الطاف فاطمہ

پھول اور پتھر – بتول فروری ۲۰۲۲

اپنا لیکچر تمام کر کے وہ رجسٹر اور میز پر بکھرے چند ضروری کاغذات ابھی سمیٹ رہی تھی کہ اپنی پشت اور کہنی کے درمیان زاویے کے عقب سے ایک ننھی اور ملائم سی آواز سنائی دی ۔ آواز اتنی چھوٹی اور نرم تھی کہ اس پر یہ گمان بھی نہ ہو سکتا تھا کہ یہ بی اے فائنل کی کسی طالبہ کی آواز ہے ۔ چونک کر مڑی تو دیکھا کہ وہ اپنی اسائنمنٹ والی فائل ہاتھ میں پکڑے بلا تمہید مجھ سے کہہ رہی تھی ،’’ میں نے یہ مارچ تک کی سائنمنٹ مکمل کرلی ہے آپ اسے اچھی طرح پڑھ اور اپنے ریمارکس لکھ دیں ، پلیز !‘‘
حیرت سے میں نے اُس کی طرف دیکھا ۔ یہ آواز پہلے کبھی سنی ہوئی لگتی تھی نہ صورت آشنا تھی ۔ ایک لمحے میں اس کو دیکھتی رہی ۔ خیر ، صورت آشنا نہ ہونا کوئی ایسی تعجب خیز بات نہ تھی۔ اتنی بڑی اور طول طویل کلاس کے ہجوم میں کئی صورتیں اور چہرے نا آشنا رہ جانے کا احتمال ہمیشہ ہی رہتا ہے ۔ خصوصاًجب پڑھا نے والا یہ چاہے کہ اس کی آواز اور منہ سے نکلا ہؤا ہر ہر لفظ ہر شاگرد تک پوری طرح…

مزید پڑھیں

گواہی آخرِ شب کی – بتول دسمبر۲۰۲۲

گھر کے ایک بعید ترین کمرے میں جو خاصا روشن اور ہوا دار تھا اور بہت قرینے اور طریقے سے جیسا کہ کسی موذی مرض میں مبتلا قریب المرگ خاتون کے شایان شان ہونا چاہیے ، سجایا گیا تھا اور ہر قسم کی آسائش مہیا کی گئی تھیں ، مریضہ کھٹکے سے اونچا نیچا ہو جانے والے بیڈ پر منہ نیوڑائے کروٹ لیے اس طرح پڑی تھیں، گویا انہوںنے ابھی سے زندگی اوراس کے نام جھام سے منہ موڑ نے کا ارادہ کر ہی لیا ہو۔گوا بھی وہ اس دنیا سے رخصت ہونے کے موڈ میں قطعی نہ تھیں ۔ ابھی چند سال قبل ہی تو وہ اپنی ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھی تھیں اور اب یہ مژدہ سننے میںآیا تھا ۔ ورنہ ابھی تو چند گھنٹوں پہلے وہ اپنی گاڑی خود چلا کر کلنیک تک گئی تھیں ۔ ان کی بہو روشن آراء ان کے ساتھ گئی تھی ۔ اُس کو انہوں نے گاڑی اس لیے چلانے نہیں دی تھی کہ وہ پورے دنوں سے تھی ،اور وہ اُس کو اس حالت میں گاڑی چلانے کی اجازت نہیں دے سکتی تھیں۔
قصہ دراصل یہ تھا کہ چند دن یعنی تقریباً دو ہفتے پہلے انہوں نے اپنی دا ہنی پسلی سے…

مزید پڑھیں

منتخب کہانی – مگر ایک شاخِ نہالِ غم – الطاف فاطمہ

ایک وفا دار ملازم کی انوکھی کہانی جو تقسیمِ ہند کے نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی پر ختم ہو جاتی ہے مگر بہت اہم سوالات اٹھا دیتی ہے ۔
آج کا خبرنامہ ابھی ابھی اختتام کو پہنچا ہے ۔ خارجہ سیکرٹری کی سطح پر ایک بار پھر بات چیت کا آغاز ہؤاہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دور تو مکمل بھی ہو لیا ، اب دوسرے کی تیاری ہے ۔
آج کی یہ اہم خبر جو قطعی تازہ نہیں اور بے پرت ہے ، اس کا گہرا تعلق ایسے تسلسل سے ہے جس میں نقطۂ آغاز ہی جاری و ساری ہے ، سارے اعداد و شمار پر حاوی ہے ۔اور مجھے تو آج بھی وہ اس گھر کی بالائی منزل کی چھت پر کھڑا نظر آتا ہے ….اَنتھک ، مستقل اور سنگی ستون ، ایک مخصوص سمت کی جانب گھورتا ہؤا۔ یہ قصہ ہے نصف صدی کا مگر کہاں ، کیسے ؟ اور میں کس طرح یقین کر لوں کہ ابھی ٹی وی پر کشمیر فائل دیکھی ہے….فلیش بجلی کے کوندے کے مانند لپک کر سامنے آتا ہے اور معدوم ہو جاتا ہے ۔
خبر نامے اور موسم کی غیر یقینی کیفیت کے بعد کشمیر فائل کی سرسری…

مزید پڑھیں

منتخب کہانی (۲) – مگر ایک شاخِ نہالِ غم – الطاف فاطمہ

ایک وفا دار ملازم کی انوکھی کہانی جو تقسیمِ ہند کے نشیب و فراز سے ہوتی ہوئی کشمیریوں کی جدوجہد ِ آزادی پر ختم ہو جاتی ہے مگر بہت اہم سوالات اٹھا دیتی ہے ۔
 
کھانا وہ بڑا لذیذ پکاتا تھا ،مگر کبھی کبھی ہنڈیا جلا دیتا ۔ اماں اس پر ناراض ہوتیں کہ آئے دن تم ہانڈی ساڑ دیتے ہو ۔ تو شرمندہ سا ہو کر بڑی حلیمی سے جواب دیتا ،’’ میں کیا کروں ، مجھے بڑے بڑے دیگچوں میں بہت سا پکانے کی عادت ہے ۔ یہاں تین چار بندوں کے لیے پکاتا ہوں ، اسی لیے جل جاتا ہے‘‘۔ خیر رفتہ رفتہ اس نے اپنے آپ کو اس کا بھی عادی بنالیا۔
بہت صاف ستھرا اور پاک صاف ، نماز اور تلاوت کا سختی سے پابند تھا ۔ سرونٹ کوارٹروں میں رہنے والوں کی عادتیں اس سے مختلف تھیں۔ زبان کابھی مسئلہ تھا ، یہ کشمیری اردو اور پنجابی ملا کر بولتا تھا ۔ اور بلتی زبان بولتے تو غل کی آوازیں اس کے پلے نہ پڑتیں ۔ اوپر سب سے بالائی منزل پر ایک چھوٹا سا کمرا خالی پڑا رہتا تھا ، وہ اسے رہنے کے لیے دے دیا گیا ۔ بہت سویرے اٹھ کر غسل کرتا…

مزید پڑھیں