ریّان سہیل

ناچتے فوارے – نوردسمبر ۲۰۲۰

’’ ہائے ! ابھی اور کتنا چلنا ہے ؟‘‘ آپا نے فریاد کی۔
’’ میرا خیال ہے دو کلو میٹر اور ۔‘‘‘ بھائی نے کہا۔
’’ دو کلو میٹر ؟ میں تواب ایک ملی میٹر بھی نہیں چل سکتی ۔‘‘ آپا رونکھی ہو گئی ۔ میں نے حیرت سے آپا کی طرف دیکھا۔
’’ آپ چل کہاں رہی ہو ؟ متحرک راستے پر کھڑی ہو جوخودبہ خود آپ کو منزل کی طرف لیے جا رہا ہے ۔‘‘
’’ہاں ، توکھڑی توہوئی ہوں نا ’’ مسلسل‘‘ ۔ آپا نے ’’ مسلسل‘‘ پر زور دیا ۔‘‘ اور کبھی کبھی چلنا بھی تو پڑتا ہے ۔‘‘
’’پھر یہ بھی ہے کہ جب ہم میٹرو کے ’’ دبئی مال‘‘ اسٹیشن پر اترے تھے تو یہی خیال تھا کہ بس اب سیدھے مال ہی میںجا گھسیں گے۔ مگر اب تک ہم چلے جا رہے ہیں اورمال کا نام و نشان تک نہیں ۔‘‘ بھائی نے منہ بنا کر کہا۔
بات ٹھیک تھی ۔ ہم کم از کم دس پندرہ منٹ سے اس سرنگ نما راستے پرچل رہے تھے ۔کبھی بجلی سے چلنے والی بیلٹ پر کھڑے ہو جاتے اور کبھی بور ہوکر اس سے اتر جاتے اور زمین پر چلنے لگتے ۔ شیشے کی دیواروں سے باہر کی دنیا نظر آ…

مزید پڑھیں

ڈیزرٹ سفاری – نور جنوری ۲۰۲۱

جیپ زور سے اچھلی۔ ہمارے سر چھت سے ٹکراتے ٹکراتے بچے ۔ پھر اس نے تیزی سے ایک موڑ کاٹا اور سیدھی ایک ریت کے ٹیلے پر چڑھتی چلی گئی ۔ ہم پیچھے کی طرف جھک گئے ۔ جیپ پوری قوت سے صحرا میں دوڑ رہی تھی۔ اونچے نیچے ٹیلوں پر چڑھتی ، اترتی، لہراتی اور ہمارا دم خشک کرتی۔ دور دور تک سنہری ریت چمک رہی تھی ۔ سڑک کا نام و نشان نہیں تھا ۔ کوئی رہنمائی کرتا بورڈ یا تیر کا نشان بھی نہیں تھا ۔ جیپ کے پہیے خود ہی اپنا راستہ بنا رہے تھے۔
’’ اگر ہم راہ بھٹک گئے تو ؟‘‘ میرے ذہن میںسوال ابھرا تو میں نے گھبرا کر امی کی طرف دیکھا ۔ میرا خیال تھا کہ وہ خوف زدہ ہوں گی ، لیکن انھیں اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر تعجب ہوا۔
’’ امی !آپ کو ڈر نہیں لگ رہا ؟‘‘ میرے خیال کو آپا نے زبان دی ۔
’’ نہیں ۔‘‘ انھوں نے بے نیازی سے جواب دیا۔
’’ تعجب ہے ۔‘‘ بھائی بھی امی کی بہادری پر حیران تھا۔
’’ اگر ہم گلگت بلتستان جانے سے پہلے یہاں آئے ہوتے تو شاید لگتا ۔ اب تویہی لگ رہا ہے جیسے جی ٹی روڈ پر ٹیکسلاسے…

مزید پڑھیں

جامع مسجد شیخ زاید – نور اپریل ۲۰۲۱

گاڑی فراٹے بھرتی ابو ظہبی کی طرف رواں دواں تھی ۔پھوپھا جان ہمیں جامع مسجد شیخ زاید کی چیدہ چیدہ خصوصیات بتا رہے تھے۔’’ یہ مسجد دنیا کی دس بڑی مساجد میں سے ایک ہے۔متحدہ عرب امارات کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے ۔ یہ 1996ء میں بننا شروع ہوئی تھی اور 2007 میں تکمیل کوپہنچی ۔دنیا کے مختلف ممالک سے منگوائے گئے سفید سنگ مر مر کی بنی یہ مسجد دور سے ایک چمکتا ہوا موتی معلوم ہوتی ہے ۔ اس پر دو ملین درہم لاگت آئی ہے ۔اس میں تقریباً اکتالیس ہزارنمازیوں کی گنجائش ہے۔‘‘
مسجد دیکھنے کا ہمارا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا ۔ تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہم مسجد کی پارکنگ میں رُکے ۔ بہت بڑی پارکنگ میں بے شمارگاڑیاں اوربسیں کھڑی تھیں ۔ نماز کی ادائیگی کے لیے آنے والوں کے علاوہ سیاح بھی اس خوب صورت مسجد کو دیکھنے جوق در جوق آتے ہیں۔
ہم مسجد کی طرف بڑھے۔ راستے میں جگہ جگہ پھولوں کی قطعات اور فوارے لگے تھے ۔ مسجد کے ڈھیر سارے گنبدوں کی طرف اشارہ کر کے بابا نے کہا ’’ انھیں دیکھ کر تو ترکی کی مساجد یاد آتی ہیں ۔‘‘
’’ اوریہ محرابیں مسجد قرطبہ کی…

مزید پڑھیں