روزینہ خورشید

بتول میگزین

یوں ہی تو نہیں!
ثروت اقبال
امی میں شاہد بھائی کی شادی میں لہنگا پہنوں گی۔ آپ مجھے لہنگا بنا دیں نا! میں نے امی سے بڑی لجاجت سے کہا۔
امی نے کہا ،دیکھو بیٹا آج کل ہاتھ بہت تنگ ہے اور پھریہ میرے بھانجے کی شادی ہے تو شادی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، تحائف دینا شادی کی تقریبات میں آنا جانا تمام اخراجات مشکل سے پورے ہو رہے ہیں۔
میں نے کہا، امی کل سب کزنز نے یہی طے کیا ہے کہ سب شادی میں لہنگا پہنیں گی، اگر میں نہیں پہنوں گی تو کتنا عجیب لگے گا نا! مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا،اور ہاں بڑی پھپھو ،چھوٹی پھپھو، چچی اور تائی امی سب ساڑھی پہنیں گی اور امی آپ بھی ساڑھی پہنیں گی۔
ساڑھی کا نام سن کر امی کی آنکھیں کچھ چمک اٹھیں ۔میں سمجھ گئی، امّی تو اپنی وہی پسندیدہ ساڑھی پہنیں گی جسے انہوں نے بہت سنبھال کر دوہرے شاپر میں بند کرکے الماری میں رکھا ہؤا ہے۔ مجھے امّی کی اس ساڑھی کو دیکھے ہوئے بھی کئی سال ہوگئے تھے کیونکہ امی نے وہ ساڑھی ایک یا دو مرتبہ ہی خاص موقعوں پر پہنی تھی۔
یہ سوچتے سوچتے میں سو گئی۔ رات خواب میں بھی میں لہنگا پہنے…

مزید پڑھیں

محشر خیال

پروفیسر خواجہ مسعود ۔ اسلام آباد
’’ چمن بتول‘‘ شمارہ اکتوبر2023ء زیرمطالعہ آیا۔ سب سے پیشتر سر ورق کے بارے میں کہناچاہوں گا کہ فوٹوگرافک سر ورق کی بجائے آرٹسٹ کا ہاتھوں سے ڈیزائن کردہ سر ورق زیادہ دیدہ زیب لگتا ہے ۔ آرٹسٹ کے بنائے رنگ برنگے پھولوں سے سجے سر ورق دل کو بھاتے ہیں اور ’’ چمن بتول ‘‘ کو سجاتے ہیں ۔
’’ ابتدا تیرے نام سے ‘‘ حالات حاضرہ پر ڈاکٹر صاحبہ کی کڑی نظر رہتی ہے ۔ اس لیے ہمیں آپ کے تند و تلخ سچے تبصرے پڑھنے کوملتے ہیں۔ اداریہ کے یہ جملے قابل غور و فکر ہیں ’’ حالات سنگین تر ہوگئے ہیںایسے میںحکمرانوں کی تفریحات اورعیاشیاں زخموں پرنمک چھڑک رہی ہیں ۔ بے حسی انتہا پر ہے مالِ مفت دل بے رحم ۔ قرض کی مَے ہے اور رنگ لائی ہوئی فاقہ مستی ‘‘ غالب کے شعر کا خوب استعمال کیا ہے ۔
’’ اللہ کی طرف بلانے والے رسولؐ ‘‘ ڈاکٹر میمونہ حمزہ کا بصیرت افروز مضمون اس مضمون میں واضح کیا گیا ہے کہ ہمارے پیارے رسول پاک ؐ نے دعوت حق لوگوںتک پہنچانے کا فریضہ بہترین طریقہ سے انجام دیا ہے اور اس سلسلہ میںکسی لالچ ،خوف یا مصیبت سے متزلزل…

مزید پڑھیں

دسمبر ستمگر – روزینہ خورشید*

یہ سن 1985ء کی بات ہے ہمارے پڑوس میں ایک خاندان آ کر آباد ہؤا،نثار صاحب ان کی اہلیہ حسنہ اور ان کے دو بچے، ایک بیٹا ایاز اور ایک بیٹی روبینہ۔
یہ بہت اچھی اور سلجھی ہوئی فیملی تھی۔ حسنہ آنٹی انتہائی خوبصورت، خوب سیرت ،با اخلاق اور سلیقہ مند خاتون تھیں۔ ان کی بیٹی روبینہ جو میری ہم عمر تھی وہ بھی اپنی امی کی طرح بہت پیاری اور خوش اخلاق تھی۔ جلد ہی ہم دونوں بہت گہرے دوست بن گئے ۔ میں اکثر اپنا ہوم ورک کرنے روبینہ کے گھر چلی جاتی تھی کیونکہ آنٹی ہوم ورک کرانے کے بعد ہمیں کہانیاں بھی سناتی تھیں۔لیکن جب بھی دسمبر کا ذکر آتا تو وہ بہت اداس ہو جاتی تھیں۔ ہم جب ان سے اداسی کی وجہ پوچھتے تو جواب دیتیں۔
’’بیٹا دسمبر دراصل ستم گر ہے….اس سے بہت سی یادیں جڑی ہوئی ہیں ‘‘۔
سانحہ مشرقی پاکستان کو یاد کرکے وہ روتی تھیں۔آئیے ان کی کہانی انہی کی زبانی سنتے ہیں:
میرا نام حسنہ ہے۔ میری پیدائش مشرقی پاکستان کی ہے ۔جس وقت مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا اس وقت میں چھٹی جماعت کی طالبہ تھی ۔ ہم چار بھائی اور چار بہنیں تھیں۔ بڑی بہن کا انتقال بنگلہ دیش بننے سے…

مزید پڑھیں