براہ کرم اس مواد کو دیکھنے کے لئے لاگ ان کریں۔
براہ کرم اس مواد کو دیکھنے کے لئے لاگ ان کریں۔
لفظوں کی ترتیب، لہجے کا اتار چڑھائو، ایک سادہ سے جملے کی ساری بُنَت بدل دیتا ہے۔ جیسے مشہورِ زمانہ کتاب کا عنوان:
‘‘Friends not master’’
اس میں’’not‘‘کو پہلے لفظ کے ساتھ یا بعد والے لفظ کے ساتھ کر دیں تو معنی یکسر بدل جاتے ہیں۔
’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ کو بھی کہنے والا اپنی منشاء کے مطابق استعمال کر سکتا ہے۔
اس کو دوغلی پالیسی بھی کہتے ہیں۔ دوغلی کا مطلب ہے برعکس، متضاد یا دو رُخی پالیسی۔ جس کو منافقت بھی کہا جاتا ہے۔ منافقت لفظ نفق سے ہے اور نفق سرنگ کو کہتے ہیں جس کی دونوں اطراف کھلی ہوتی ہیں۔ چوہے کے بل کو بھی نفق کہا جاتا ہے، اس لیے کہ چوہے کے لیے موقع محل دیکھ کر دائیں یا بائیں کا راستہ اختیار کرنا آسان ہوتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ’’اٹھو مت بیٹھو‘‘ جملے کے درمیانی لفظ کی نشست کا ’’رولا‘‘ کس طرح نمٹایا جائے؟ کہنے والا تو اپنے لیے دونوں طرف کا راستہ کھلا رکھتا ہے۔ نتیجہ اپنے ہی ہاتھ میں رکھتا ہے اور مطیع کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ شاید اسی صورتحال کو کہہ سکتے ہیں’’حکم حاکم مرگ مفاجات‘‘۔
یہ کسی کے ساتھ انتقامی رویہ میں ذہنی اذیت دینا یا بڑے مقصد کے تحت تربیت دینے…
زندگی اپنا آپ دہراتی رہتی ہے ۔ جیسے صبح و شام ، بہار خزاں ، دن رات کا آنا جانا ایک معمول کے ساتھ ہمیشہ سے چل رہا ہے اور ابد تک اس کی گردش چلتی رہے گی ۔بچپن ،جوانی اور بڑھاپا بھی اسی گردش کا نام ہے ۔ بس انسانوں کی شکلیں اور نام بدل جاتے ہیں ۔ آج جو پوتا ہے وہ کبھی دادا بن جائے گا اور جو آج دادا ہے وہ کبھی کسی کا پوتا تھا۔
موجودہ دور میں یہ بات درست ہے کہ باہمی تعلقات میں بہت سے عوامل نے قربت میں پہلے جیسی مٹھاس نہیں رہنے دی ۔ بزرگ تو بعد کی بات ہے اس وقت اولاد اور والدین ، بہن بھائیوں میں بھی والہانہ وابستگی کا فقدان ہے ۔ اس کی وجہ گھر کے ہر فرد کی الگ الگ مصروفیات اوقات کار اور ان میں ترجیحات کے فرق کی وجہ سے مل بیٹھنے کے مواقع کا نہ ہونا ہے ۔ہر گھر میں سارے افراد کسی ایک کام میں مشترک ترجیح متعین کر لیں تو سب کو ایک مشترکہ مصروفیت مل سکتی ہے۔وہ مشترکہ مصروفیت کیا ہو سکتی ہے ہر گھرانے کا الگ انتخاب ہو سکتا ہے۔
کسی بھی گھر میں اگر بزرگ موجود ہوں تو…
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سرزمینِ فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے ، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر بکثرت انبیا ء و رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین میدانِ حشر بھی ہے۔اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ:
’’جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘اس سے مراد ملک شام اور اس کا گردو نواح ہے‘‘ ۔
سریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کے گردونواح کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاءؑ کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے ، حضرت حسن ؓاور حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے۔ عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں :
’’اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے ‘‘۔سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں متعدد مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب…
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سرزمینِ فلسطین نہایت مبارک اور محترم ہے ، یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر بکثرت انبیا ء و رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین میدانِ حشر بھی ہے۔اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر وبرکت والی زمین فرمایا ہے ۔
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ:
’’جس سرزمین کے تعلق سے اللہ عزوجل نے یوں فرمایا ہے ’’بَارَکْنَا حَوْلَہُ‘‘اس سے مراد ملک شام اور اس کا گردو نواح ہے‘‘ ۔
سریانی زبان میں ’’شام ‘‘ کے معنی پاک اور سر سبز زمین کے آتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ملک شام کے گردونواح کو مبارک اس لیے کہا گیا کہ یہ انبیاءؑ کا مستقر، ان کا قبلہ اور نزول ملائکہ اور وحی کا مقام رہا ہے ، حضرت حسن ؓاور حضرت قتادہؓ سے مروی ہے کہ اس مبارک سرزمین سے مراد ملک شام ہے۔ عبد اللہ بن شوذب کہتے ہیں :
’’اس سے مراد سرزمین فلسطین ہے ‘‘۔سرزمین فلسطین کو قرآن کریم میں متعدد مواقع پر بابرکت زمین سے مخاطب…
عموماً ہمارے معاشرے میں احسان کسی کی ایسی نیکی کو کہا جاتا ہے جو ہمیں بوجھ محسوس ہو جس کو سر سے اتارنے کی جلدی ہو یا خود نیکی کر کے جیسے کسی دوسرے کو قرض دیا ہو اور اس کی واپسی کے منتظر ہوں، مثلاً:
’’میں نے اس پہ احسان کیے اور اس نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا‘‘۔
’’میں کسی کے احسان کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی/سکتا’’ یا ‘‘مجھے کسی کے احسان کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
احسان کا لفظ قرآن پاک میں کثرت سے آیا ہے۔لغت میں ’’احسان‘‘ کا معنی حسین بنانا، صناعت میں عمدگی اور اس میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ کی ذات ہی ہے جس نے ہر چیز بنائی اور بہت خوب بنائی۔ (سورہ السجدہ: ۷)
اصطلاح میں ’’احسان‘‘ شرعی مطلوب کو حسین ترین طریقہ سے پیش کرنا ہے۔اس کے علاوہ لغوی معنی کے لحاظ سے احسان، برائی کے مقابل آتا ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الرعد آیت نمبر ۲۲ میں فرمایا کہ ’’…اور وہ برائی کو بھلائی سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے لیے ہی آخرت کا گھر ہے۔‘‘اسی طرح سورہ یوسف میں آیت نمبر ۱۰۰ میں ذکر ہے کہ ’’یقیناً میرے رب نے مجھ پہ احسان کیا‘‘۔ یعنی ایک…
قوموں کی زندگی میں پیش آنے والے معرکے ہی دنیا کی تاریخ میں اچھا یا برا مقام بنا پاتے ہیں۔ اور اسی حوالے سے کوئی بھی قوم اپنے کردار کا تعین کرتی ہے۔
دنیا بھر کے تاریخی آثار ہر قوم کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ اور ان سے عقل مند لوگ ہی عبرت، نصیحت اور سبق حاصل کرتے ہیں اور یہی لوگ حالاتِ حاضرہ میں قوم کے راہنما کہلائے جاتے ہیں۔
بحیثیت امتِ مسلمہ کے جسدِ واحد ہونے کا احساس وہ قیمتی سرمایہ ہے جس سے دنیا کی قیادت کی گئی اور اب بھی کی جا سکتی ہے۔
یہ احساس زندہ رکھنا ہی امتِ مسلمہ کے سارے دکھوں کا علاج ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ قیمتی سرمایہ اور میراث کیسے گنوا دیا؟ حقیقت یہ ہے کہ جب نفس پرستی اور بے لگام خواہشات نے دنیا کی زندگی میں مگن کر دیا تو پھر موت سے خوف آنے لگا اور یہی وہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسلمان کلمۂ حق سے ناآشنا ہوگئے اور ہر مسلمان ملت کے مقدر کا ستارہ نہ رہا۔
ہر مومن کا دل ایمان کی روشنی سے جگمگاتا ستارہ ہے۔ یہ مومنوں کے دل ہی ہیں جو امتِ مسلمہ کو کہکشاں بنا دیتے ہیں۔
یہ خوبصورت احساس صدیوں کے بعد دوبارہ…