ڈاکٹر صائمہ اسما

ابتدا تیرے نام سے – بتول اکتوبر ۲۰۲۱

قارئین کرام!سات اکتوبر کو جبکہ افغانستان پر ناٹو کے حملے کو پورے بیس برس ہورہے ہیں، یہ خوش آئند بات ہے کہ افغانستان کی سرزمین نہ صرف حملے کی اس بیسویں سالگرہ پردشمن کے ناجائز قدموں سے پاک ہے بلکہ اب ایک آزاد اور خود مختار ملک کے طور پہ وہاں عبوری حکومت کے اعلان کے بعد قدم بہ قدم حالات کو معمول پر لانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ بیالیس سالہ بدامنی، جنگ، قتل و غارت گری، تباہی اور بربادی کے بعدبہت ہمت چاہیے اس تھکن کو ایک طرف رکھ کے تعمیر نو کرنے میں، ایک عرصہ چاہیے نارمل زندگی کی طرف آنے میں۔اس ملک اور اس کے رہنے والوں پر جو گزری، سب کچھ بھلایا نہیں جا سکتا البتہ صبر کیا جا سکتا ہے مگر صبر کا مرہم کارگر ہونے کے لیے بھی وقت چاہیے۔
ابھی کچھ دن لگیں گے!
دل ایسے شہر کے پامال ہوجانے کامنظر بھولنے میں
جہانِ رنگ کے سارے خس و خاشاک سب سرو و صنوبر بھولنے میں
ابھی کچھ دن لگیں گے!
پاکستان کے لیے بھی صورتحال کچھ کم نازک نہیں ہے۔ باوجود اس کے کہ پاکستان اس ناجائز جنگ میں اپنے مفادات کے خلاف جاکر امریکہ کا اتحادی بنا،جبکہ ہمیشہ اس دوران بھی پاکستان کا یہ موقف رہا…

مزید پڑھیں

سیاسی دَہَن بگڑنے کی کہانی – بتول جون ۲۰۲۲

۲۰۱۱کے جلسے کے بعد عمران خان صاحب کی سیاسی مقبولیت کا گراف بڑھنے لگا تھا۔ انہوں نے ایک کے بعد ایک جلسے کرنے شروع کیے جن میں وہ سیاسی میدان کے حریفوں پربلند آہنگ تنقید کیا کرتے تھے۔ اس سے پہلے ان کے بیانات اور انٹرویوز میں دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی پالیسی پرکڑی تنقید حاوی ہوتی تھی۔ مگر مزے کی بات یہ کہ جس اسٹیبلشمنٹ کو سید منور حسن کا بولا ہؤا سچ گوارا نہیں ہؤا تھا، اس کو عمران خان کی اس تنقیدسے کبھی کوئی مسئلہ نہ ہؤا۔اس پر فریقین میں سے کس کو داد دینی چاہیے اس کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں۔بہر حال اپنے سیاسی کیریئر کے اس اہم دور کے آغاز پر خان صاحب نے دونوں بڑی پارٹیوں پر جے یو آئی اور ایم کیو ایم سمیت کھلم کھلا تنقید شروع کی۔ ان کی تنقید کا محوران سیاسی عناصر کی کرپشن، منی لانڈرنگ،سیاسی فاشزم، امریکہ اور بھارت کی خوشنودی کی طلب،اور برا طرز حکومت تھا۔ اس تنقید میں وہ ان جماعتوں کے لیڈروں کے نام لے کرللکارا کرتے تھے۔ یعنی او فلاں ں ں۔۔۔۔
ان کے اس برہنہ (Brazen)اندازِ گفتگو کو ابتدا میں حیرت بھری ناگواری سے دیکھا گیا، کیونکہ…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول جون ۲۰۲۲

محترم قارئین سلام مسنون!
اپریل میں مئی کی اور مئی میں جون کی گرمی سہنے کے بعد اب جون میں کیا گزرے گی، یہ دیکھنا ہے۔کرونا کے بعد پہلے حج کی آمد ہے۔بیت اللہ کی رونقیں بحال ہوں گی، لبیک کی صدائیں گونجیں گی، عشاق کے قافلوں کی مانوس گرد اڑے گی،مکہ مدینہ کی ویرانیاں چھٹ جائیں گی، دعاؤں سے فضائیں معمور ہوں گی،صفا مروہ بانہیں پھیلائیں گے، صحرااپنا دامن کشادہ کردے گا،میدان عرفات سجے گا، مزدلفہ کا بچھونا آراستہ ہوگا،، منیٰ کی بستیاں بس جائیں گی اور ہر طرف شمعِ توحید کے پروانوں کا راج ہوگا، الحمدللہ۔ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کا بسایا ہؤاوہ خطہ جس کوہمارے نبیِ رحمتﷺ نے دوبارہ توحید کا مرکز بنایا۔
عرب جس پہ صدیوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رخ ہوا کا
ملکی حالات کی بے یقینی بدستور باقی ہے۔ سب کی نظریں انتخابات پر تھیں مگر اعلان یہ ہؤا کہ حکومت مدت پوری کرے گی۔ معیشت سنبھالی نہیں جارہی اور جہاز بھر بھر کر بیرونی دورے جاری ہیں۔ بجلی کا شارٹ فال مزید بڑھ جانے سے شدید لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے، اوپر سے یونٹ کی قیمت بھی بڑھا…

مزید پڑھیں

وطن کا گیت – بتول اگست۲۰۲۲ – ڈاکٹر صائمہ اسما

دعا یہ ہے وطن میرے !
اجالا امن و راحت کا تری ساری شبوں میں ہو
محبت کی ضیا بکھری ہوئی سب راستوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
خدا رکھے گا خود تجھ کو مگر میری تمنا ہے
وسیلہ میرے جسم و جاں بنیں تیری حفاظت کے
مرے دستِ ہنر سے تیرے سب گیسو سنور جائیں
مرا ذہنِ رسا تیرا مقام آفاق پر ڈھونڈے
ان آنکھوں میں جو ساون ہے ترے صحرائوں پر برسے
بدن میں جولہو ہے منتقل تیری رگوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
کوئی ضرب ِعدو میں دست و بازو پر ترے دیکھوں
تو میری آنکھ جل تھل روح بوجھل ہونے لگتی ہے
بگولے نفرتوںکے بستیوں میں گھومتے پائوں
تو سچ مانو کہ طاقت سوچ کی شل ہونے لگتی ہے
اندھیرے چھانٹ کر گلیوں میں تیری روشنی بھر دوں
تمنا ہے سکت اتنی تو میرے بازئووں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے!
کبھی ہوتا ہے یوں بھی مصلحت پیشِ نظر آئے
کئی چاہت کے دعویدار دامن چھوڑ جاتے ہیں
مرے جیسے وفا کے گیت لکھتے ہیں کئی شاعر
مگر خود ہی بھرم اپنی وفا کا توڑ جاتے ہیں
دعا یہ ہے مرے مولا! مرے دعوے کی سچائی
مرے اس دیس سے ہر حال میں ساری رتوں میں ہو
دعا یہ ہے وطن میرے
میرے کشمیر!
میرے کشمیر مرے پاک وطن کی شہ رگ
کون کہتا ہے فضائیں تری آزاد…

مزید پڑھیں

ابتدا تیرے نام سے – بتول مئی ۲۰۲۳

قارئین کرام سلام مسنون!
عیدالفطر ملک کے لیے امید افزا خبروں کے انتظار اور بری خبروں کے دھڑکے میں گزری۔ سیاسی منظرنامے پر ہنوز زبردست ڈیڈ لاک چھایا ہؤا ہے۔ انتخابات کروانے کے فیصلے پر عمل درآمد کی کوئی صورت فی الحال نظر نہیں آرہی۔بلکہ اعلیٰ عدلیہ بھی اپنے اس فیصلے کی پیروی کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔حالانکہ جس جرأتِ رندانہ سے کام لے کر یہ فیصلہ کیا گیا تھا، اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک بار پھر اسی نعرہِ مستانہ کی ضرورت تھی۔اختیارات کے مناصب پر مامور افراد کے فیصلے قوموں کی تقدیر بنا یا بگاڑ جاتے ہیں۔ ایک بزدل فیصلہ قوم پرلامتناہی بدقسمتی مسلط کردیتا ہے تووہیں بے خوفی کے ساتھ کیا گیاایک جرأت مندانہ اقدام یکایک روشن مستقبل کی نوید بن جایا کرتا ہے۔سقوطِ مشرقی پاکستان کی تاریخ ان مثالوں سے بھری پڑی ہےجب سیاسی وعسکری قیادت اور عدلیہ کی سطح پرایک بھی مخلصانہ ، باضمیر، بے خوف قدم لے لیا جاتا توتاریخ کا دھارا پلٹ سکتا تھا۔ قومی مفاد کے لیے صحیح بات پرڈٹ جانا، کسی دھمکی، دباؤ یا لالچ کو خاطر میں نہ لانایقیناً بڑے دل گردے کاکام ہے مگر جو یہ کام کرجائے اس کے لیے آخرت میں تو سرخروئی اور کامیابی…

مزید پڑھیں

تبصرہ کتب – قیادت کا سفر – ڈاکٹر صائمہ اسما

نام کتاب:قیادت کا سفر
مرتّبہ:روبینہ فرید
صفحات :216، قیمت:۱۰۰۰روپے
شائع کردہ:تدوینِ تاریخ کمیٹی،حلقہ خواتین،جماعت اسلامی پاکستان
ملنے کا پتہ:الفلاح مرکز کراچی،مرکز خواتین منصورہ لاہور
دورِ حاضر میں یہ تصور کہ اسلام بطور دین زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے اور دینِ حق کے طور پہ انسانیت کے دکھوں کا ازالہ کرنے، دنیا کو حق و انصاف پر قائم رکھنے کے لیے بطور نظام اس کا غلبہ ناگزیر ہے، اسلامی تحریکوں کی بنیاد ہے۔ یہ تحریکیں اس وقت دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں اور اپنے اپنے جغرافیائی، تمدنی،اور سیاسی حالات کے مطابق اقامتِ دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ جدوجہدایک طرف ذاتی زندگی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے، تزکیہِ نفس اور کردار سازی پر مشتمل ہے تو دوسری طرف اجتماعی نظام کو خدائی احکام کے تابع لانے کی کوششیں بھی اس کے دائرے میں شامل ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں اس تصور کی فکری بنیاد سید ابولاعلیٰ مودودیؒ نے فراہم کی جنہیں بیسویں صدی کا مجدد دین کہا جاتا ہے۔
مولانا مودودی نے جماعتِ اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اس کا حلقہ خواتین منظم کرنے کی طرف بھی توجہ کی ۔ بیگم محمودہ مودودی، حمیدہ بیگم، ام زبیر اور نیر بانو وہ ابتدائی خواتین تھیں جنہوں نے اقامتِ دین کے…

مزید پڑھیں