کہتے ہیں کہ مرد سے اس کی تنخواہ اور عورت سے اس کی عمر نہ پوچھیں کیونکہ اس کا درست جواب دینا دونوں کو پسند نہیں لیکن موجودہ ترقی یافتہ دور میں اس قول میں بھی ترقی اور تبدیلی ہو چکی ہے۔ اب مرد حضرات بھی اصل تنخواہ تو بتا سکتے ہیں لیکن اپنی عمر نہیں۔ کاسمیٹک کا استعمال اور اپنے آپ کو سلم فٹ رکھنے میں اب وہ خواتین سے کم نہیں۔ جگہ جگہ ان کے بیوٹی سیلون وجود میں آچکے ہیں۔ داڑھی منڈوا کر، فیشلز کروا کروا کر چھیلے ہوئے نئے آلوؤں جیسے گلابی چہرے بنا لیتے ہیں۔ بلکہ اب تو حضرات کا بشمول لپ سٹک پورا میک اپ نکل آیا ہے جس کا وہ جوان اور حسین نظرآنے کے لیے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ بھلا ہو کالے کولے کا جو بالوں کی چاندی چھپا کر جوانی پر بھی چار چاند لگا دیتا ہے اور کنڈیشنر سے کالی چمک پیدا کر لیتے ہیں۔ جب ان قیمتی لوازمات کو استعمال کرنے کے بعد 60 سال کے یہ حضرات اپنے تصور میں لڑکے بن جاتے ہیں تو اس وقت اگر کوئی فرد خاص کر کوئی خاتون بھولے سے انہیں انکل، چاچا یا ماموں کہہ بیٹھے تو یہ انہیں ایسی خونخوار نظروں سے دیکھتے ہیں جیسے اس خاتون نے ان کی آدھی جائیداد اپنے نام کروا لی ہو۔ وہ دل ہی دل میں خاتون کو جاھل، بیوقوف، بدھو اور بد تہذیب سمجھتے ہیں ۔وہ ان کی اگلی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے چاہے انہیں ان کی جیب سے گرے ہوئے پیسوں کے بارے میں ہی بتانا ہو بلکہ یہ کئی ماہی منڈے (نئے نئے جوان لڑکے) تو اپنے سے عمر میں دس بارہ سال چھوٹی بیوی کو آتے جاتے بیماریوں کے طعنے اور بوڑھے پن کا شدت سے احساس بھی دلاتے ہیں۔ خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی یہ قابل قدر اور معزز حضرات تو ہمارا موضوع سخن ہی نہیں ویسے بھی اپنے آپ کو سدا جوان سمجھنے اور عمر چھپانے میں خواتین کو ہی استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو پھر کیوں نہ اس معاملے میں زمانے کے ساتھ ساتھ ہم بھی موضوع گفتگو خواتین کو ہی بنائیں۔
ہماری ایک دور پار کی بلکہ سمندر پار کی رشتہ دار خاتون جو کہ عمری لحاظ سے پچاس کی دہائی کے آخر میں تھی لیکن اپنے حسن کی تعریف و تحسین سننے کی بے حد شوقین۔ جب کبھی دو چار خواتین کے درمیان بیٹھتی تو دوسروں کی زبان سے نکلے اپنی تعریف کے وہ قصیدے ضرور سناتی جو اس نے ان سے تقریباً زبردستی ہی کہلوائے ہوتے تھے اور کہتی کہ’’فلاں نے کہا تھا تم تو بیس سال سے زیادہ کی لگتی ہی نہیں ہو۔ ویسے بھی میری زیادہ عمر نہیں ہے۔میرے ساتھ پڑھنے والیوں میں کئی کی تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی‘‘۔ اس کی تعریفی کہانی سننے کے بعد اگر حاضرین میں سے کوئی خاتون ان کا دل خوش کرنے اور اپنی جان چھڑانے کے لیے اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتی تو یہ’’ہاں‘‘ بھی تعریفی ریکارڈ میں ایسے محفوظ کر لی جاتی جیسے کسی نکاح کی’’ہاں‘‘محفوظ کی جاتی ہے۔ ایک بار یہ لڑکی اچانک بیمار پڑ گئی۔ گردے میں پتھری کی وجہ سے شدید درد اٹھا جس کی تکلیف نے آدھ موا کردیا۔ چہرے کی رنگت پیلی پڑ گئی۔ گھر والے فوراً ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے گئے۔ ایک ڈاکٹر مریضہ کے بیڈ کے قریب ہی اس کے شوہر سے ہسٹری نوٹ کرنے لگا۔ جب اس کی عمر کا شوہر نے اپنی یاداشت کے بل بوتے پر پینتالیس سال بتا دیا تو نیم بیہوش مریضہ بند آنکھوں کے ساتھ ہی کراری آواز میں بولی ’’گڈو کے ابا! میں تجھے 45 سال کی لگتی ہوں؟ میری عمر دھیان سے لکھوا‘‘۔
گڈو کا ابا بیچارہ وہیں سہم گیا اور گھٹی ہوئی آواز میں بولا۔’’ ڈاکٹر صاحب میری بیگم کی عمر 25 سال لکھ دیں‘‘۔ بلکہ مشہور ہے کہ خر دماغ عورتوں سے بھی کوئی کام نکلوانا ہو تو انہیں بس اتنا کہہ دیں کہ آپ تو ابھی کالج کی لڑکی لگتی ہیں۔ پھر دیکھنا یہ کالج کی لڑکی جن بن کر منٹوں میں کام مکمل کرتی ہے۔ یہی نادر نسخہ حاجی رفیق صاحب اکثر اپناتے ہیں۔ کیونکہ وہ ناصرف خود کھانے کے شوقین ہیں بلکہ اس سے زیادہ یار بیلیوں کو اپنے گھر میں بلا کر کھلانے کا شوق رکھتے ہیں لیکن دوسری طرف اس سے متضاد بیگم صاحبہ ایسی گرم مزاج کہ جسے دیکھ کر سورج کی تپش بھی شرما جائے۔ کچھ دوستوں کی فرمائش اور کچھ اپنا بھی دل تھا دعوت کرنے کو۔ بڑی بے چارگی والی مسکینی سی صورت بنا کر بیگم کو پہلے اپنی وفا کا یقین دلایا جیسے نکاح ہی ابھی ابھی پڑھا گیا ہو پھر 55سالہ بیگم کے حسن و جوانی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’’میں اب کہاں سجتا ہوں تمہارے ساتھ۔ میں بوڑھا بابا لگتا ہوں اور آپ ابھی لڑکی‘‘۔ بیگم کا چہرہ گلاب کی مانند کھل اٹھا۔ رفیق صاحب نے بھی لوہا گرم دیکھ کر اپنا اصلی مدعا بیان کر دیا۔
’’بیگم! میرے دوست تمہارے ہاتھ کے بنے کھانوں کے بڑے ہی معترف ہیں۔ وہ ناشتے کی فرمائش کر رہے ہیں‘‘۔ پھر کیا اگلی ہی صبح ان کے گھر کا ڈرائنگ روم دوستوں سے بھرا اور کھانے کی میز پر نہاری، حلیم، پائے ، چنے کے علاوہ سوجی اور گاجر کا حلوہ بھی موجود تھا۔ صرف شوہر ہی نہیں بچے بھی ماؤں کی یہ کمزوری جانتے ہیں۔ گھر میں ماں کی طرف داری حاصل کرنے کے لیے اس حربے سے ضرور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ملنے جلنے والے اور گھر کی ملازمائیں بھی یہ گر استعمال کرکے اپنا اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ اپنی صحت کا خیال رکھنا ،اپنی عمر سے کم نظر آنا اور تعریف و تحسین کروانا اچھی بات ہے لیکن یہ تو سب عارضی ہے جنت میں بھی تو اہل جنت خوبصورت، نوعمر و نوجوان ہوں گے اور یہ حسن و جوانی ہمیشہ رہنے والی ہوگی۔خوش آمدید، تعریف وتوصیف کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مقرب فرشتے اور اہل جنت ہوں گے۔ تو پھر کیوں نہ عارضی کو چھوڑ کر دائمی کے لیے آج سے ہی کمر کس لیں۔
٭ ٭ ٭