بشری تسنیم

زوجین میں سمجھوتہ – بتول دسمبر ۲۰۲۰

سمجھوتہ کے معنی ہیں ایک دوسرے کو سمجھ لینا اور اسی کو مفاہمت کہا جاتا ہے۔ سمجھوتہ یک طرفہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا، دونوں طرف سمجھوتے کا میلان موجود ہونا چاہئے۔ سب سے پہلے تو اس بات پہ سمجھوتہ ضروری ہے کہ دونوں باہم افہام و تفہیم کے ساتھ ایک دوسرے کے مزاج عادات و اطوار ، سے شناسائی کروائیں گے ۔ بہت ساری چیزیں ہمیں اس وقت ناگوار بلکہ ناقابل برداشت لگتی ہیں جب وہ اپنی الگ پہچان رکھتی ہوں مگر جب وہ دوسری اشیاء سے سمجھوتہ کر لیتی ہیں تو ایک نئ، مختلف خوشگوار اور قابل قبول شے بن جاتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں اس کی مثالیں جا بجا نظر آتی ہیں۔مثلاً کھانے پینے کی اشیاء میں مختلف چیزوں کا استعمال مناسب مقدار میں کیا جاتا ہے تو وہ مزے دار ڈش بن جاتی ہے۔صرف سرخ مرچ یا دیگر مصالحے الگ الگ کون پھانک سکتاہے؟کیا سالن کی

مزید پڑھیں

جذباتی صدمے اور اسوہ رسولؐ – بتول نومبر۲۰۲۰

انسان طبعاً کمزور ہے (النسا ۸۲) اور سرشت میں عجلت پسند ہے (الانبیاء۷۳، اسراء ۱۱) اس لیے پائدار سکھ کے حصول کے لیے انتظار کی ختم ہوجانے والی اذیت برداشت کرنے کی بجائے عارضی دکھ اور ناکامیاں، پریشانیاں اولاد آدم کو زیادہ متاثر کرتی ہیں اور تا دیر یاد رہتی ہیں۔ انسان کے خمیر میں حاصل شے کی طرف سے عدم توجہی اور لا حاصل کا رونا موجود ہے۔ قرآنی زبان میں انسان کو تھڑ دلا یا کچے دل والا (ھلوعا) کہا گیا ہے(المعارج۹۱)۔ اسی لیے انسان کو تحمل، صبر و ضبط کے لیے کونسلنگ اور مضبوط سہارے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ ہر انسان کو معاشرتی وسماجی زندگی میں انفرادی طور پر قدر و ناقدری کے احساسات سے لازما واسطہ پڑتا ہے۔ اپنوں کی طرف سے قدرناشناسی کے وقت جب جذباتی صدمے روح کو چھلنی کرتے ہیں تو دل جوئی کے لیے کوئی تو ہونا چاہیے جو صائب مشورہ

مزید پڑھیں

حیا خیر لاتی ہے – مارچ ۲۰۲۱

حیات میں حیا مضمر ہے۔ یا پھر حیا کے سنگ حیات خوبصورت ہے۔ وہی فرد اور معاشرہ تازگی اور حسن کے ساتھ زندہ رہتا ہے جس میں حیا باقی رہے۔ پہلے انسان سیدنا آدم علیہ السلام کا پتلا جس مٹی سے تیار کیا گیا، حیا اس کا جوہر تھا؛ جیسے پھول میں خوشبو اس کا جوہر ہے۔ ہر چیز کو بناتے ہوئے اس کی اساس یا بنیادی خاصیت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔نمکین ہےیا میٹھا، کھٹا ہے یا پھیکا، ہر چیز کو بنانے کے کچھ عناصر ترکیبی (ingredients) ہوتے ہیں۔ آدم کے پتلے کی تیاری والی مٹی میں نفس روحانی کے لیے جو ناگزیر چیز یا عنصر رکھی گئی وہ حیا ہے۔ اسی لیے انسانیت کی بقائے حیات میں حیا مضمر ہے۔ جب آدم کے مادی وجود میں’’الحی القیوم‘‘ نے روحِ حیات پھونکی تو حیا اس کا لازمی جزٹھہری۔ حیا، حیات اور الحی کا بنیادی حرف’’ح‘‘ اور’’ی‘‘ ہے۔ زندگی

مزید پڑھیں

بارش کے بعد – بتول دسمبر ۲۰۲۱

گلابی جاڑے کی آمد آمد تھی ۔ شام کو ہلکی سی ٹھنڈک محسوس ہوتی ، مگر دن میں گرمی کا احساس غالب رہتا ، سبک سی ہوائیں گرمی کو الوداع کہنے آتیں مگر کچھ پیش نہ چلتی ۔ایک دن ان نرم نرم سی ہوائوں نے آندھی سے ایکا کرلیا… پھرتندو تیز ہوا کا طوفان ، درختوں ، کمزور چھتوں ، سڑک کے سائن بورڈز کو اکھاڑنے کے در پے ہو گیا شہر کا ساراانتظام بھپری ہوا نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ، سہ پہر کو ہی بازار ، گلیاں سنسان ہو گئے … بجلی دَم سادھے حسب معمول کسی کونے کھدرے میں جا چھپی۔ سائیں ، سائیں کرتی ہوائیں درختوں کی شاخوں کو اِدھراُدھر پٹخ رہی تھیں ۔مٹی کا طوفان بگولوں کی شکل میں در بدر پھر رہا تھا ۔اس شہر خاکی میںآندھی اور گردو غبارکا کوئی موسم نہیں ، ہر وقت ،وقت غبار ہے ۔ عصر کی نماز

مزید پڑھیں

بتول میگزین – بتول جون ۲۰۲۳

ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں سعدیہ نعمان ہمارے ارد گرد ایسے کردار موجود ہوتے ہیں جو کسی کی نظر میں بھی اتنے اہم نہیں ہوتے اور دراصل وہی معاشرے کی بنیادی اکائی ہوتے ہیں وہ اپنے حصے کا بوجھ بہت ذمہ داری سے اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں ان کی قدر جان کر ان کی حوصلہ افزائی کر یں معاشرے میں مجموعی طور پہ پھیلتی مایوسی میں وہ امید کی کرن ہیں ایسے ہی کچھ کرداروں سے آج میں آپ کو ملوانا چاہوں گی۔ یہ حفیظ انکل رکشہ والے ہیں ٹھیک سات بج کے دس منٹ پہ ”چلو جی ی ی صاب جی ی ی‘‘ کی گرجدار آواز کے ساتھ وہ گیٹ پہ موجود ہوتے اور بچے کبھی سکول سے لیٹ نہ ہوتے وہ پورے ٹاؤن کے حفیظ انکل ہیں ان کا دن صبح فجر کی با جماعت نماز سے شروع ہوتا ہے اور رات دس بجے تک مسلسل

مزید پڑھیں