حنا سہیل

بتول میگزین – بتول فروری ۲۰۲۲

باتوں سے خوشبو آئے
حناسہیل۔جدہ
کل جب صبح چہل قدمی کے لیے نکلی تو مختلف انواع و اقسام کے پھولوں کو دیکھ کر ایسے ہی دل میں ایک خیال آیا ۔ ہماری زندگی میں کچھ لوگ بالکل کیکٹس کی طرح ہوتے ہیں، ان کے رویہ میں ، عادتوں میں، باتوں میں کانٹے کانٹے ہوتے ہیں ، ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں حیران کن شخصیت لیکن پاس جانے کی ہمت نہیں کرتے ، کیونکہ چاروں اطراف غرور اور انا کے کانٹے نکلے ہوئے ہوتے ہیں جو چبھنے کا خدشہ رہتا ہے ، ریگستانوں میں لگنے والا پودا کیکٹس اگر آپ نے دیکھا ہو تو آپ کو حیران کر دینے والا پودا ہے کہ کم پانی کے ساتھ یا بغیر پانی کے ریگستان میں اگتا ہے اور خشک کانٹوں سے بھرا ہؤا ہوتا ہے ۔
ہماری زندگی میں کچھ لوگ گلاب کے پھولوں کی طرح بھی آتے ہیں جن کی خوشبو اور خوبصورتی ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ ہم ان کے ساتھ میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اکثر ان میں آپ کے استاد ہوتے ہیں یا جو آپ کو زندگی کے بارے میں سکھا رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہ گلاب جن ڈالیوں پہ مہکتے ہیں وہ کانٹوں بھری ہیں۔ ان کی زندگی میں…

مزید پڑھیں

بتول میگزین

یوں ہی تو نہیں!
ثروت اقبال
امی میں شاہد بھائی کی شادی میں لہنگا پہنوں گی۔ آپ مجھے لہنگا بنا دیں نا! میں نے امی سے بڑی لجاجت سے کہا۔
امی نے کہا ،دیکھو بیٹا آج کل ہاتھ بہت تنگ ہے اور پھریہ میرے بھانجے کی شادی ہے تو شادی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، تحائف دینا شادی کی تقریبات میں آنا جانا تمام اخراجات مشکل سے پورے ہو رہے ہیں۔
میں نے کہا، امی کل سب کزنز نے یہی طے کیا ہے کہ سب شادی میں لہنگا پہنیں گی، اگر میں نہیں پہنوں گی تو کتنا عجیب لگے گا نا! مجھے بھی اچھا نہیں لگے گا،اور ہاں بڑی پھپھو ،چھوٹی پھپھو، چچی اور تائی امی سب ساڑھی پہنیں گی اور امی آپ بھی ساڑھی پہنیں گی۔
ساڑھی کا نام سن کر امی کی آنکھیں کچھ چمک اٹھیں ۔میں سمجھ گئی، امّی تو اپنی وہی پسندیدہ ساڑھی پہنیں گی جسے انہوں نے بہت سنبھال کر دوہرے شاپر میں بند کرکے الماری میں رکھا ہؤا ہے۔ مجھے امّی کی اس ساڑھی کو دیکھے ہوئے بھی کئی سال ہوگئے تھے کیونکہ امی نے وہ ساڑھی ایک یا دو مرتبہ ہی خاص موقعوں پر پہنی تھی۔
یہ سوچتے سوچتے میں سو گئی۔ رات خواب میں بھی میں لہنگا پہنے…

مزید پڑھیں

بتول میگزین

کوئی قاتل ملا نہیں
حنا سہیل۔جدہ
منیبہ ایک سائکاٹرسٹ تھی۔ اس کے پاس بہت سے کیسز آتے رہتے تھے اور کچھ تو بہت زیادہ خراب کنڈیشن میں ہوتے تھے ۔اپنے آپ سے بیگانہ گندے حلیہ میں ، ان میں پڑھے لکھے مریض بھی تھے جنہیں زمانے کی چوٹوں نے اس حالت پر پہنچایا تھا اور کچھ ان پڑھ بھی تھے۔ مگر ان مریضوں میں ایک خاتون ایسی بھی تھی جو بولتی نہیں تھیں ،یعنی خاموش جیسے گونگی ہوں،انھیں بولنا نہیں آتا ہو۔ گھر کے سارے کام کرتی تھیں مگرروتی رہتی تھیں۔خاتون جن کا نام عطیہ تھا، انھیں گھر والے ڈاکٹر منیبہ کے پاس ہرہفتہ تھیرپی سیشن کے لیے لے کر آتے مگر ان کی حالت میں پانچ سال میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا _
عطیہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں ۔شوہر بھی ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز افسر تھے۔ اللہ کا کرنا کہ چھ سال تک یہ جوڑا اولاد کی نعمت سے محروم رہا ، شادی شدہ عورت میں اولاد کی خواہش اللہ نے فطری طور پر رکھی ہے اور جب دنیا والے طعنہ دینے لگتے ہیں تو یہ خواہش شدت اختیار کر جاتی ہے ، عطیہ تہجد میں اٹھ اٹھ کر اپنے اللہ سے گڑگڑا کر صالح اولاد کی نعمت…

مزید پڑھیں