ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

وقت قریب ہے ۔ ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

لفظ ’’قریب‘‘روزانہ بے شمار مرتبہ استعمال ہوتا ہے۔ بعض الفاظ زیادہ استعمال کی وجہ سے ہمارے لیے سطحی معنی میں ہی رہتے ہیں۔ لفظ ’’قریب‘‘ کی اصل عربی ہے اور ہم اپنی زبان میں بھی انہی معنوں میں استعمال کرتے ہیں یعنی نزدیک یا پاس ہونا۔
قریب یا دور ہونا وقت، عمر، صحت اور حالات کے مطابق ہوتا ہے جیسے چند قدم کا فاصلہ شیرخوار بچے کے لیے قریب نہیں ہے۔ وہی فاصلہ بڑے بچے کے لیے دو تین قدم پہ ہے۔ لیکن جب انسان بیمار ہوتا ہے یا بڑھاپے کو پہنچ جاتا ہے تو کسی مقام پہ پہنچنا چند قدم کا فاصلہ بھی قریب ہرگز محسوس نہیں ہوتا۔
کسی جگہ تیز چل کر یا دوڑ کر جانا اور سواری کی رفتار کے لحاظ سے بعید منزل قریب ہو جاتی ہے۔ سواری براق ہو تو لمحوں میں مسجد الحرام سے بیت المقدس اور پھر سات آسمانوں کی سیر کے لیے جا سکتی ہے۔
رابطوں کے بہتر وسائل سے انسان دور دیس میں ہونے کے باوجود اعزہ سے قریب ہونے کا احساس رکھتا ہے۔
محبت کا تعلق دوسری دنیا میں رخصت ہونے والوں سے دور نہیں رہنے دیتا۔ پیاری یادیں لاسلکی ڈور سے بندھی دل کے قریب ہی بس جاتی ہیں۔
تعلق اور محبت کا رشتہ…

مزید پڑھیں

نیکی قبول ہونے کا معیار – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

بندوں کے ساتھ خیر خواہی سب سے بڑی نیکی ہے اور یہ نیکی ایک دوسرے پہ فرض ہے ۔ ایمان لانے کے بعد حقوق العباد کی ادائی ہی آخرت میں انسان کی نجات کا باعث ہو گی ۔
یہ ایک عجیب امتحان ہے اور اس امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے ہی دراصل اللہ تعالیٰ نے عبادات فرض کی ہیں کیونکہ روحانی طور پہ مضبوط انسان ہی حقوق العباد کا مشکل پرچہ حل کر سکتا ہے ۔
دنیا میں انبیاء انسانوں کی خیر خواہی کے لیے مبعوث فرمائے گئے ، اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کو اپنی بارگاہ میں برگزیدہ فرمایا پھر یہ مشن سونپا اور اکثر انبیاء کرام علیھم السلام کو بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کی نگہبانی کے ذریعے ایسی جانفشانی صبر و تحمل کی صفت پیدا کی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی نصرت سے اس ذمہ داری کو کما حقہ نبھانے میں کامیاب قرار پائے اگرچہ انسانوں کی قلیل تعداد ہی انبیاء کرام علیھم السلام کی ہم راہی کا شرف حاصل کر سکی۔
سیدنا نوح علیہ السلام کی زندگی کے نو سو پچاس سال انسانوں کو خیر وبرکت کے راستے کی طرف بلانے پہ لگے ۔ مگر اتنی قلیل تعداد نے ان کی دعوت پہ لبیک کہا کہ جو ایک…

مزید پڑھیں

عدم اعتراف – بتول اگست ۲۰۲۴

تاریخ انسانی میں انسانوں نے جو سب سے بڑاجرم کیا وہ ’’عدم اعتراف‘‘ ہے۔ اور سب سے بڑا جرم الله تعالیٰ کی وحدانیت کا عدم اعتراف ہے۔اپنے ہی جیسے الله تعالیٰ کے چنیدہ بندوں کو هہادی و راہنما کے طور پہ قبول نہ کرنا بھی انسانی تاریخ کا جرم عظیم رہا۔
مال و دولت، تخت و تاج والوں نے بھلا دیا کہ یہ جاہ و حشم عارضی ہے۔ دنیا کے فانی ہونے اور اعمال کی جواب دہی کا عملاً عدم اعتراف ہمیشہ پستی کی دلیل بنا۔
زندگی سدا ایک جیسی نہیں ہوتی دھوپ چھا ؤں گرمی سردی کی طرح رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی زندگی کی اٹل حقیقت ہے۔ زندگی اسی کا نام ہے کہ اس کی ناخوش گواریوں کا خوش گواری کے ساتھ سامنا کیا جائے۔
تکلیف، غم،دکھ سے واسطہ پڑے تو جب تک اس حقیقت کا اعتراف نہ کر لیا جائے گا اس سے نپٹنے کا طریقہ کیسے سمجھ آئے گا؟
زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا سب سے ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت سے ان کا سامنا کیا جائے۔ زندگی کی ذمہ داریا ں نبھانا بھی ایک مشقت بھرا کام ہے جو فرد اپنی ذمہ داری کا اپنے عہدے کا اعتراف سچے دل سے کرتا ہے…

مزید پڑھیں

یاددا شت کا حسن – بتول جولائی ۲۰۲۴

اللہ رب العزت نے انسان کو احسن تقویم پہ بنایا۔ اور اپنی ذات کی پرتیں کھولنے کے لیے ہر دور میں خود انسان تحقیق اور دریافت کے سمندر میں غوطے لگاتا رہا ہے۔
اللہ الخالق نے بھی سورہ حم سجدہ آیت 53 میں یہی فرمایا:
’’عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاہ ہونا کافی نہیں؟‘‘
انسان دیگر مخلوق کے مقابلے میں بہت سی علامتوں میں ممتاز ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوتِ گویائی بخشی تاکہ وہ اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کر سکے اور اس اظہار کے لیے یاد داشت کا ہونا ضروری ہے۔ یاد رکھنے کی قوت جو حواس ظاہری و باطنی کے افعال کو دماغ میں محفوظ رکھتی ہے اور لا محالہ انہی کی روشنی میں انسان اپنی آئندہ زندگی کا مثبت رخ متعین کر سکتا ہے۔
یاد داشت بنیادی طور پر ایک پیچیدہ عمل ہے۔ تاہم تمام یاد داشتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں۔ یاد داشت دراصل معلومات حاصل کرنے، محفوظ کرنے، برقرار رکھنے اور بعد ازاں بازیافت کے لیے استعمال…

مزید پڑھیں

اب میں کیا کروں؟ – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

لفظوں کی ترتیب، لہجے کا اتار چڑھائو، ایک سادہ سے جملے کی ساری بُنَت بدل دیتا ہے۔ جیسے مشہورِ زمانہ کتاب کا عنوان:
‘‘Friends not master’’
اس میں’’not‘‘کو پہلے لفظ کے ساتھ یا بعد والے لفظ کے ساتھ کر دیں تو معنی یکسر بدل جاتے ہیں۔
’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ کو بھی کہنے والا اپنی منشاء کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔
اس کو دوغلی پالیسی بھی کہتے ہیں۔ دوغلی کا مطلب ہے برعکس، متضاد یا دو رُخی پالیسی۔ جس کو منافقت بھی کہا جاتا ہے۔ منافقت لفظ نفق سے ہے اور نفق سرنگ کو کہتے ہیں جس کی دونوں اطراف کھلی ہوتی ہیں۔ چوہے کے بل کو بھی نفق کہا جاتا ہے، اس لیے کہ چوہے کے لیے موقع محل دیکھ کر دائیں یا بائیں کا راستہ اختیار کرنا آسان ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ جملے کے درمیانی لفظ کی نشست کا ’’رولا‘‘ کس طرح نمٹایا جائے؟ کہنے والا تو اپنے لیے دونوں طرف کا راستہ کھلا رکھتا ہے۔ نتیجہ اپنے ہی ہاتھ میں رکھتا ہے اور مطیع کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ شاید اسی صورتحال کو کہہ سکتے ہیں’’حکم حاکم مرگ مفاجات‘‘۔
یہ کسی کے ساتھ انتقامی رویہ میں ذہنی اذیت دینا یا بڑے مقصد کے تحت تربیت دینے…

مزید پڑھیں

بزرگ شجر ِسایہ دار – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

زندگی اپنا آپ دہراتی رہتی ہے ۔ جیسے صبح و شام ، بہار خزاں ، دن رات کا آنا جانا ایک معمول کے ساتھ ہمیشہ سے چل رہا ہے اور ابد تک اس کی گردش چلتی رہے گی ۔بچپن ،جوانی اور بڑھاپا بھی اسی گردش کا نام ہے ۔ بس انسانوں کی شکلیں اور نام بدل جاتے ہیں ۔ آج جو پوتا ہے وہ کبھی دادا بن جائے گا اور جو آج دادا ہے وہ کبھی کسی کا پوتا تھا۔
موجودہ دور میں یہ بات درست ہے کہ باہمی تعلقات میں بہت سے عوامل نے قربت میں پہلے جیسی مٹھاس نہیں رہنے دی ۔ بزرگ تو بعد کی بات ہے اس وقت اولاد اور والدین ، بہن بھائیوں میں بھی والہانہ وابستگی کا فقدان ہے ۔ اس کی وجہ گھر کے ہر فرد کی الگ الگ مصروفیات اوقات کار اور ان میں ترجیحات کے فرق کی وجہ سے مل بیٹھنے کے مواقع کا نہ ہونا ہے ۔ہر گھر میں سارے افراد کسی ایک کام میں مشترک ترجیح متعین کر لیں تو سب کو ایک مشترکہ مصروفیت مل سکتی ہے۔وہ مشترکہ مصروفیت کیا ہو سکتی ہے ہر گھرانے کا الگ انتخاب ہو سکتا ہے۔
کسی بھی گھر میں اگر بزرگ موجود ہوں تو…

مزید پڑھیں

لہو کے چراغ – ڈاکٹر بشری تسنیم

اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سرزمینِ فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے ، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر بکثرت انبیا ء و رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین میدانِ حشر بھی ہے۔اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ:
’’جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘اس سے مراد ملک شام اور اس کا گردو نواح ہے‘‘ ۔
سریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کے گردونواح کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاءؑ کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے ، حضرت حسن ؓاور حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے۔ عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں :
’’اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے ‘‘۔سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں متعدد مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب…

مزید پڑھیں

لہو کے چراغ – ڈاکٹر بشری تسنیم

اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سرزمینِ فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے ، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر بکثرت انبیا ء و رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین میدانِ حشر بھی ہے۔اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ:
’’جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘اس سے مراد ملک شام اور اس کا گردو نواح ہے‘‘ ۔
سریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کے گردونواح کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاءؑ کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے ، حضرت حسن ؓاور حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے۔ عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں :
’’اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے ‘‘۔سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں متعدد مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب…

مزید پڑھیں

احسان کی حقیقت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

عموماً ہمارے معاشرے میں احسان کسی کی ایسی نیکی کو کہا جاتا ہے جو ہمیں بوجھ محسوس ہو جس کو سر سے اتارنے کی جلدی ہو یا خود نیکی کر کے جیسے کسی دوسرے کو قرض دیا ہو اور اس کی واپسی کے منتظر ہوں، مثلاً:
’’میں نے اس پہ احسان کیے اور اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا‘‘۔
’’میں کسی کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی/سکتا’’ یا ‘‘مجھے کسی کے احسان کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
احسان کا لفظ قرآن پاک میں کثرت سے آیا ہے۔لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ کی ذات ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور بہت خوب بنائی۔ (سورہ السجدہ: ۷)
اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔اس کے علاوہ لغوی معنی کے لحاظ سے احسان، برائی کے مقابل آتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الرعد آیت نمبر ۲۲ میں فرمایا کہ ’’…اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہی آخرت کا گھر ہے۔‘‘اسی طرح سورہ یوسف میں آیت نمبر ۱۰۰ میں ذکر ہے کہ ’’یقیناً میرے رب نے مجھ پہ احسان کیا‘‘۔ یعنی ایک…

مزید پڑھیں

گوشہ ِتسنیم – قیمتی سرمائے کی حفاظت – ڈاکٹر بشریٰ تسنیم

قوموں کی زندگی میں پیش آنے والے معرکے ہی دنیا کی تاریخ میں اچھا یا برا مقام بنا پاتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے کوئی بھی قوم اپنے کردار کا تعین کرتی ہے۔
دنیا بھر کے تاریخی آثار ہر قوم کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اور ان سے عقل مند لوگ ہی عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کرتے ہیں اور یہی لوگ حالاتِ حاضرہ میں قوم کے راہنما کہلائے جاتے ہیں۔
بحیثیت امتِ مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کا احساس وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے دنیا کی قیادت کی گئی اور اب بھی کی جا سکتی ہے۔
یہ احساس زندہ رکھنا ہی امتِ مسلمہ کے سارے دکھوں کا علاج ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ اور میراث کیسے گنوا دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب نفس پرستی اور بے لگام خواہشات نے دنیا کی زندگی میں مگن کر دیا تو پھر موت سے خوف آنے لگا اور یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسلمان کلمۂ حق سے ناآشنا ہوگئے اور ہر مسلمان ملت کے مقدر کا ستارہ نہ رہا۔
ہر مومن کا دل ایمان کی روشنی سے جگمگاتا ستارہ ہے۔ یہ مومنوں کے دل ہی ہیں جو امتِ مسلمہ کو کہکشاں بنا دیتے ہیں۔
یہ خوبصورت احساس صدیوں کے بعد دوبارہ…

مزید پڑھیں