فریحہ مبارک

دعاؤں کی چھاؤں – بتول دسمبر ۲۰۲۰

والدین کی دنیا سے رخصتی کے بعد اولاد کے لیے سب سے بڑا خلا اورمحرومی دعا کا وہ در بند ہو جانا ہے جس کے لیے (بعض روایات کے مطابق) حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدرنبی کی ہستی کو بھی کوہ طور پر خبردار کیا گیا کہ موسٰی اب ذرا سنبھل کر ،تمہاری ماں کا انتقال ہو گیا ہےجو سجدے میں دعا کرتی تھی کہ اے رب اگر موسیٰ سے بھول چوک میں غلطی ہو جائے تو معاف کر دینا !
میری ساس صاحبہ کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال مکمل ہؤا ،لیکن ان کے ساتھ گزرا وقت ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ مجھے سب سے زیادہ ان کی دعاؤں اور شام کے وقت دو گھنٹے کی ان کے ساتھ نشست کہیں، بیٹھک کہیں، محفل کہیں، یا زندگی اور تازگی سے بھرپور روبرو ملاقات جس میں ہم دونوں تازہ دم ہو جاتے تھے ،ان لمحوں کی شدت سے کمی آج بھی محسوس ہوتی ہے،اس دوران میں اپنی ہر مصروفیت چھوڑ دیتی تھی، موبائل آف کر دیتی تھی۔ دن بھر میں میرے لیے یہ ایک خصوصی وقت ہوتا تھا جس کی تیاری میں دو گھنٹے پہلے اپنے کام سمیٹ کر کرتی تھی ۔
اس بیٹھک کی مختصر روداد……دن بھر کے…

مزید پڑھیں

مولا بخش – بتول جون ۲۰۲۲

اب وہ دورگزر چکا ، جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا بچے پٹ کر بھی بالآخر کندن بن کر نکلتے تھے
 
گزرے وقتوں میں بچوں کی زندگی کا ایک اہم ترین واقعہ اس وقت ظہور پذیر ہوتا جب چھ سات برس کی عمر میں روتے مچلتے چیختے چلاتے بچوں کو بڑے بھائی یا چچا ڈنڈاڈولی کرتے ہوئے پہلے روز اسکول لے جاتے ،دن بھر گلیوں میں کھیل کود کا عادی بچہ جب اسکول کی قید اور ماسٹر یا مولوی صاحب کی مار دیکھتا تو قدرتی طور پر ابتدا میں مزاحمت کرتا پہلے روز مولوی صاحب کو ’’شروع کرائی‘‘ نذر کی جاتی اور بچوں میں شیرینی تقسیم کی جاتی۔ رفتہ رفتہ بچہ خود ہی بغل میں بستہ مار کر ہاتھ میں کالی سیاہی کی مٹی کی دوات اور تختی لیے اسکول جانے کا عادی ہو جا تا۔نئے ہمجولیوں کے ساتھ ماسٹر جی کی غیر موجودگی میں خوب شور بر پا رہتا۔
بزرگوں کو وہ پہلی پہلی ماسٹر جی کی مار تو ضرور ہی یاد ہوگی ،جب نا تجربہ کار نئے نئے بچوں کی سیاہی سے بھری دوات میں قلم ڈبونے سے اس میں پڑا پھونسٹراقلم کی نوک میں اٹک کر باہر گر پڑتا اور بچھا ہوا ٹاٹ ،فرش، دیواریں اور ہاتھ پیر…

مزید پڑھیں

تاریخ کی عظیم ہجرت کے سفر پر – بتول جنوری ۲۰۲۳

عید کے لیےخریدی سلیم شاہی جوتیاں گھروں میں رکھی رہ گئی تھیں ،اور نرم و نفیس جوتیاں پہننے والوں کے آبلوں سے خون رس رہا تھا۔کمخواب کے دبیز جوڑے ٹرنک میں دھرے رہ گئے تھے اور دھول مٹی میں غبار آلود پسینہ پسینہ وجود لیے نفوس ایمان کے سہارے منزل کی جانب گامزن تھے
 
تقسیم کے فورا ًبعد تاریخ کی عظیم ہجرت کا عمل شروع ہوچکا تھا۔مسلمان اپنے بھرے پرے گھروں پر حسرت بھری نگاہ ڈال کر آزادی کی حقیقی منزل پاکستان جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے پھر انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ کیا امیر کیا غریب سب کی آرزوؤں کا مرکز اور مٹی پاکستان تھی ۔کچھ علاقوں میں نسل در نسل ساتھ رہنے والے مسلمان اپنے ہندو پڑوسیوں کے بارے میں خوش گمان بھی تھے ،جو غیر جانبدار بنے دم سادھے گھروں میں بیٹھے تھے، البتہ ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں نے قیمتی ساز و سامان زیور نقدی پہلے سے تیار رکھا ہؤا تھا ۔ انھیں اندازہ تھا کہ کسی لمحے بھی ان کے نکلنے کا وقت آ سکتا ہے۔مسلم اکثریت کے بہت سے وہ علاقے بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئے تھےجہاں مسلمان اس اطمینان سے بیٹھے ہوئے تھے کہ اب ہم پاکستان کا…

مزید پڑھیں

چُپ کی قیمت – بتول جولائی۲۰۲۲

گھڑی کی سوئیوں نے چند گھنٹے کی مسافت طے کی تھی!
بارہ گھنٹے پہلے ہم جیل چورنگی اور شہید ملت روڈ کے سنگم پر واقع چیز ڈیپارٹمنٹل اسٹور سے چیک آؤٹ کے بعد باہر بینچوں پر بیٹھے کسی بھی دردناک حادثے کے خیال سے بے نیاز گاڑی کا انتظار کررہے تھے، ماحول کی چہل پہل عروج پر تھی۔
٭ فرنچ فرائز کی مشین سے خوشبو دار بھاپ اڑاتے فرنچ فرائز نکل کر ڈسپوزیبل باکس میں منتقل ہو کر لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ رہے تھے۔
٭ گول گپے کے اسٹال پر خواتین اور بچوں کا اشتیاق دید نی تھا۔
٭ زم زم ڈرنکس کے ٹھنڈے ٹھار دھواں اڑاتے مشروبات کا کرشمہ ہر ایک کی توجہ کا مرکز تھا۔
٭ سامان دنیا سے لدی پھندی ٹرالیاں دھکیلتے لوگ اسٹور کے سرد ماحول سے خوش گوار موڈ میں باہر نکل رہے تھے۔
مناظر پردہ ذہن پرمزید پیچھے کی جانب سفر کرنے لگے۔جب میں اندر موجود تھی۔ عطریات کے کاؤنٹر پر موجود یمنی عقیق کی بیش قیمت تسبیح کے بڑے خوبصورت دانوں میں سامنے کا پورا عکس نظر آرہا تھا۔جسے دیکھنا ایک دلچسپ تجربہ تھا ۔
مہنگے پرفیوم، عربی عطر، شیشے کے نازک برتنوں کے قطار اندر قطار لگے طویل ریکس کے اختتام پر جلی حروف میں بورڈ آویزاں تھے۔
’’…

مزید پڑھیں

اک آگ کا دریا تھا! آگ اور خون سے عبارت سچی داستانِ آزادی – بتول اگست ۲۰۲۲ – فریحہ مبارک

ہماری نانی جان جنھیں ہم بڑی محبت اور دلار سے بڑی امی کہہ کر پکارتے تھے ، اسکول کی دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے ان کے پاس سرگودھا رہنے جاتے۔
کبھی کبھی گھر کے کاموں میں بظاہر مصروف بڑی امی کی خوبصورت آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ۔ کبھی کسی خاص موسم کو دیکھ کر ، کسی خاص پکوان کو تیار کرتے ہوئے۔ اس کی خوشبو میں شاید کسی کی یادیں چٹکیاں لیتی تھی ۔کبھی بچوں کو ان کے اپنے بچپن کے تانبے اور پیتل کے برتنوں سے’’ آپا بوا‘‘کے کھیل میں منہمک دیکھ کر ان کے ضبط کے بندھن ٹوٹ جاتے ۔ان کے شوہر، بیٹیاں اور بیٹا جان جاتے کہ پریشانی کیا ہے۔موسم کے رنگوں،پکوان کی خوشبو ،مخصوص کھیل کے تانے بانے کہاں سے جا کر ملتے ہیں ۔وہ سب ان کی دلجوئی کی خاطر جمع ہو جاتے۔تسلیاں دیتے ،دل بہلاتے لیکن ان کی طبیعت کسی غم کے بوجھ تلے دبی سسکتی رہتی۔
کبھی بے کلی کے ان لمحات میں وہ اپنی ایک پرانی کتاب کا ورق کھول کر کافی دیر اسے دیکھتی رہتیں ۔اس میں جذب اور گم ہو جاتیں ۔ آنکھوں سے آنسو قطاراندر قطار بہتے چلے آتے ،پھر وہ اس میں سے ایک پیاری سی چھوٹی سے…

مزید پڑھیں

اک آگ کا دریا تھا دو اعلانات یا ہوا کے تاز ہ جھونکے – بتول دسمبر۲۰۲۲

مہاجر کیمپ میں گمشدہ افراد کے اعلانات کا سلسلہ تقسیم کے کئی ماہ بعد تک جاری رہا۔سر شام لوگ ریڈیو کے قریب بیٹھ جاتے ۔اپنوں کی خبر سننے کے لیے پورا وجود کان بن جاتا ۔جب امید کے سارے در ایک ایک کر کے بند ہونے لگے تو اچانک ایک دن ریڈیو پاکستان سے بڑی امی کے والد صاحب کی سلامتی کی خبر نشر ہوئی۔ اعلان بار بار دہرایا جارہا تھا۔یہ اعلان کیا تھا، جدائی کے صدمات سےچور دلوں کے لیے مرہم اور ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہؤا اور امید بندھ گئی کہ شاید پورا گھرانہ ہی بچ گیا ہو۔
نانا جی نے ملاقات پر منیا کو گھر سے لے جانے کی ادھوری داستان کو وہیں سے جوڑتے ہوئے کرب انگیز لہجے میں کمال ضبط سے ٹھہر ٹھہر وہ ساری بپتا کہہ سنائی، جس کے بعد ہر سننے والے کے دل میں یہ خواہش ابھری کہ کاش یہ داستان ادھوری ہی رہتی!
انھوں نے بتایا کہ جب وہ سب لوگ بڑی امی کی بیٹی کی پیدائش پر مبارک باد دینے گھر آئے اور بڑی امی کی بہن یعنی اپنی سب سے چھوٹی بیٹی منیا کو ساتھ لے کر گھر کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں حالات کچھ غیر معمولی محسوس…

مزید پڑھیں