بات اگر ہو گھر کی کام والی یا ماسی کی تو ہرخاتون خانہ کے پاس کم ازکم دس فٹ طویل ماسی نامہ موجود ہوتا ہے جس کو سنتے سنتے آپ اپنا ماسی نامہ سنانا بھول جائیں گے ۔ دوسری طرف اگر ماسی کام والی سے پوچھا جائے تو ان کے پاس بھی کم و بیش اتنا ہی طویل باجی نامہ موجود ہوتا ہے جس کو وہ مناسب وقت ملنے پر ایک دوسرے کو سناتی ہیں ۔ اپنے اپنے شجرے بیان کرتے ہوئے ایک دوسرے کو خوب پٹیاں پڑھاتی ہیں ۔
کیا بات کس باجی سے کیسے کہنی ہے ؟ کس باجی کو کیا پسند ہے کیا ناپسند ہے ؟ کس بہانے سے باجی موم ہو جاتی ہیں ؟کاموں کے کیا ریٹ چل رہے ہیں ؟ کون سے کام اوپر سے کر لینے ہیں اور کون سے کاموں سے انکار کر نا ہے ؟ کام کرتے ہوئے کون کون سی احتیاط کا خاص خیال رکھنا ہے ورنہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے والا معاملہ درپیش ہو سکتا ہے ؟
دوسری طرف باجیوں کی کہانی میں اہم ترین مسئلہ ماسیوں کی نظر کا ہوتا ہے ۔مثلاً:
’’ماسی زرینہ کی نظر تو بڑی ظالم ہے ، آنکھوں سے حرص جیسے ٹپکی پڑتی ہے‘‘۔
اس بات پر سوچنے کی فرصت ہے نہ ضرورت کہ وہ بے چاری زرینہ ماسی کبھی پیٹ بھر کر کھاتی ہے یا اپنے بچوں کو کھلاپاتی ہے ؟ ہمارے بھرے فرج رنگ برنگے پکوانوں کی خوشبوئیں اس پر کیا قیامت ڈھاتے ہیں باہر سے آرڈر پر آئے پزا ، برگر اور بریانی کے ڈبوں کا کچرا تو وہ ہی اٹھاتی ہیں۔
شمیم ماسی کا تو مانگنا ہی ختم نہیں ہوتا، ابھی پچھلے مہینے کئی سوٹ الماری صاف کرتے ہوئے نکالے تھے لیکن آج پھر مانگ رہی تھی کہ بیٹی کی شادی کے لیے امداد کر دو ‘‘۔
بات تو سچ ہے کہ ماسی شمیم کو پرانے سوٹ دیے تھے لیکن آخر اس کی بیٹیاں جہیز کے نام پر پرانے سوٹ تو نہیں لیں گی۔سوباجیوں کو ان کی تکلیف اور ضرورت کا خیال رکھنا چاہیے اس سے بھی انکار نہیں کہ بہت سی باجیاں خیال رکھتی بھی ہیں بغیر کہے روز تازہ کھانا پلیٹ میں نکال کر دیتی ہیں، بیماری تکلیف میں دوا کا دھیان کرتی ہیں۔ گھریلو ضرورت پر امداد کرتیں ہیں ۔ ماسیاں بھی خوش رہتی ہیں۔
لیکن ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ ماسیوں کے حالات میں تبدیلی کیوں نہیں آتی ؟ زرینہ ، شمیم ، ساجدہ ہو یا رانی سب کام کرتے کرتے بوڑھی ہو جاتی ہیںان کی بیٹیاں اور پھر ان کی بیٹیاں اسی طرح کام کرتی ہیں۔
رانو ماسی بنگالی تھی چار بیٹیاں تھیں ۔ کام کر کر کے اس نے ان کی شادی کی لیکن کیا قسمت پائی کہ چاروںکی چاروں اسی محلے میں شادی سے پہلے اور پھر بعد میں کام کرتی رہیں ۔اب تو ان کے بھی بچے ہو گئے ہیں جن کو وہ گھروں کے قریب ہی کسی گھر میں چھوڑ کر آتی ہیں اور مہینے میں اسے کچھ ادائیگی کرتی ہیں یعنی ڈے کیئر غریب آبادیوں میںبھی کھلے ہیں۔
ماسیوں کے حالات نہ بدلنے کی وجہ ایک تو ان کے فضول رسومات میں اخراجات … اور دوسرے ہر سال میں ایک یا دو بار گائوں کا رخ کرنا اور وہاں اپنی جمع پونجی ٹھکانے لگانا … اب کس ٹھکانے لگتی ہے؟ کوئی ٹھکانہ بھی ہے یانہیں ؟
اکثر کے لیے تو شادی بیاہ برسی ، چالیسواں اور محرم کی تقریبات اہم ہوتی ہیں ۔ خیر ماسی تو چھوڑیں یہ ساری رسومات اور ان پر بے دریغ خرچ تو ہر ایک انتہائی ضروری سمجھتا ہے خواہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔
ماسیوں کا ایک اہم ترین خرچ گائوں میں اپنی جاء( گھر ) بنانے
کا ہوتا ہے جو ان کو کسی خواب کی طرح لگتا ہے۔ ایک سال جمع پونجی کے ساتھ زکوٰۃ صدقہ سمیت کر لے جاتی ہیں کچھ دیوار یا چھت ڈالتی ہیں جو ایک آدھ سال میں ہی سیلاب یا کسی اور آفت سے ڈھے جاتا ہے اور ان کا خواب چکنا چور ہو جاتا ہے۔
لیکن یہ بھی شک و شبہ والا ہی معاملہ ہے باجیاں کہاں جا کر گائوںمیں دیکھیں گی؟ سوا نہیں اس مد میں امداد کے لیے پھر کہا جا سکتا ہے … اور کہا جاتا ہے ۔
ماسیوں کے حالات نہ بدلنے کی ایک بڑی وجہ ان کے شوہر بھی ہوتے ہیں جو یا تو نکھٹو ہوتے ہیں یا چرسی اور نشئی، سارا دن چار پائی توڑتے ہیں اور نشہ ٹوٹنے پر بیوی کی ہڈیاں …ایک بیوی کی کمائی سے نشہ پورا نہیں ہوتا تو دوسری کر لیتے ہیں اور کبھی کبھی تو تیسری اور چوتھی بیوی بھی … غربت کے مارے ماں باپ بیٹیاں دے دیتے ہیں …جو ساری عمر شوہر کے لیے ہڈیاں گھساتی ہے … نتیجہ میں اسے چند بچے حاصل ہوتے ہیں آخر ان کے لیے کماتے کماتے وہ بوڑھی ہو جاتی ہے ۔ بچے بڑے ہوتے ہیں تو ان کی زندگی بھی اسی طرح غربت کی چکی میں پستے بسر ہو تی ہے ۔
یہ بھی ہے کہ معاملات سب کے ساتھ یکساں نہیں … کچھ ماسیاںایسی ہوتی ہیں جو محنت کرتی ہیں حق حلال کی کھاتی ہیں مطمئن رہتی ہیں ۔ اللہ کی رضا پر راضی اور اس کے بھروسے زندگی گزار دیتی ہیں۔ماسی مختار ایک مثال ہے ۔ تین بیٹیاں ایک بیٹا شوہر انتقال کر گیا اس وقت جب بچے چھوٹے تھے یہ اپنے بیٹے کولے کر شہر آگئی ۔ ایک بیٹی کی شادی کی باقی دو کو گائوں میں اپنے بھائی کے گھر رکھا اور وہاں کے مدرسے میں داخل کروا دیا ۔ دونوں نے دین کی تعلیم حاصل کی ۔ بیٹے کو شہر تو لے آئیں لیکن تربیت کا معاملہ زیرو رہا وہ غلط صحبت میں پڑ کر بگڑ گیا۔
اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ تو کمانے کے لیے گھر سے نکل جاتی تھیں بیٹا اپنے من کی کرتا … کوئی وجہ اور بھی ہو سکتی ہے … کہ آج کل بچوں کو صحیح ٹریک پر رکھنا پڑھے لکھے سمجھدار ماں باپ کے لیے بھی آسان نہیں۔
ماسیوںکے انتخاب کے سلسلے میں سب سے اہم چیز ایمان داری اور اعتبار ہے۔ اگر یہ آپ کی ماسی میں ہے تو سمجھیں کہ آپ خوش قسمت ہیں پھر دیگر معاملات صفائی کی کمی، کام چوری، چھٹی کی عادت یا مانگنا پیچھے چلا جاتا ہے ، یعنی برداشت کیا جا سکتا ہے … البتہ بے ایمان اور بے اعتبار ماسی گھر کے اندر کا یا آستین کا سانپ ہوتی ہے ۔
باجیوں کو ماسیوں سے معاملات میں دل کو نرم او ر انصاف کو ہاتھ میں رکھنا چاہیے ۔ طعنہ بازی اور جلی کٹی سنانے سے گریز لازمی ہے ۔ ماسیاں بھی انسان ہیں وہ اپنے گھر سے نکل کر اگر محنت کررہی ہیں تویہ ان کی مجبوری ہے ۔ اس مجبوری اور بے بسی کے عالم میں اگر وہ چند روپوں کی خاطر بے عزتی برداشت کر رہی ہیں تو وہ مظلوم بھی ہیں اور مظلوم کی آہ کو عرش تک جاتے کچھ دیر نہیں لگتی… وقت بدلتے بھی دیر نہیں لگتی۔
آپ کے کام آسان کرنے والی مدد گار خواتین کے دکھ اور پریشانیاں سن کر اگر کچھ مدد کر سکتی ہوں تو اچھا ہے لیکن الفاظ سے بھی ان کے زخموں پر مرہم لگایا جا سکتا ہے ۔ دیکھیں تووہ کتنے گھروں کا کام کرتی ہیںباجیوں سے تو اپنے گھر سنبھالے نہیں جاتے ۔ آخر ان کے بھی توگھر خاندان ہوتے ہیں گھرگھر محنت کر کے انہیں اپنا گھر خاندان بھی سنبھالنا ہوتا ہے ۔ زبان سے ان کی حوصلہ افزائی کی جاسکتی ہے۔ اچھے مشورے دیے جا سکتے ہیں ان کے بچوں کی تعلیم میں مدد دی جا سکتی ہے ۔ دکھ تکلیف بیماری میں اگر کبھی وہ دیر کر دیتی ہیں تو انہیں رعایت دینی چاہیے۔
وہ محنت کر کے حلال روزی کماتی ہیں جو عین عبادت ہے اس بات کو انہیں بھی سمجھانا اوربتانا چاہیے ۔ یہ خوشخبری بھی دینی چاہیے کہ غریب غرباء سینکڑوں سال پہلے جنت میں داخل کر دیے جائیں گے جب کہ مال اسباب والے حساب کتاب میں الجھے ہوں گے ۔ اللہ ہم سب کا آسان حساب لے آمین۔
ایک اہم چیز جو ہم اپنی مدد گار خواتین کودے سکتے ہیں وہ عزت ہے جس پر کچھ خرچ بھی نہیں ہوتا ۔عزت و احترام سے بات کرنے سے نہ صرف ان کی شخصیت بہتر ہو گی بلکہ گھر کے بچے بھی سیکھیں گے ۔آنے والے مہمان بھی آپ کی تربیت پر رشک کریں گے کہ اس گھر کے بچے
اپنی ملازمائوں کو بھی ادب اوراحترام سے بلاتے ہیں اور یہ تہذیب کی علامت ہے۔ مہمانوں کے سامنے اگر ماسی کوئی غلطی یا کوتاہی کر ے تو انہیں بے عزت نہ کریں بعد میں سمجھائیں وہ بھی ایک انسان ہے غلط القابات ڈھیٹ بے سلیقہ اور کام چور جیسے القاب اس کے دل میں آپ کے خلاف جذبات پیدا کریں گے ۔ لوگوں کے سامنے اسے سبکی محسوس ہو گی ۔ اپنے اوپر رکھ کر سوچیں ۔ ہر ایک اپنی عزت کے معاملے میں حساس ہوتا ہے یہاں تک کہ بچے بھی عزت نفس رکھتے ہیں انہیں بھی کبھی کسی کے سامنے ڈانٹنے کی غلطی نہ کریں۔
جہاں تک معاوضہ کی بات ہے ، حق اور انصاف سے معاوضہ طے کریں۔ کوئی کام والی اپنی مجبوری میں کم پیسوں پر کام کے لیے راضی ہوجائے تو اس کا دھیان رکھیں اس کو مناسب معاوضہ ادا کریں۔کم معاوضہ والی ماسی کبھی کبھی مخبری کے طور پر بھی آپ کے گھر کام پر آمادہ ہو سکتی ہے لہٰذا اس کو نظر میں رکھیں۔
ہم بات بات پر باہر کی مثال دیتے ہیں باہر ماسیوں کے سلسلے میں سخت قوانین ہیں، حکومت ان کے حقوق کی خود حفاظت کرتی ہے ۔ پاکستان کی طرح ان کا استحصال نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے گھر پُر آسائش ہوتے ہیں اور گاڑیاں تو ایسی جدید ماڈل کی ہوتی ہیں کہ ان گھروںکے مالکان کی بھی نہیں ہوتیں جہاں وہ کام کرتی ہیں ۔کام کے لیے جب وہ اپنی گاڑی سے اترتی ہیں تو مالک کے دل میں جلن و حسد بھی ہو سکتی ہے ۔
اپنے مدد گاروں کے سلسلے میں رسولؐ اللہ کا وہ فرمان ذہن میںرکھیں کہ زیر دست کے سلسلے میں مواخذہ ہوگا اورمزدور کی اجرت ان کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ادا کردو۔ہاں اگر مہینے کے آخر میں تنخواہ کی ادائیگی کی بات طے ہوئی ہے تو انہیں وقت پر ادائیگی کریں نہ کریں ترسا ترسا کر یا اضافی کام کروا کر ادائیگی کریں۔
٭…٭…٭