اسماء جلیل قریشی

حرمتِ قرآن مجید – اسماء جلیل قریشی

ہم عظمت ِقرآن کی حرمت کے امیں ہیں
ہم نورِوحی نورِہدایت کے امیں ہیں
ہیں دل میں بسائےہوئے قرآن کو اپنے
ہم زیر زبر پیش ہر آیت کے امیں ہیں
عالم میں ہے گونج اس کی ہر اک سمت ہر اک وقت
صد شکر کہ ہم اس کی تلاوت کے امیں ہیں
مصحف یہ ملا آخری محبوبِ خدا کو
ہم نسبتِ آقا سے سعادت کے امیں ہیں
بچوں کی زباں پر ہے یہ، حفاظ کے دل میں
یوں ذکرِالٰہی سے عبادت کے امیں ہیں
محراب سے، منبر سے، مساجد سے، مکاں سے
ہر طور سے ہم اس کی اشاعت کے امیں ہیں
اعجازِ نبوت ہے یہ شہکارِ الٰہی
ہم اس کی فصاحت کے بلاغت کے امیں ہیں
الحمد سے الناس تلک سب ہے حقیقت
ہرحرف پہ ہم اس کی صداقت کے امیں ہیں
یدعون الی الخیر کی دے ہم کو یہ تلقیں
ہم خیر امم اس کی نصیحت کے امیں ہیں
لاریب ہدایت کا یہ سرچشمہ سراسر
ہم خادم ِقرآن شریعت کے امیں ہیں
اک نقطہ تلک اس کا کبھی مٹ نہیں سکتا
خود ربِّ جہاں اس کی حفاظت کے امیں ہیں
یہ کفر کی سازش سے نہ بدلے نہ مٹے گا
سینے ہیں کئی اس کی جوقرأت کے امیں ہیں
باطل کا کہاں دم تھا اگر ہم یہ دکھاتے
دنیا میں بہت اس کی فضیلت کے امیں ہیں
قرآن کے عاشق ہیں دکھانا ہے عمل…

مزید پڑھیں

ہدیہِ ندامت بحضور آقا ﷺ – اسماء جلیل قریشی

عقیدت یاد رہتی ہے اطاعت بھول جاتے ہیں
نبی کے نام لیوا ہو کے سنت بھول جاتے ہیں
بصد تعظیم جاتے ہیں سبھی آقا کے روضے پر
زیارت یاد رہتی ہے ہدایت بھول جاتے ہیں
رسولؐپاک کی حرمت پہ ہم کٹنے کو راضی ہیں
مگر معمول میں نبوی طریقت بھول جاتے ہیں
بھلا کر سیرتِ احمد رہِ اغیار چنتے ہیں
وہ امت کے لئے آقا کی کلفت بھول جاتے ہیں
کہ دیں کے واسطے وہ ہجرتیں، قربانیاں ساری
جو طائف میں ملی وہ ہر اذیت بھول جاتے ہیں
دلوں میں بغض رکھتے ہیں خصومت پال لیتے ہیں
نبیؐ کی درگزر کی ہم روایت بھول جاتے ہیں
بڑی بے جاں نمازیں ہیں، جبینیں شوق سے خالی
یہی آقا کی آنکھوں کی تھی راحت بھول جاتے ہیں
ہمیں اپنی ستائش کی تمنا یاد رہتی ہے
نبیؐ کی منکسر رہنے کی عادت بھول جاتے ہیں
سنہرا وقت وہ، دورِخلافت یاد رہتا ہے
خلافت کے لیے جو تھی ریاضت بھول جاتے ہیں
وہی ہیں شافعِ محشر وہی کوثر کے والی ہیں
وہ روزِحشر جو ہوگی ندامت بھول جاتے ہیں

مزید پڑھیں

ابھی یہ عمر باقی ہے – اسماء جلیل قریشی

ابھی یہ عمر باقی ہے
ابھی یہ سانس چلتی ہے
ابھی یہ دل دھڑکتا ہے
یہ دھڑکن شور کرتی ہے
ابھی قوسِ قزح
آنکھوں کے پردے پر اترتی ہے
ابھی پلکوں کی باڑوں پر
سجے ہیں ان گنت سپنے
ابھی دہلیزِدل پہ نت نئے موسم ابھرتے ہیں
ابھی ہے دلکشی باقی ابھی ہے چاشنی باقی
وہ جیسے گرتی بوندوں کی
ہے رہتی راگنی باقی
لبِ دریا ابھی وہ چاندنی راتیں لبھاتی ہیں
پہاڑی راستوں میں آبشاریں گیت گاتی ہیں
ابھی جوبن پہ بزمِ دوستاں ہے مسکراہٹ ہے
ہنسی سرگوشیاں ہیں بولتے جذبوں کی آہٹ ہے
ابھی دامن پہ
جھلمل سے ستارے ٹانک لیتے ہیں
دریچے یاد کے ہم کھولتے ہیں جھانک لیتے ہیں
ابھی شبنم کے قطروں کی مہک کاہے فسوں باقی
ابھی سرخی شفق کی دیکھنے کا
ہے جنوں باقی
ابھی گاؤں کی پگڈنڈی پہ چلنے کی تمنا ہے
ابھی تو بھاگ کر جگنو پکڑنے کی تمنا ہے
ابھی تو ریل کی سیٹی کی باقی بازگشتیں ہیں
ابھی چھک چھک سے پٹری سے جڑی کچھ داستا نیں ہیں
غباروں نے ہواؤں میں ابھی بھرنی اڑانیں ہیں
ابھی خواہش ہے ہم دیکھیں جو برفیلی چٹانیں ہیں
ابھی تو ارغوانی بدلیاں منظر سجاتی ہیں
نئی کچھ منزلیں آواز دیتی ہیں بلاتی ہیں
ابھی پت جھڑ کے موسم میں غزل فرقت پہ لکھنی ہے
دسمبر کی کہانی بھی بڑی فرصت سے لکھنی ہے
ابھی مصرع ادھورا ہے کہر آلود خنکی پر
ابھی لکھنا ہے افسانہ…

مزید پڑھیں