے ہیں اور انسانوں کا خون چوسنا چاہتے ہیں ۔آج کوئی شخص کسی کے کام نہیں آتا ۔ہر چیز اپنی مزدوری اور فیس مانگتی ہے۔ کبھی کبھی تو خیال ہونے لگتا ہے کہ اگر درخت کے سایہ میں دم لیں گے تو شاید درخت بھی اپنی فیس اور مزدوری مانگنے لگیں گے۔
جس انسان کو خدا کا پر ستار ہونا چاہیے تھا ، وہ دولت کا پرستار اور نفس کا غلام بنا ہوا ہے ، اور اس کو اس خلاف فطرت غلامی کا احساس بھی نہیں۔
آج دنیا میں اگر کسی کو انسانیت کے لیے انحطاط کا احساس بھی ہے تو اس میں یہ جرأت نہیں ہے کہ انسان کے لیے آوا ز اٹھائے ۔در اصل پیغمبروں ہی کی جرأت تھی خواہ وہ ابراہیم ؑ ہوں یا موسیٰؑ ہوں یا محمد ؐؐ(اللہ کا درود سلام ہو ان پر ) کہ انہوں نے ساری دنیا کو چیلنج کر کے انسانیت کے خلاف جو بغاوت جاری تھی اس سے روکا ، ان کے سامنے دنیا کی لذتیں اور دولتیں لائی گئیں ، مگر انہوں نے سب کو ٹھکرا دیا اور انسانیت کے درد میں اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا۔ہمارے سامنے سب سے زیادہ ممتاز اور سب سے زیادہ واضح اور روشن ، سب سے زیادہ بلند مرتبہ حضرت محمد ؐ کی ذات گرامی ہے۔آپؐ کی تعلیم اور آپؐنے جو کچھ دنیا کو عطا کیا وہ انسانیت کا مشترک سرمایہ ہے۔ آنحضرتؐ کی تعلیمات پر ساری دنیا کا حق ہے او رہر شخص کا اس میں حصہ ہے جو ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے ۔
دوستو!محمدؐ محسن انسانیت تھے اور ساری انسانیت آپؐ کی ممنون ہے۔ دنیا کی نجات پیغمبروں ہی کے راستہ میں ہے اور دنیا کے لیے اس وقت خدا کے یقین ، اس کے خوف ، دوسری زندگی پر ایمان اور پیغمبروں کی رسالت کے اقرار کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
٭…٭…٭