ابتدا تیرے نام سے – بتول اگست ۲۰۲۴
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں
قارئین کرام!سات اکتوبر کو جبکہ افغانستان پر ناٹو کے حملے کو پورے بیس برس ہورہے ہیں، یہ خوش آئند بات ہے کہ افغانستان کی سرزمین نہ صرف حملے کی اس بیسویں سالگرہ پردشمن کے ناجائز قدموں سے پاک ہے بلکہ اب ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پہ وہاں عبوری حکومت کے اعلان کے بعد قدم بہ قدم حالات کو معمول پر لانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ بیالیس سالہ بدامنی، جنگ، قتل و غارت گری، تباہی اور بربادی کے بعدبہت ہمت چاہیے اس تھکن کو ایک طرف رکھ کے تعمیر نو کرنے میں، ایک عرصہ چاہیے نارمل زندگی کی طرف آنے میں۔اس ملک اور اس کے رہنے والوں پر جو گزری، سب کچھ بھلایا نہیں جا سکتا البتہ صبر کیا جا سکتا ہے مگر صبر کا مرہم کارگر ہونے کے لیے بھی وقت چاہیے۔ ابھی کچھ دن لگیں گے! دل ایسے شہر کے پامال ہوجانے کامنظر بھولنے میں
۲۰۱۱کے جلسے کے بعد عمران خان صاحب کی سیاسی مقبولیت کا گراف بڑھنے لگا تھا۔ انہوں نے ایک کے بعد ایک جلسے کرنے شروع کیے جن میں وہ سیاسی میدان کے حریفوں پربلند آہنگ تنقید کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے ان کے بیانات اور انٹرویوز میں دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی پالیسی پرکڑی تنقید حاوی ہوتی تھی۔ مگر مزے کی بات یہ کہ جس اسٹیبلشمنٹ کو سید منور حسن کا بولا ہؤا سچ گوارا نہیں ہؤا تھا، اس کو عمران خان کی اس تنقیدسے کبھی کوئی مسئلہ نہ ہؤا۔اس پر فریقین میں سے کس کو داد دینی چاہیے اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔بہر حال اپنے سیاسی کیریئر کے اس اہم دور کے آغاز پر خان صاحب نے دونوں بڑی پارٹیوں پر جے یو آئی اور ایم کیو ایم سمیت کھلم کھلا تنقید شروع کی۔ ان کی تنقید کا محوران سیاسی عناصر
محترم قارئین سلام مسنون! اپریل میں مئی کی اور مئی میں جون کی گرمی سہنے کے بعد اب جون میں کیا گزرے گی، یہ دیکھنا ہے۔کرونا کے بعد پہلے حج کی آمد ہے۔بیت اللہ کی رونقیں بحال ہوں گی، لبیک کی صدائیں گونجیں گی، عشاق کے قافلوں کی مانوس گرد اڑے گی،مکہ مدینہ کی ویرانیاں چھٹ جائیں گی، دعاؤں سے فضائیں معمور ہوں گی،صفا مروہ بانہیں پھیلائیں گے، صحرااپنا دامن کشادہ کردے گا،میدان عرفات سجے گا، مزدلفہ کا بچھونا آراستہ ہوگا،، منیٰ کی بستیاں بس جائیں گی اور ہر طرف شمعِ توحید کے پروانوں کا راج ہوگا، الحمدللہ۔ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا بسایا ہؤاوہ خطہ جس کوہمارے نبیِ رحمتﷺ نے دوبارہ توحید کا مرکز بنایا۔ عرب جس پہ صدیوں سے تھا جہل چھایا پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا ملکی
دعا یہ ہے وطن میرے ! اجالا امن و راحت کا تری ساری شبوں میں ہو محبت کی ضیا بکھری ہوئی سب راستوں میں ہو دعا یہ ہے وطن میرے! خدا رکھے گا خود تجھ کو مگر میری تمنا ہے وسیلہ میرے جسم و جاں بنیں تیری حفاظت کے مرے دستِ ہنر سے تیرے سب گیسو سنور جائیں مرا ذہنِ رسا تیرا مقام آفاق پر ڈھونڈے ان آنکھوں میں جو ساون ہے ترے صحرائوں پر برسے بدن میں جولہو ہے منتقل تیری رگوں میں ہو دعا یہ ہے وطن میرے! کوئی ضرب ِعدو میں دست و بازو پر ترے دیکھوں تو میری آنکھ جل تھل روح بوجھل ہونے لگتی ہے بگولے نفرتوںکے بستیوں میں گھومتے پائوں تو سچ مانو کہ طاقت سوچ کی شل ہونے لگتی ہے اندھیرے چھانٹ کر گلیوں میں تیری روشنی بھر دوں تمنا ہے سکت اتنی تو میرے بازئووں میں ہو دعا یہ ہے وطن میرے!
قارئین کرام سلام مسنون! عیدالفطر ملک کے لیے امید افزا خبروں کے انتظار اور بری خبروں کے دھڑکے میں گزری۔ سیاسی منظرنامے پر ہنوز زبردست ڈیڈ لاک چھایا ہؤا ہے۔ انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آرہی۔بلکہ اعلیٰ عدلیہ بھی اپنے اس فیصلے کی پیروی کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔حالانکہ جس جرأتِ رندانہ سے کام لے کر یہ فیصلہ کیا گیا تھا، اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک بار پھر اسی نعرہِ مستانہ کی ضرورت تھی۔اختیارات کے مناصب پر مامور افراد کے فیصلے قوموں کی تقدیر بنا یا بگاڑ جاتے ہیں۔ ایک بزدل فیصلہ قوم پرلامتناہی بدقسمتی مسلط کردیتا ہے تووہیں بے خوفی کے ساتھ کیا گیاایک جرأت مندانہ اقدام یکایک روشن مستقبل کی نوید بن جایا کرتا ہے۔سقوطِ مشرقی پاکستان کی تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہےجب سیاسی وعسکری قیادت اور عدلیہ کی سطح پرایک بھی مخلصانہ
یہ مواد صرف سبسکرائبرز کے لیے ہے براہ کرم اس مواد کو انلاک کرنے کے لیے سبسکرائب کریں۔ سالانہ Rs 1500 / year پلان حاصل کریں ماہانہ Rs 150 / month پلان حاصل کریں