مہوش خولہ راؤ

جوڑی فٹ ہے – بتول فروری ۲۰۲۳

’’اچھا اب میں چلتا ہوں‘‘۔ گروسری کا سامان سلیب پر رکھ کر اسلم نے عائشہ سے اجازت چاہی۔ ’’کھانا کھا کر چلے جاتے ‘‘عائشہ پیچھے آتے ہوئے بولی ۔ یہ دعوت زبانی تھی اس کے روکنے میں اصرار نہیں تھا اور نہ ہی اسلم کو کسی صورت رکنا تھا ۔اسلم گیٹ تک پہنچ کر مڑا ،خاص عائشہ کے سندھی اسٹائل میں اس کے سر پر ہاتھ دھرا اور اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا ۔ ’’کچھ اصول جو ہمارے درمیان طے ہوئے تھے پکے یاد ہیں نا؟‘‘ ’’ جی یاد ہیں۔ جس دن آپ کو کھانے پر روکا تھا وہ دن اصولوں کو بھولنے بھی نہیں دے گا۔ توبہ! آپ کو کھانے پر نپٹانا شہر بھر کو نپٹانے کے برابر ہے، شہلا باجی کی ہمت ہے‘‘۔ اسلم نے چھوٹا سا قہقہ لگایا اوربچوں کو پیار دے کر دہلیز پار کر گیا۔ ٭٭٭ شہلا ایک وسیع طول و عرض کی

مزید پڑھیں

مکدّر دل – بتول مارچ ۲۰۲۲

صالحہ کے میاں راشد صاحب نے ان کی خواہش پر اتوار کے دن سینڈزپٹ پر ہٹ بک کروایا۔آج کل صالحہ بیگم کے روز و شب میں قنوطیت یاسیت طاری تھی۔بلکہ بیٹی کرن کی شادی کے بعد یہی حالات تھے۔ایسے میں میاں راشد صاحب ان کا ڈپریشن ختم کرنے کے لیے یہی ترکیب کیا کرتے کہ ان کی پسندیدہ تفریح کا اہتمام کرتے۔سمندر کنارے بیٹھ کر ڈوبتے منظر کا نظارہ کرنا انھیں بہت پسند تھا۔عمر کے اس حصے میں تھے کہ ایک دوسرے کی پسند کا احترام تھا یا دونوں کی پسند ہی ایک ہو گئ تھی۔میاں راشد بھی بیگم کے ساتھ اس منظر سے لطف اندوز ہوتے۔ سورج آگ برسا برسا کر اب ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اس لیے ہوا کے جھونکے بڑے دلفریب لگ رہے تھے۔ سورج سرخ تانبا سا ہوگیا تھا۔لال گول سی ٹکیہ سی نکلنے والی شعاعیں پانی میں منعکس ہو کر پانی کی سطح پر مختلف شوخ

مزید پڑھیں

مہربان مدد گار کی تلاش- بتول جون ۲۰۲۳

عربی ادب کا قصہ ہے کہ ایک غلام ایک ایسے مالک کے پاس تھا جو خود میدے کی روٹی کھاتا تھا،اور اس کو بے چھنا آٹا کھلاتا تھا۔تو یہ چیز اسے ناپسند لگی ،اس لیے اس نے بیچنے کی درخواست کی تو آقا نے اسے بیچ دیا۔ اس کو ایسے شخص نے خریدا جو بھوسی کھاتا تھا اور اسے کچھ بھی نہیں کھلاتاتھا۔غلام نے اس کو بھی بیچنے کی درخواست کی چنانچہ اس شخص نے بھی اس کو بیچ دیا۔ اب کے اس کو ایسے شخص نے خریداجو خود کچھ نہیں کھاتا تھا،اور اس کا سر مونڈ کر رات میں اسے بٹھاتا اور دیوَٹ( شمع دان) کی جگہ اس کے سر پر چراغ رکھتا۔ وہ اس کے پاس ٹھہر گیااور بیچنے کا مطالبہ نہیں کیا۔ غلام فروش نے کہا، تو کس وجہ سے اس مالک کے پاس اتنی مدت اس حال میں راضی رہا؟ غلام کہنے لگا،مجھے اندیشہ ہؤا کہ

مزید پڑھیں