حریف – بتول نومبر۲۰۲۰
عربی زبان کا ایک محاورہ ہے’’ الاشیاء تعرف باضدادھا‘‘ چیزیں اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں ۔ جیسے روشنی اندھیرے سے ، دن رات سے ، میٹھا کڑوے سے ، سرد گرم سے ، نرم سخت سے ، بلندی پستی سے،خیر شر سے ، حتیٰ کہ خوشی کا احساس بھی اس لیے ہوتا ہے کہ غم موجود ہے۔اربابِ منطق کا مسلمہ قاعدہ ہے کہ قضیہ کا عکس لازم اور صادق ہوتا ہے ۔
درکار خانہ عشق از کفر نا گزیر است
دوزخ کرابسوزدگر بولہب نباشد
سائنس کہتی ہے کہ مخالف قوتوں میں کشش ہوتی ہے ۔ جیسے مقناطیس کے قطب۔ جیسے بجلی میں الیکٹرون کا بہائو ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہاتھ تبھی باہم ملتے ہیں جب مخالف سمتوں میں ہوں ۔ گرہ بھی تب ہی بندھتی ہے جب دونوں سرے آمنے سامنے ہوں ۔ دیکھا جائے تو زندگی کی ہمہ ہمی ، رنگینی اور دلچسپی اسی اختلاف میں ہے ۔ یکسانیت سے طبع مضمحل ہو جاتی ہے۔
گل ہائے رنگ رنگ سے ہے زینت ِ چمن
اے ذوقؔاس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے
لیکن جہاں ہر متضاد شے دوسرے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے اور ان میں ایک قسم کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے ، وہاں جب بات مرد اور عورت کی…