آمنہ رومیصا زاہدی

تری وادی وادی گھوموں – بتول نومبر۲۰۲۰

صبح آنکھ کھلی تو غیر معمولی سناٹا تھا… بچےbug collection kit پر جھکے بغور کچھ دیکھنے میں مصروف تھے۔چھوٹی بیٹی نے بتایا۔
’’ امی وہ جو بڑا کیڑا تھا ناں… بے چاری چھوٹی بگ(bug ) کو مار کے کھا گیا… حالانکہ اس کو پتے بھی دیے تھے کھانے کے لیے…‘‘
’’ارے سلامہ وہ تمہاری طرح ویجیٹیرین ( Vegetarian ) نہیں تھا‘‘ بھائی صاحب نے سمجھایا لیکن غم کسی طرح کم نہیں ہو رہا تھا۔
’’ ارے تمہارے ابو کہاں گئے؟‘‘ ہم نے کیڑے کے سوئم فاتحہ سے بچنے کے لیے موضوع بدلا۔
’’ ابو تو صبح صبح چلے گئے آج تو چشمے پہ جانا تھا‘‘
’’اچھا آپ لوگ تیار تو ہو جائیں… آتے ہی ہوں گے‘‘۔
بلوچستان میں پانی بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ صرف قلعہ سیف اللہ والی سڑک ایسی تھی کہ وہاں ہم نے ہر پانچ دس منٹ کے فاصلے پر ٹیوب ویل لگے دیکھے۔ ان کے ساتھ حوض بھی بنے ہوتے تھے اور جہاں پانی وہاں باغات اور کھیت بھی خوبصورتی بڑھا رہے ہوتے ہیں۔ اس روٹ کو نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے این ففٹی ( N-50) کا نام دیا ہے۔ مسلم باغ بھی اسی روٹ پر ہے جہاں سردیوں میں ہم نے برف باری کے مزے بھی لوٹے۔ یہ برف باری…

مزید پڑھیں

زمانے بھر کے غم اور اک ترا غم! – بتول جون ۲۰۲۳

کام والیوں کے قصے سننا اور سنانا خواتین کے پسندیدہ مشاغل میں سے ایک ہے۔ ہمارے گھروں کا نظام کچھ اس طرح ان گھریلو ملازمین پر منحصر ہے کہ ان کے بغیر گھر چلانے کا تصور بھی بہت مشکل لگتا ہے۔ ان کام والیوں کی کئی قسمیں ہیں۔ کچھ گشتی ماسیاں ہیں کہ محلے بھر کے پھیرے لگا کر’کھلا‘ کام کرتی ہیں۔ اگر آپ کو بھاگتے چور کی لنگوٹی پکڑنے کا کچھ تجربہ ہے تو آپ ان سے اچھا کام کروا سکتی ہیں۔ کچھ ’بندھا‘ کام کرتی ہیں یعنی سارا دن آپ کے گھر میں ہی ہوتی ہیں اور جو کام گشتی ماسیاں چند منٹوں میں کر کے چلتی بنتی ہیں یہ وہی کام صبح سے شام تک کرتی رہتی ہیں۔
پہلے زمانے میں محلے کی سنسنی خیز خبریں ادھر سے ادھر کرنے کا فریضہ بھی یہی کام والیاں انجام دیا کرتی تھیں۔ ہماری کام والی کو واٹس ایپ ایجاد کرنے والے پہ کافی غصہ ہے کہ اب سب باجیوں نے بھی مل کے ’’کام والی گروپ‘‘ بنا لیا ہے۔ مثال کے طور پہ ایک گروپ شہناز ماسی کے نام پہ بنا لیا اور اس میں وہ سب خواتین شامل ہیں جن کے گھر شہناز ماسی کام کرتی ہے۔ ایک گروپ…

مزید پڑھیں

ہلکا پھلکا – حیدرآبادی چٹکلے – آمنہ رمیصا زاہدی

حیدرآباد دکن سے ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑا ان میں ایک یہ بھی تھا کہ یہاں آتے ہی لوگ ان کا شین قاف درست کروانے میں جت گئے۔ متاثرین میں ہمارا خاندان بھی شامل تھا۔
سکول میں ہماری بلند خوانی پر دبی دبی ہنسی سنائی دیتی تھی اور ہماری چھوٹی بہن سے تو سہیلیاں فرمائش کرتیں کہ بولو’’قرطبہ کا قاضی‘‘ اور وہ جھوم کے کہتی’’خرطبہ کا خاضی‘‘ تو سب کے کھلکھلا نے کی وجہ ہمیں کبھی سمجھ نہیں آتی تھی۔ لیکن چونکہ بچپن سے بغیر کسی وجہ کے خوش رہنے کی عادت ہے تو وجہ تلاش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ہماری ایک دوست کہتی بولو’’کائد اعظم‘‘، دو نکتوں والی بڑی کاف سے ’’کائد اعظم‘‘ اور ہم کہتے کیوں؟ جب ہمیں پتہ ہے کہ خائد اعظم ہوتا ہے تو کیوں کائد اعظم بولیں. وہ جھلا کے کہتی نہیں کائد اعظم …. کائد اعظم…. مگر جناب ہمیں اپنے حق پر ہونے کا اتنا یقین تھا کہ ہم بڑی خوداعتمادی سے کہتے خائد اعظم…. خائد اعظم! اور دل ہی دل میں ان معصوموں کی حالت پر ترس کھا رہے ہوتے تھے کہ ان لوگوں کو کتنی شرمندگی ہوگی جب صحیح تلفظ…

مزید پڑھیں

غزل – بتول اگست ۲۰۲۱

غزل
ہم سفر پھر نئے سفر میں ہیں
ہم اسی آرزو کے گھر میں ہیں
حالِ دل کی خبر نہ پھیلا دیں
وہ جو بے تابیاں نظر میں ہیں
بیش قیمت ہیں ہر گہر سے وہ
سچے موتی جو چشمِ تر میں ہیں
غم نہ کر ان دیوں کے بجھنے پر
ساعتیں چند اب سحر میں ہیں
حوصلوں کو کمک بھی پہنچے گی
قافلے اب بھی رہگزر میں ہیں
[آمنہ رُمیصا زاہدی]
 
غزل
آنکھیں جلتی رہتی ہیں
تنہائی میں بہتی ہیں
فرقت کے غم سارے یہ
چپکے چپکے سہتی ہیں
چاہت کے سب افسانے
تاروں سے یہ کہتی ہیں
ملن کی آس میںراہوں کو
ہر دم تکتی رہتی ہیں
یادوں کے موتی انمول
دامن میں یہ بھرتی ہیں
فلک تلک جو جاتا ہے
اُس رستے کو تکتی ہیں
جو تقدیر کا مالک ہے
اس کی رضا میں راضی ہیں
شاہدہ اکرام سحرؔ

مزید پڑھیں