یہ میرے ماموں مرحوم کا تذکرہ ہے جس میں بہت سی باتیں میں ان کے بیٹے سے سن کر انہی کی زبانی لکھ رہی ہوں(ع۔ز)
آدھی رات بیت چکی ہے، آسمان پر چاند بھی آدھا ہی نظر آ رہا ہے۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے ہلکی سی چاندنی میں دور تک نظر آنے والا ہر منظر اداسی کی چادر اوڑھےہوئے ہے۔ میری آنکھیں غیر مانوس بےخوابی کی وجہ سے جل رہی ہیں۔ میں جلدی سونے کا عادی ہوں مگر آج نیند آنکھوں سے کوسوں دور ہے۔ بچپن سے لے کر اب تک کی تمام یادیں باری باری ذہن پر دستک دے رہی ہیں۔ سرزمینِ حجاز ، اور مدینہ میں ہماری یہ آخری رات ہےاور دل کی بے کلی ہے ،کہ ہر لمحے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔
تمام مخلوقات میں انسان کس قدر خوش قسمت ہے! اس کے پاس، ماں ،باپ، بہن، بھائی، بیوی یا شوہر، بچے، یہ تمام خوبصورت رشتے موجود ہوتے ہیں جو اس سے بےپناہ محبت کرتے ہیں۔ اس کی خوشی میں خوش اور تکلیف میں مضطرب ہوتے ہیں۔ اس کی ترقی کے لیے دعا کر تے ہیں۔ اس کی ہر طرح سے مدد کرتے ہیں اور اس کے خیر خواہ ہو تے ہیں۔ کبھی وہ تھکنے لگے یا…
وہ کراچی کا ایک گنجان آباد علاقہ تھا۔
چھوٹی چھوٹی گلیوں پر مشتمل درمیانے طبقے کی آبادی تھی۔ انہیں میں سے ایک گھرانہ فوزیہ کا تھا۔
’’چلو آ جائو، جلدی سے سب لوگ ناشتہ کر لو۔ پھر کہیں گے چائے ٹھنڈی ہو گئی‘‘فوزیہ کی اماں نے روز کی طرح صدا لگائی۔
یہ ناشتہ صرف دو چیزوں پر مشتمل ہوتا۔ کبھی کبھار اگر رات کا سالن بچا ہؤا ہو تو اور بات ہوتی۔ ورنہ پتیلی بھر چائے میں اماں ایک پاؤ دودھ ڈال کر ابال دیتیں جو دوسری مرتبہ گرم ہو جائے تو مزید گہرے رنگ کی ہو جاتی۔ اس کے ساتھ اماں کے ہاتھ کے پراٹھے۔ ہاں پراٹھوں پر اماں کبھی سمجھوتا نہیں کرتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صبح کا ناشتہ پیٹ بھر کھا کر ہی گھر سے باہر نکلنا چاہیے، تبھی بندہ دن بھر توانا رہتا ہے۔ وہ گرما گرم سرخ اور خستہ پراٹھے بناتیں جن کو چائے سے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا۔ ایسے میں اس پتلی اور گہرے رنگ والی چائے کی کلفت بھی دور ہو جاتی۔
فوزیہ کے ابو کسی سبزی والے آڑھتی کے پاس نوکر تھے۔ اس لیے انہیں صبح تڑکے ہی سبزی منڈی جانا پڑتا۔ اور جب شام میں واپسی ہوتی تو کوئی سبزی ساتھ…