عامر جمال

میری اماں جان اور اللہ والے بابا جی – بتول جولائی ۲۰۲۱

میری نانی جن کو ہم اماں جان کہتے تھے ایک خاموش طبع ، انتہائی صابر، ہر وقت ذکر اذکار میں مصروف اللہ والی خاتون تھیں۔ کوئی جو بھی کہے وہ بس خاموشی سے مسکرا دیتیں۔سنا تھا کہ جب ساس اور نند یں اماں جان پر غصہ ہوتیں تو وہ خاموشی سے ایک طرف ہو کر ذکر شروع کر لیتیں۔
اماں جان صاحبزادہ عبدالقیوم خان ( بانی اسلامیہ کالج پشاور) کی بھتیجی تھیں۔
پہلا نواسا ہونے کی وجہ سے میں ان کی توجہ اور محبتوں کا مرکز رہا اور اکثر وہ مجھ سے اپنی زندگی کی کہانیاں شئیر کرتیں۔ ہم دونوں ایک اچھے رازدار اور غم خوار دوست بن گئے تھے۔مجھے ویسے بھی بزرگوں سے بڑا لگاؤ رہا ہے۔ کتابوں سے زیادہ بزرگوں کو پڑھنے کا شوق رہا۔ وہ مجھے علم و تدبر سے بھری معصوم گڑیاں سی لگتیں۔ اب یہاں بھی مختلف کلچر اور مذاہب کے بزرگوں سے یاری بنائی ہوئی ہے۔
اماں جان( نانی صاحبہ) نو سال کی تھیں جب ان کےوالد صاحب فوت ہوگئے پھر ان کی اور ان کے دو بھائیوں کی پرورش صاحبزادہ صاحب نے کی۔ وہ ان تینوں بچوں سے بہت پیار کرتے اور نانی کے بقول بازار والوں کو حکم تھا کہ یہ جولینا چاہیں ان کو…

مزید پڑھیں

ادھوری سی عید – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

طالبان کی فتح نے ان وقتوں کی یاد کو تازہ کردیا ہے جب روس حملہ آ ور تھا اور شوقِ شہادت ہمارے جوانوں کو چین نہ لینے دیتا تھا۔شہیدِ کنّڑ، فرحت اللہ بھائی کا مشک بوتذکرہ
 
فرحت اللہ بھائی مانسہرہ سے آگے تور غر کے قریب پہاڑوں کے درمیان ایک خوبصورت وادی بیلیاں کے رہنے والے تھے۔ ان کے گاؤں جانے کے لیے پہلے ہم مانسہرہ پہنچتے، وہاں سے ویگن میں آگے جاتے، پھر سوز وکی میں جا کر ایک موڑ پر اتر جاتےاور چند کلومیٹر پیدل سرسبز وادیوں ، چاول کے کھیتوں سے ہوتے ہوئے اپنے فرحت اللہ بھائی اور ان کی ماں کی محبتوں کے پاس پہنچ جاتے۔ رات گزار کر صبح ماں جی کے ہاتھ کے گرم گرم پراٹھے کھانے کے بعد فرحت اللہ بھائی کو اپنے ساتھ پشاور لے آتے۔
ماں جی کا ذکر کرتے ہی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ کیوں …..آگے شاید معلوم ہو جائے!
فرحت اللہ بھائی بہت شرمیلے سے تھے۔ خاموش طبع ، بہادر اور ملنسار۔ایک بار پشاور کے چوک یادگار دفتر میں کسی ساتھی نے شامت سے ان کےنئے جوتوں کی تعریف کردی۔اس جوان نے فوری اپنے جوتے اتار دیے اور ساتھی کو کہا کہ اب یہ آپ کے۔وہ ساتھی پریشان کہ یار مجھے اچھے…

مزید پڑھیں

دادی جان،فرنگی اورمسلمان بادشاہ کا پاکستان – بتول اگست ۲۰۲۱

گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم اکثر اپنی دادی کے پاس گاؤں جایا کرتے۔ ہمارا گاؤں خیبر پختونخوا کے ایک دوردراز پسماندہ علاقے میں ایک خوبصورت دریا کے کنارے آباد تھا اس لیے گرمی بھی پشاور کی نسبت کم ہوتی۔
اس زمانے میں کچھ سیاستدان کہتے کہ واپڈا والے تربیلا ڈیم میں ہمارے پانی سے ساری بجلی نکال کر خالی خولی پانی ہمارے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ تو وہ ’’خالی خولی ‘‘پانی سب سے پہلے ہمارے گاؤں سے گزر کر باقی پاکستان کو سیراب کرتا تھا۔
دریا کے اس طرف ریت کے پہاڑ اور گھنے جنگل تھے جن کو’’بیلے‘‘کہتے تھے۔ گاؤں میں جن کے گھر شادی ہوتی وہ بیلے جا کر بہت ساری لکڑی لے آتے۔
ہم اپنے کزنز کے ساتھ کھیتوں سے ہو کر دریا تک جاتے۔وہاں خوب تیرتے کھیلتے اور جب بھوک لگ جاتی تو اپنی پھوپھی زاد بہنوں سے جو دریا کے ایک طرف کپڑے دھو رہی ہوتیں، پیاز اور رات کی بچی ہوئی تندور کی روٹی لیتے اورکھا کر پھر کھیلنے لگ جاتے۔ میں نے دنیا بھر کے ریستورانوں میں کھایا لیکن اس وقت اس پیاز اور باسی روٹی کا جو مزہ ہوتااس کا کوئی مقابلہ نہیں۔
کچھ بچے دریا پار کرکے ریت کے پہاڑوں سے ہو کر ’’بیلے‘‘ چلے جاتے…

مزید پڑھیں