صحرا سے بار بار وطن کو ن جائے گا (حصہ اول) – مارچ ۲۰۲۱
صحرا کانام سنتے ہی ذہن میں تاحد نگاہ ریت آتی ہے اور صحرائے تھر کا نام سنتے ہی بھوک، پیاس اور سوکھے کی بیماری تصور
صحرا کانام سنتے ہی ذہن میں تاحد نگاہ ریت آتی ہے اور صحرائے تھر کا نام سنتے ہی بھوک، پیاس اور سوکھے کی بیماری تصور
نگاہِ لطف و ادا تیری چاہیے بھی نہیں کہ تیری ذات سے وابستہ کچھ گِلے بھی نہیں مچل مچل اٹھے دھڑکن ، دہک اٹھیں رخسار
دھیان کی سلائی پہ لفظ بُنتےبُنتے میں دانے بھول بیٹھی ہوں ان کی بات سننے میں ان کا دھیان رکھنے میں خود کو رول بیٹھی
میں حوّا کی بیٹی میں ساتھی ، میں ہمسر مجسم رفاقت ، مجسم سکینت صفا اور مروہ کی وجہ ِتقدس میں ہی ہاجرہ ہوں میں
آرزو کا شمار کیا کیجیے وصل کا انتظار کیا کیجیے کوئی قابض ہؤا خیالوں پہ تو بہانے ہزار، کیا کیجیے ان کی اب گفتگو کسی
تھر ہمیں اپنی محبت کے سحر میں جکڑچکا تھا … ہمیں یقین ہؤا کہ محبت لمحے میں وارد ہو جاتی ہے! صاف ستھری سیدھی سڑک پہ