ناچتے فوارے – نوردسمبر ۲۰۲۰
’’ ہائے ! ابھی اور کتنا چلنا ہے ؟‘‘ آپا نے فریاد کی۔
’’ میرا خیال ہے دو کلو میٹر اور ۔‘‘‘ بھائی نے کہا۔
’’ دو کلو میٹر ؟ میں تواب ایک ملی میٹر بھی نہیں چل سکتی ۔‘‘ آپا رونکھی ہو گئی ۔ میں نے حیرت سے آپا کی طرف دیکھا۔
’’ آپ چل کہاں رہی ہو ؟ متحرک راستے پر کھڑی ہو جوخودبہ خود آپ کو منزل کی طرف لیے جا رہا ہے ۔‘‘
’’ہاں ، توکھڑی توہوئی ہوں نا ’’ مسلسل‘‘ ۔ آپا نے ’’ مسلسل‘‘ پر زور دیا ۔‘‘ اور کبھی کبھی چلنا بھی تو پڑتا ہے ۔‘‘
’’پھر یہ بھی ہے کہ جب ہم میٹرو کے ’’ دبئی مال‘‘ اسٹیشن پر اترے تھے تو یہی خیال تھا کہ بس اب سیدھے مال ہی میںجا گھسیں گے۔ مگر اب تک ہم چلے جا رہے ہیں اورمال کا نام و نشان تک نہیں ۔‘‘ بھائی نے منہ بنا کر کہا۔
بات ٹھیک تھی ۔ ہم کم از کم دس پندرہ منٹ سے اس سرنگ نما راستے پرچل رہے تھے ۔کبھی بجلی سے چلنے والی بیلٹ پر کھڑے ہو جاتے اور کبھی بور ہوکر اس سے اتر جاتے اور زمین پر چلنے لگتے ۔ شیشے کی دیواروں سے باہر کی دنیا نظر آ…