گرمیوں کی ایک دوپہر، عمر کے ساتھ عجب واقعہ پیش آیا ۔ وہ اپنے کمرے میں لیٹا کتابیں پڑھ رہا تھا ۔ کمرہ روشن اورآرام دہ تھا، تھوڑی ہی دیر میں اس پرغنودگی طاری ہونے لگی اور وہ خواب دیکھنے لگا ۔ اس نے دیکھا کہ اس کا کمرہ بدل گیا ہے۔ اسے لگا جیسے یہ چوروں کے گھر کا کمرہ ہے۔ اسے فہیم بھی نظر آیا وہ اپناچہرہ،عمر کے چہرے کے نزدیک لایااوراسے بغوردیکھتے ہوئے کسی سے کہا:
’’ ہاں ! وہی ہے ، مجھے یقین ہے یہ وہی ہے ۔‘‘
’’ ہاں یقینا وہی ہے ۔ میں اسے کہیں بھی دیکھوں گا توپہچان لوں گا ۔ مجھے اس سے نفرت ہے ۔‘‘ایک اور آواز آئی۔
آخری الفاظ بہت بلند آواز سے کہے گئے تھے ۔ عمر کی آنکھ کھل گئی، ساتھ ہی اس کی خوف سے جان نکل گئی۔ اس کو دو بدہئیت چہرے کھڑکی میں نظرآئے جو اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے ایک فہیم تھا ۔ دوسرا شخص وہی تھا جس سے ڈاک خانے کے سامنے اس کی ٹکر ہوئی تھی ۔ عمر کو اس شخص کا نام معلوم نہیں تھا ، وہ منصورتھا۔
عمر اچھل کھڑا ہوا اورمدد کے لیے پکارنے لگا ۔ وہ سخت خوف…
کمرے میں ایک نوجوان اور پیاری سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔
’’ اگر ملازموں کا رویہ آپ کے ساتھ نا مناسب رہا ہے تو میں اس کی معافی چاہتی ہوں ۔ مجھے بتائیے ، آپ مجھ سے کس سلسلے میں ملنا چاہ رہی تھیں ؟‘‘ رابعہ نے شیریں لہجے میں کہا۔
نینا سے کبھی بھی کسی نے اتنے پیار سے بات نہیں کی تھی ، اسے تلخ لہجوں کی عادت تھی اس کا دل بھر آیا اور وہ روپڑی۔ اس کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے ۔
’’ پیاری خاتون ۔ کاش سب لوگ آپ جیسے ہوتے ،لیکن شاید آپ بھی مجھ سے اس طرح بات نہ کریں ، جب آپ کو میرے بارے میں علم ہو گا ۔ شاید آپ کے علم میں ہو جب عمر کو زبردستی کھینچ کر دوبارہ گرہ کٹوں کے درمیان پہنچا دیا گیا تھا ؟ جب وہ کتابوں کی دکان میں تھا ؟ میں ہی وہ لڑکی تھی جس نے ایسا کیا ؟‘‘
’’ تم نے ؟‘‘ رابعہ چیخی۔
’’ ہاں ، میں ہی وہ گناہ گار لڑکی ہوں ۔ میں بچپن سے ہی چوروں کے درمیان پلی بڑھی ہوں ۔ میں نے اس سے مختلف کوئی زندگی نہیں دیکھی۔ ‘‘ نینا نے اداسی سے کہا۔
’’ مجھے بہت افسوس…
خلاف معمول روحی کے تمام کام رات کے8بجے تک نمٹ چکے تھے ۔ کھانا تیار تھا ۔ روٹی بھی پک چکی تھی ورنہ عامر کو گھر آکر کھانے کے لیے کافی دیر انتظار کرنا پڑتا تھا ۔ اور تو اور روحی نماز سے بھی فارغ ہو چکی تھی۔ نومی کا ہوم ورک بھی مکمل کروایا جا چکا تھا ۔ اب تو نومی بھی سمجھ دار ہو گیا تھا۔ وہ بھی ضد کیے بغیر ،بدھ کو بغیر ستائے کام کرلیا کرتا تھا ۔ یہ کمال تھا اس 8بجے والے ڈرامے کا جس کا روحی کو پورے ہفتے بے چینی سے انتظار رہتا تھا ۔ اب تو عامر بھی اس ڈرامے میں دلچسپی لینے لگا تھا ۔ ڈرامہ بھی بڑی محنت سے تیار کیا گیا تھا ۔ کرداروں کا چنائو ، ان کی ادا کاری ، ہدایت کاری ، کہانی ، ڈائیلاگز سب ایک سے بڑھ کر ایک تھے ۔ سب سے بڑھ کر اس کی خوبصورت ہیروئن۔ جس کی خوبصورتی ، لباس ، ادائیں ، بولنے کا انداز ۔ ہر چیز دل لبھانے والی تھی۔
’’ اُف کالے لباس میں کیا غضب ڈھا رہی ہے ۔ کتنی اسمارٹ ہے ۔ اس کے چہرے پر سرخ لپ اسٹک کتنا سوٹ کر رہی ہے…
’’ بہت بہت شکریہ سر !‘‘ عامر صاحب سے رقم لیتے ہوئے اصغر کے چہرے پر بے انتہا شکر تھا ۔’’ بڑی مہر بانی ۔‘‘
’’ لیکن اصغر ، قرضے کی واپسی ہر ماہ آپ کی تنخواہ میں سے بیس فیصد کٹوتی کی صورت میں ہو گی‘‘ عامر صاحب نے یاد دہانی کرائی۔
’’ جی سر مجھے علم ہے ‘‘ اصغر سلام کرتا ہؤا کمرے سے نکل گیا۔
٭…٭…٭
’’ شکر ہے شائستہ ، اللہ نے بڑا کرم کیا ‘‘اصغر نے رات کو بستر پر نیم دراز ہوتے ہوئے کہا ۔ گو کہ ہر مہینے کا آخر دونوں میاں بیوی کے لیے ایک کٹھن مرحلہ ہوتا اور تنخواہ کی کٹوتی ان مشکلات میں اضافہ ہی کرنے والی تھی لیکن ایسے وقت میں جب کہ بیٹی کی شادی سر پر تھی ، رقم کا انتظام ہو جانا ، اس وقت بہت غنیمت لگ رہا تھا۔
’’ میں کل ہی جا کے فرنیچر کا آرڈر دے آتا ہوں ‘‘ اصغر نے شائستہ سے اپنے فیصلے کی تائید چاہی۔
’’ ہاں بالکل۔ اب ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ‘‘شائستہ نے ہاتھ سے چادر ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا۔
کمرے کے باہر کھڑی ، ماں باپ کی باتیںسنتی شیبا کے چہرے پر قوس و قزاح کے رنگ بکھر گئے ۔ شادی…