ام ایمان

سویٹر ۔ ام ایمان

خیمے کے اندر کوئی نہیں تھا….یہ خالی تھا ۔
یہ بھی عجیب خیمہ تھا ،ارد گرد کے تمام خیموں سے بالکل مختلف۔ یہاں کے باسی روز کے حساب سے بدلتے رہتے تھے ۔کبھی بہت سارے ہو جاتے کبھی بہت کم اور کبھی کبھی خیمہ بالکل خالی ہو جاتا تھا جیسا کہ ابھی تھا۔
خزیمہ نے خیمے کا پردہ اٹھا کر جھانکا تو حیران ہو گیا۔ صبح کی نماز تک تو خالی تھا ….یہ کیسے اور کب آئی؟
او ہو…. میں بھی غلط بات کہتا ہوں ۔یہ خود سے کیسے آ سکتی ہے! اسے تو کوئی لایا ہی ہوگا…. لیکن لانے والا کہاں ہے؟ اس کے ساتھ کوئی کیوں نہیں؟ خزیمہ نے حیرانی سے سوچا پھر خیمے کے باہر آ کر بھی ادھر ادھر دیکھا ،کوئی نہ تھا۔ وہ پھراندر چلا گیا۔
یہ ایک معصوم بچی تھی جس کی گلابی چادر خون آلود تھی۔ اس نے چادر ہٹائی ،معصوم بچی کی عمر چند ماہ سے زیادہ نہ ہوگی۔ ہلکے سے رنگ کاکرو شیےکا سویٹر پہنے جس کے اوپر چند حروف کاڑھے گئے تھے….عفام! اس نے زیر لب دہرائے۔
عفام…. !
بچی پرسکون سے چہرے کے ساتھ ایسے نظر آرہی تھی جیسے گہری نیند میں ہو۔ خزیمہ نے آہستہ سے اس کے گالوں کو چھوا ….سرد ،لیکن نرمی…

مزید پڑھیں

پانچویںٹرین – بتول نومبر۲۰۲۰

وہ ریلوے اسٹیشن کے بینچ پر بیٹھی تھی۔سامنے سے ریل گاڑی تیزی سے شور مچاتی گزری گھڑ گھڑ گھڑ دھڑ دھڑ دھڑ … وہ محویت سے ریل گاڑی کو دیکھ رہی تھی ۔ یہ ریل گاڑی اسٹیشن پر رکی نہیں بسذرا سی ہلکی ہوئی ۔ اتنی ہلکی کہ روشانہ کو کھڑکیوں سے جھانکتے لوگ صاف طور پر نظر آئے کسی کھڑکی سے کوئی ماں اور بچے جھانک رہے تھے اور کسی سے مرد … اکثر اسے ہاتھ ہلا رہے تھے۔
نہیں وہ اسے ہاتھ ہلا کر خدا حافظ تھوڑی کہہ رہے تھے ۔ خدا حافظ تو جان پہچان والے ایک دوسرے کو کہتے ہیں ۔ روشانہ نے سوچا ان کی اور میری کون سی جان پہچان ہے ۔ یہ ریل گاڑی کے مسافر ہیں اور میں اس کے لیے ابھی انتظار کر رہی ہوں۔یہ تو ان ہوائوں فضائوں اسٹیشن کے ہر ذی روح کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں کہ تم ابھی یہاں ہی رہو ہم آگے روانہ ہو رہے ہیں۔
تیزی سے چلتی ریل گاڑی کا آخری ڈبہ گزر گیا روشانہ نے دور جاتی ریل گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے بڑے چھوٹے نکتے میںتبدیل ہوتی جا رہی تھی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی یوں محسوس ہو گا کہ گویا…

مزید پڑھیں

سات دن – بتول جون ۲۰۲۲

کراچی شہر میں آباد ہوئے انہیں عشروں کا عرصہ گذر چکا تھا ۔
ابتدا میں جب وہ یہاں آئے تھے تو پلے میں کچھ ہی روپے تھے۔ اسٹیشن کے قریب ایک نچلے درجے کے ہوٹل میں ایک چھوٹا کمرہ کرایہ کا لیا۔کمرے کے ساتھ غسل خانہ نہیں تھا وہ باہر مشترکہ تھا آج کے عبد الصمد صاحب نے کل اس بات کو محسوس ہی نہیں کیا ۔پلے جو پیسے تھے انہیں بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنا تھا ۔
دو دن تو سوچ بچار میں ہی لگائے ۔
اسٹیشن کے ہوٹل سے نکل ادھر اُدھر آوارہ گردی کی لوگوں کو دیکھا پرکھا راستوں کو جانا صبح کا ناشتہ گول کر کے دوپہر کو بارہ بجے چھپر والے ہوٹل میں بیٹھ جاتے ۔ اور پیٹ پوجا کر کے دوبارہ ہوٹل کے تنگ کمرے کا رخ کرتے۔
کچھ دیر قیلولہ کرتے اور ذرا دھوپ کے ڈھلتے ہی دوبارہ باہر کارخ کرتے۔ سڑکیں ناپتے ہوئے کبھی کسی فٹ پاتھ پربیٹھ جاتے ۔ زن زن جاتی گاڑیوں کو دیکھتے ہوئے چکرآنے لگتے تواٹھ کھڑے ہوتے۔ کسی دوکان میں اے سی چل رہا ہوتاتوضرور شوق میں داخل ہوتے ۔ کچھ نہ لینا ہوتا لیکن پھر کچھ چیزوں کی قیمتیں معلوم کرکے کچھ ٹھنڈی ہوا کی سانسیں لے کر باہرنکل…

مزید پڑھیں

ملاقات – بتول جون ۲۰۲۳

جس طرح بند کمرے کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے پتہ چل جاتا ہے کہ باہر دن نکل آیا ہے اسی طرح چھوٹی چھوٹی باتوں سے آدمی کاکردار بے نقاب ہوجاتا ہے ۔
ساجدہ ماسی کا حال کچھ ایسا ہی تھا جہاں کام کرتی وہاں کے لوگ اس کو چھوڑ کردوسری ماسی رکھنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ہاں اگر وہ خود گاؤں جانے کا ارادہ کرلے جو کہ ہر سال ہی کر لیتی تھی تو کسی کے روکے نہ رکتی ۔ جہاں جہاں کام کرتی تھی ….وہاں وہاں کے لوگ مجبوراً کسی دوسری ماسی کو رکھ تو لیتے لیکن دل سے اس کے جلد آنے کی دعائیں کرتے ….واقعی اچھامدد گار بھی تو اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے خاص طور سے خواتین کے لیے…. اُن میں سے بھی خاص اُن خواتین کے لیے جو جاب کرتی ہوں ۔
ساجدہ کی ایک باجی صبح بچوں کو اسکول بھیج کر نکلتی تو ساجدہ آ چکی ہوتی ۔ وہ اسے چھوڑ کر نکل جاتیں ، اس قدر اعتماد تھا ۔ ساجدہ سارے گھر کی صفائی کے ساتھ باورچی خانہ صاف کرتی برتن دھو کر روٹی پکاتی اورپھر باہر کا دروازہ بند کر کے چلی جاتی۔ لاک اندر سے بٹن دبا کر بند…

مزید پڑھیں