نادیہ سیف

نازکی تیرے ڈنک کی کیا کہیے! – نادیہ سیف

برابر کے کمرے سے ہر تھوڑی دیر بعد تالی کی آواز آ رہی تھی….اس نے شکر ادا کیاکہ کم ازکم بڑے بچے تو اپنا دفاع خود کر سکتے ہیں

ہوا ایسی رک گئی تھی کہ جیسے پتہ بھی ہل نہ پا رہا ہو۔حبس کا عالم تھا،اسےکھینچ کھینچ کرسانس لیناپڑ رہا تھا۔وہ کمزور لاچار سی ایک ایسے بوڑھے درخت کے نیچے پڑی ہوئی تھی جس کے ارد گرد پھیلی جڑوں کے اتار چڑھاؤ اس کے جسم میں گڑتے ہوئے تکلیف دے رہے تھے۔ اچا نک کچھ شاخوں نے جادوئی انداز میں نیچے جھکتے ہوئے اسے دبوچ لیا،اتنا کہ اس کا دم گھٹنے لگا….قریب ہی ایک پھنکار سنائی دی تو خوف کے مارے اس کے دیدے پھٹ گئے۔ اور اس نے اپنے جکڑے وجود کو چھڑوانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیے….لیکن پوری طاقت لگانے کے باوجود وہ خود کو آزاد نہ کروا پائی….اور بالآخر سانپ نے اسے ڈس لیا!
اپنے ہی گال پر خود کے زور دار تھپڑ سے اس کی آنکھ کھلی ،جبکہ اصل نشانہ خطا ہو گیاتھا۔
مچھر کی بھن بھن سے بے زار ہو کر اس نے پسینہ صاف کیا۔ آنکھیں پھاڑ کر صورتحال سمجھی اور اپنی گردن سے لپٹا چار سالہ بیٹی کا بازو نکالا ،کندھے پہ رکھا…

مزید پڑھیں

لمبی ہے غم کی شام مگر… – نادیہ سیف

جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف اندھیرا تھا۔اس نے بے ہوشی سے پہلے کا منظر یاد کرنے کی کوشش کی۔اچانک ہلکی ہلکی تلاوت کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی جو غورکرنے پر اسے اپنے بالکل نیچے کی طرف سے آتی محسوس ہوئی۔
’’ کیا ہم شہید ہو کر اجتماعی قبر میں ہیں؟‘‘
’’ شہید بے شک زندہ ہوتے ہیں لیکن ابھی ہمارے حصے کا کچھ کام باقی ہے‘‘۔
حمدان کی آواز نے اسے سب کچھ یاد دلا دیا، کیسے وہ ہاسپٹل میں لائے جانے والے مریضوں اور زخمی بچوں کی وڈیوز بنا رہا تھا کہ اسی دوران قریب ہی ہونے والےدھماکے کے بعد ہونے والی افرا تفری میں حمدان اور وہ تیزی کے ساتھ بھاگنے لگے،عمارتیں گرتی جارہی تھیں۔ جانے کب ڈھیتی ہوئی چھتوں سے بچتے بچاتے،بھاگتے آخر وہ بھی زد میں آ ہی گئےاور انہوں نے اپنے ہوش گنوا دیے۔
’’حمدان….حمدان…. تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’ہاں شاید….ابھی کچھ سمجھ نہیں آ رہا‘‘۔
اوہ میرا کیمرہ ۔
اس نے جلدی سے اپنی کمر اور کندھے کے گرد بیلٹ کو ٹٹولا اور الحمدللہ کہہ کر بڑی کوشش کے بعد خود کو سیدھا کیا۔ جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کرتے ہی اسے ارد گرد کا منظر واضح نظر آنے لگا۔ ایسا لگتا تھا کہ ملبے کا…

مزید پڑھیں