اُس کے شب و روز – الطاف فاطمہ
سالگرہ تو ایک چھوٹے سے بچہ کی تھی ، لیکن تفریح اور محفل بڑوں کی تھی ۔ بچے تو ایک بڑے سے بادبانی جہاز نما کیک پر جلتی ہوئی چار ننھی شمعوں کے گرد کھڑے ہو کر اپنی ننھی ننھی توتلی زبانوں اور چمچماتی ہوئی آنکھوں سے مسکراتے ہوئے سالگرہ مبارک کا نغمہ گا کر اور اپنے حصہ کی مٹھائی اور پیسٹریاں وغیرہ اُڑا کر لان کے دوسرے سرے پر کھیلنے کودنے لگے تھے اور بالکل چھوٹے بچے اپنی آیائوں یا امائوں کے آنچل تھام کر کھڑے ہو گئے تھے ۔
اب محفل پر بڑے چھائے ہوئے تھے ۔ ہر طرف قہقہے اور ہنسیاں تھیں ۔ کوکا کولا کے کریٹ پر کریٹ کھل رہے تھے اور لڑکیاں اور بعض بیگمات ہنس ہنس کر لٹکے ہوئے غبارے اور کریکرز اُچھل اُچھل کر اُتارنے اور ان کو پھاڑنے میں مصروف تھیں اور پھر اس طوفان کے تھمنے کے بعد مختلف میزوں پر گانے اور پارٹی گیمز کے پروگرام بنتے اور بگڑتے رہے۔
لیکن میری میز سے کچھ فاصلے پر ایک نسبتاً الگ تھلگ بیٹھی ہوئی لڑکی ان میں سے کسی چیز میں بھی حصہ نہیں لے رہی تھی ۔ ایک خاموش تماشائی کی طرح اپنی ہتھیلی پر اپنا گال ٹکائے سب کو دیکھ رہی…