فرحت طاہر

کرونا میں گزری عید! – بتول اگست ۲۰۲۱

اسکول اور تعلیمی ادارے اچانک بند ہونے کی خوشی سے سیراب بھی نہ ہوپائے تھے کہ ٹونٹی ٹونٹی منسوخ ہونے کی اطلاع جبران اور شارق پر بجلی بن کر گری…… ایسی چھٹیوں کا فائدہ بھی کیا؟
جی ہا ں یہ فروری 2020 ء کی بات ہے جب کرونا کی وبا نے پاکستان کارخ کرلیا۔ چنانچہ فوری اقدام کے تحت تعلیمی ادارے اچانک بند کردیے گئے۔ بچے ان ناگہانی چھٹیوں کا مصرف کیا کرتے جب بقیہ ساری سرگرمیوں پر بھی پابندی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ سختی بڑھتی گئی اور بچے بھی بیزار ہوتے گئے۔
یہ وہ دن تھےجب ان کے والدین عمرے سے واپس آچکے تھے اور عظمیٰ آپا کی واپسی کی تاریخ قریب آگئی جو ان کے والدین کی غیر حاضری میں دیکھ بھال کے لیے نوشہرہ سے یہاں آئی ہوئی تھیں۔ اس سے پہلے ایک شاندار خاندانی دعوت رکھنی تھی۔ اس کے لیے23مارچ کی تاریخ مناسب سمجھی گئی تھی کہ اس تاریخی دن کے حوالے سےلڑکوں کی تیار کردہ ویڈیوبھی لانچ کرنی تھی۔ مگر ٹھیک اس دن سے لاک ڈاؤن نافذ کردیا گیا۔
یہ اصطلاح بچوں کے لیے دلچسپ تھی تو بڑوں کے لیے حیران کن! انہوں نے کرفیو کو کسی زمانے میں برتا بھی تھا مگر یہ لاک ڈاؤن بھلا…

مزید پڑھیں

عورت بے چاری…ایک پہلو یہ بھی ہے! – بتول مئی ۲۰۲۱

’’کل رات کچھ سرسری مطالعہ کےدوران آئن اسٹائن کی بیوی کے بارے میں جان کر میں چکرا کر رہ گیا ۔ کچھ لوگوں کے مطابق وہ قابلیت میں آئن اسٹائن سے زیادہ نہیں تو کم ازکم ہم پلہ ضرور تھی۔لیکن ایسا کیوں ہؤا کہ وہ نمایاں نہ ہوسکی ؟‘‘
معزز قارئین ! یہ الفاظ ڈاکٹر شیمازیم کے ہیں جوانہوں نےدو سال پہلے اپنی ٹوئٹ میں کہے تھے ۔مجھ تک بذریعہ محترمہ صائمہ اسما پہنچے جس کے لیے میں ان کی شکر گزار ہوں ۔ڈاکٹر نے ٹوئٹر میں اپنے تعارف میں بہت سے حوالوں کے ساتھ ایک تعارف بطور باپ کروایا ہے جو ان کے خواتین اور خاندان سے متعلق احساسات کا مظہر ہے ۔
اپنی ٹوئٹ میں وہ استفسار کرتے ہیں کہ ہم سب مادام کیوری کو جانتے اور یاد رکھتے ہیں ۔ کیوں ؟
اس لیے کہ وہ نوبل انعام حاصل کرنے والی پہلی خاتون تھیں ۔ وہ پہلی شخصیت اور واحد خاتون ہیں جنہوں نے دو مرتبہ یہ اعزاز جیتا اور یہ اعزاز بھی صرف ان کے پاس ہے کہ انہوں نے سائنس کے دو مضامین طبیعات اور کیمیا میں نوبل پرائز جیتا ۔
اس کے بعداپنی بات وہ یوں آگے بڑھاتے ہیں کہ:
’’ اب آئیں میلاوا میرک آئن اسٹائن کی طرف…

مزید پڑھیں

عورت بے چاری! -بتول اپریل ۲۰۲۱

’’کچھ عرصہ پہلے جب میں بے انتہا مصروفیت کے گرداب میں پھنسی کچھ لکھنے کے لیے سخت محنت کر رہی تھی ،میری ایک کولیگ نے مجھے تجویز دی کہ میں بڑے بڑے نامور تخلیق کاروں کے روز مرہ کے شیڈول کے بارے میں پڑھوں تاکہ اس کے مطابق اپنے اوقات کو ترتیب دے سکوں۔لیکن اس مشورے پر عمل کے بعدخلاف توقع میں بہت ناامید ہوئی کیونکہ ان تمام مشہور اور نابغہ روزگار شخصیات کے،جن میں اکثریت مرد حضرات تھے ،روزو شب ان کی نصف بہتر خواتین کے مرہون منت تھے ‘‘۔
معزز قارئین !یہ اس بلاگ کا ابتدائی حصہ ہے جو ڈیڑھ سال پہلے دی گارجین میں شائع ہؤا تھا جسے بریگیٹ شاولٹ نامی ایوارڈ یافتہ فیمنسٹ صحافی نے تحریر کیا تھا ۔ وہ آگے لکھتی ہیں :
’’ان کی بیویاں ان کو مداخلت سے محفوظ رکھتی ہیں ۔خادمائیں ناشتہ کھانا میز پر پہنچادیتی ہیں ,وقت بے وقت ان کو چائے کافی مہیا کرتی ہیں ۔ان کو بچے کے بال کٹوانے جیسے معمولی معمولی کاموں سے دور رکھتی ہیں ۔سگمنڈ فرائیڈ کی بیوی مارتھا اس کے کپڑوں کا ہی خیال نہیں رکھتی بلکہ اس کے ٹوتھ برش پر پیسٹ تک لگاتی تھی ۔مارسل پروسٹ کی خادمہ نہ صرف اس کو کھانے پینے…

مزید پڑھیں