ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ
اللہ تعالیٰ کے دین کو دنیا میں قائم کرنا اور اس کے کلمے کو اس طرح سربلند کرنا کہ ہر باطل فکر اور کلمے کی بیخ کنی ہو جائے، انبیاء علیھم السلام کا مشن رہا ہے۔اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے بعد یہ مشن امتِ مسلمہ کے سپرد ہؤا ہے۔اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے جہاں اس کی تعلیمات کا علم ہونا اہم ہے وہیں حکمت کے زیور سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم نازل فرمایا، تاکہ ہم اس کے اوامر ونواہی کو اچھی طرح سمجھ سکیں، اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کر سکیں۔قرآن کریم اور رسول اللہ کی سنت میں ’’سیدھے راستے کی شاہراہ ‘‘ کو خوب واضح کیا گیا ہے۔اور انہیں میں امت ِ مسلمہ کو ان کا فریضہ بتایا گیا ہے، ارشاد ہے:
’’تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں‘‘۔ (آل عمران،۱۰۴)
یعنی یہ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کرہ ارض پر اسلامی نظامِ زندگی کے قیام کی جدو جہد کرے، حق کو غالب کرنے کی سعی و جہد کرے، معروف کو منکر پر اور حق کو باطل پر غالب کرے، خیر کو پھیلائے اور شر کو روکے۔ پس ضروری ہؤا کہ ایک جماعت ایسی ہر وقت موجود ہو جو بھلائیوں کے فروغ کے لیے سرگرم رہے۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر اقتدار ِ اعلیٰ حاصل کیے بغیر ممکن نہیں، اس لیے اس اقتذار کے لیے بھی جد و جہد کی جائے گی۔ہر مسلمان کو اپنے آپ کو اس دعوت کے لیے تیار کرنا چاہیے اور اس کی مشکلات پر صبر کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ مومن کا بہترین عمل ہے، فرمایا:
’’اور اس شخص سے اچھی بات اور کس کی ہو گی جس نے اللہ کی طرف بلایا ‘‘۔ (حم السجدۃ، ۳۳)
انسان کے لیے سب سے بلند درجہ یہ ہے کہ وہ خود نیک عمل کرے اور دوسروں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلائے۔جو لوگ دعوتِ اسلامی کا کام لے کر اٹھے ہیں ان کی دعوت اس عالم میں سب سے برگزیدہ دعوت ہے، ان کے کلمے آسمانوں کی طرف پاکیزہ کلمات کی صورت میں بلند ہوتے ہیں۔ وہ اللہ کے سامنے اس طرح سرِ تسلیم خم کرتا ہے کہ اس کی دعوت میں گم ہو جاتا ہے، پھر اسے اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ اس کی دعوت کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے۔ کوئی اس دعوت کا انکار کرتا ہے ، کوئی گستاخی کرتا ہے، کوئی تکبر کرتا ہے، بہر حال داعی ایک اچھا انداز ہی لے کر چلتا ہے۔ وہ تو بلند مقام پر ہوتا ہے، اس کا مخالف برائی لے کر آتا ہے ، اور وہ نہایت ہی گرے ہوئے مقام پر ہوتا ہے۔ (فی ظلال القرآن، تفسیر نفس الآیۃ)
رسول اللہؐنے فرمایا: ’’جس نے ہدایت کی طرف بلایا، اسے بھی ویسا ہی اجر ملے گا جیسا اس کی بات ماننے والے کو اجر ملے گا، اور اس عمل کرنے والے کے اجر میں کوئی کمی نہ کی جائے گی‘‘۔ (رواہ مسلم،۲۶۷۴)
اللہ تعالیٰ نے اسی کی تلقین فرمائی:
’’اے نبیؐ! اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو‘‘۔ (النحل،۱۲۵)
یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہییں: ایک حکمت اور دوسرے عمدہ نصیحت۔
حکمت کے عربی زبان میں کئی مفہوم بیان کیے گئے ہیں: جیسے قرآن، سنت، عدل، علم اور حلم۔ کہا جاتا ہے کہ حکمت علم اور عقل سے اصابت حق کو پہنچنا ہے۔اور یہ معنی اس کے لغوی مفہوم سے بھی بعید نہیں ہے کیونکہ نفع بخش علم اور نیک عمل کی بنیاد یہی حکمت ہے۔
حکمت کے لغوی معنی
حکمت کا مادہ ’’ح ک م‘‘ ہے۔ ابن فارس کے قول کے مطابق؛ اس کے معنی ’’منع‘‘ کے ہیں۔ عربی زبان میں ’’حکمت السفیہ‘‘ کہا جاتا ہے کہ ’’میں نے بے وقوف کا ہاتھ پکڑ لیا‘‘۔ اسے حکمت اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ جاہل کا ہاتھ روکتی ہے۔
جوہری کے نزدیک؛ حکمت علم سے ہے۔اسی لیے صاحب حکمت پختہ کار شخص کو کہتے ہیں۔
الاصفھانیؒ کہتے ہیں کہ حکمت علم اور نقل کے ذریعے حق کو پانا ہے۔ اسی طرح حکمت کو خشیۃ اللہ، عقل، تفقہ فی الدین اور نبوت بھی کہا گیا ہے۔
حکمت کا مطلب ہے کہ بیوقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت ، استعداد اور حالات کو سمجھ کر نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکا جائے۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے ، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے ، پھر ایسے دلائل سے اس کے مرض کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔
دعوت کے لیے اسلوبِ حکمت اتنا اہم ہے کہ جس نے بھی دلسوزی کے ساتھ نصیحت کرنا ہو اسے حکمت بھری بات ہی جچتی ہے۔ قرآن ِ کریم میں حضرت لقمان کی نصیحتوں کا ذکر ہے، جو انہوں نے اپنے بیٹے کو کیں، ( اگرچہ وہ نبی نہیں تھے، بلکہ نہایت حکیم اور سلیم الفطرت شخصیت تھے)اور یہ ہدایات ان کے انتہائی اخلاص کی علامت ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی‘‘۔ یعنی فہم، علم اور تعبیر۔
عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں: کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے، برائیوں کا صرف عقلی دلائل ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ برائی کے خلاف اس کی پیدائشی نفرت کو ابھارا جائے، اور ان کے برے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عملِ صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عملاً نہ ثابت کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھتا ہے۔اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص۵۸۱۔۸۲)
دعوت الی اللہ ، اللہ کے راستے اور اللہ کے نظام کی طرف دعوت ہے، کسی شخصیت اور قوم کی طرف نہیں۔اس میں داعی کا کردار یہ ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کر رہا ہے کوئی احسان نہیں کر رہا کہ اسے جتلاتا پھرے۔اس پر وہ اللہ کے ہاں اجر پائے گا۔
حکمت اور حسنِ تدبیر
خدا کے دین کے ساتھ سب لوگوں کا معاملہ ایک سا نہیں ہوتا، کچھ لوگوں کو خود سے اس کی تلاش ہوتی ہے۔ اور جب دعوت ان تک پہنچتی ہے تو وہ اس کی طرف اس طرح لپکتے ہیں جس طرح پیاسا پانی کی طرف لپکتا ہے۔ انہیں دین کے قریب کرنے کے لیے کوئی خاص محنت نہیں کرنا پڑتی، بلکہ دین کی آواز کانوں میں پڑتے ہی وہ دوڑے چلے آتے ہیں۔
بعض لوگ دین سے اختلاف تو کرتے ہیں مگر ان کا یہ اختلاف اصولی اور نظریاتی ہوتا ہے۔ وہ اختلاف اس لیے نہیں کرتے کہ انہیں دین قبول نہیں کرنا بلکہ وہ اس سے کرتے ہیں کہ دین کی حقانیت ان کے سامنے واضح نہیں ہوئی ہے۔ اور اگر ان پر دین کی حقیقت کھل جائے تو وہ ہر بندش کو توڑ پھینکیں گے اور اس طرح اسے سینے سے لگا لیں گے جس طرح ایک ماں اپنے گمشدہ بچوں کو سینے سے لگا لیتی ہے جب کہ وہ مدتوں بعد اس کے سامنے آجائے۔
دعوت ِ دین پیش کرتے ہوئے چند چیزوں پر نگاہ رہنی چاہیے:
۔ مخاطب کے ظروف و احوال مدِّ نظر رکھنا چاہیے۔
رسول اللہ ؐ نے جب کھل کر دعوت پیش کرنی شروع کی تو انسانی نفسیات اور مخاطب کے احوال کا پورا پورا لحاظ رکھا تاکہ مخاطبین کو قائل کیا جا سکے، تاکہ وہ دل کی آمادگی کے ساتھ اس دعوت کی طرف مائل ہوں۔
۔ دعوت میں تدریج ہو، اس بات کو متعین کر لیا جائے کہ بیک وقت مخاطب کو کس قدر دعوت دی جائے۔
رسول اللہ ؐنے آغاز ِ دعوت میںحکمت کے طور پر بڑی نرمی اور تدریج سے دعوت دینا شروع کی۔ اور ٹکراؤ پیدا کرنے، کشمکش کرنے اور اہلِ مکہ کے دل میں ضد اور جذبہ ء عناد کو بھڑکا دینے سے سخت اجتناب کیا۔آپؐ نے ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ فیاضانہ، فراخدلانہ اور کریمانہ رویہ قائم رکھا۔ کوہ ِ صفا پر کھڑے ہو کر سب کو نام بنام بلایا اور جب سب اکٹھے ہو گئے تو سب سے پہلے ا ن ہی سے اپنی شخصیت کا تعارف کروایا، اور اس کے بعد فرمایا: ’’اے گروہِ قریش اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ ایک لشکر اس پہاڑ کی جڑ میں ہے تو کیا تم میری تصدیق کرو گے؟
لوگوں نے کہا: ’’ہاں آپؐ ہمارے نزدیک غیر متّہم ہیں اور ہم نے کبھی آپ کے کذب کا تجربہ نہیں کیا‘‘۔
جب صداقت و امانت کا یہ اعتراف ہو گیا تو آپؐ نے فرمایا:
’’تو میں تمہیں ایک عذابِ شدید سے ڈراتا ہوں‘‘۔
تبلیغ کی یہی حکمت تھی جس سے قریش پر اظہارِ حقیقت کی حجت تمام ہو گئی۔ (رسول اللہ ؐ کی حکمتِ انقلاب، سید اسعد گیلانی، ص۴۶۸)
۔ احکام اور اوامر و نواہی بیان کرتے ہوئے ذہن اس کے لیے تیار کیے جائیں، پھر بیان کیے جائیں تاکہ وہ ذہناً اس کے لیے تیار ہوں۔
۔طریقہء دعوت مناسب ہو، اور ظروف و احوال کے مطابق ہو۔
۔ داعی جوش میں آکر سختی نہ کرے نہ حکمت سے زیادہ جوش و غیرت پیدا کرے۔ہر معاملے میں اعتدال سے کام لے۔
۔ اس کا اندازِ نصیحت نرم اور نہایت دلکش ہو، کوسنے دینے اور شرمندہ کرنے والے انداز کو اختیار نہ کیا جائے۔
۔ داعی لوگوں کی ان غلطیوں کو نہ کھولے جو جہالت اور نادانی کے باعث کسی سے سرزد ہو جائیں۔بعض اوقات ایسی غلطیاں نیک نیتی سے ہو جاتی ہیں۔
۔ وعظ و نصیحت میں نرمی سرکش اور اخلاق سے گرے ہوئے لوگوں کے لیے ہدایت پانے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
۔ اگر مخالف ماحول میں مجادلہ کا موقع پیش ہو تو وہ بھی احسن طریق سے ہو۔ مخالف پر ذاتی حملے نہ کیے جائیں۔ نہ اسے ذلیل کیا جائے۔ (فی ظلال القرآن، النحل، ۱۲۵)
موعظہ حسنہ کا مفہوم
اللہ تعالیٰ کے راستے کی جانب بلاتے ہوئے موعظہ حسنہ سے کام لیا جائے تو یہ مخاطب کے لیے تبدیلی کا بہتر ذریعہ ہے؛ الاصفھانی کا قول ہے: وعظ ایسی نصیحت ہے جس میں خوف دلایا جائے، اور جرجانی کہتے ہیں کہ موعظہ ایسی نصیحت ہے جو سخت دلوں کو نرم کر دیتی ہے، جس سے آنکھیں بہنے لگتی ہیں اور فاسد اعمال کی اصلاح ہو جاتی ہیں۔ (التعریفات، الجرجانی، ص۳۰۵)
ابنِ کثیر کہتے ہیں کہ موعظہ حسنہ سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کے سامنے قرآن کے ان واقعات کا ذکر کیا جائے جس میں لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرایا گیا ہے یا لوگوں کو دھمکی دی گئی ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں۔پس موعظہ میں تذکیر، نصیحت، تخویف اور زجر سب شامل ہیں۔
داعی کو چاہیے کہ اس کی نصیحت علم اور بصیرت پر مشتمل ہو، اور اس کی بنیاد کتاب اللہ اور رسول اللہؐ کی سنت ہو۔وہ اپنی نصیحت کو موثر بنانے اور دلوں پر دستک دینے کی ہر ممکن تدبیر کرے۔وہ سامع کے وقت اور حالات کی خبر رکھے اور تاکہ لوگ وعظ و نصیحت سے بیزار نہ ہو جائیں، وہ نصیحت کے کلمات پر بھی پوری نظر رکھے، کبھی وہ حکمِ شرعی کو بیان کرے اور کبھی ترغیب اور ترہیب کے ذریعے سامع کو متوجہ کرے۔کبھی قصوں اور تمثیلات کے ذریعے اپنی بات کو واضح کرے، کیونکہ بعض او قات کوئی تمثیل یا قصہ زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔
وقت اور حالات کا تعین
داعی کو باخبر اور مخاطب کی نبض پر ہاتھ رکھنے کا فن آنا چاہیے، کہ وہ نصیحت کو کسی بے وقت کی راگنی یا ایک ہی لاٹھی سے سب کو ہانکنے کے لیے استعمال نہ ہو، بلکہ وقت کی مناسبت اور حالات کو جان کر عمدہ طریقے سے
متوجہ کیا جائے۔
واضح اور دوٹوک انداز
دعوت دبے لفظوں اور مبہم الفاظ میں نہ پیش کی جائے، بلکہ واضح الفاظ اور دو ٹوک انداز اختیار کیا جائے۔قرآن و سنت کے ذریعے سے بڑی نرمی اور محبت سے دعوت کے میدان میں اترا جائے، کیونکہ برا بھلا کہنے اور لعنت ملامت سے اصلاح کرنا انبیائؑ کا اسلوب ِ دعوت نہیں ہے۔
موعظہ حسنہ کے لیے کچھ باتوں پر خاص طور پر متوجہ رہنے کی ضرورت ہے:
اچھی بات
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لوگوں سے بھلی بات کہنا‘‘۔ (البقرۃ،۸۳)
دعوت الی اللہ کی زبان درشت اور سخت الفاظ پر مبنی نہ ہونی چاہیے کہ وہ مخاطب کو دور کر دے یا اسے دعوت سے بیزار کر دے۔رسول اللہؐ کی ساری اصلاح و تربیت میں ہمیشہ نزمی اور شفقت اور اپنی قوم کے ساتھ مہربانی کا رویہ رہا۔
حضور ؐ نے اپنی دعوت کو پیش کرتے ہوئے اسی رہنمائی کو پیشِ نظر رکھا جس کی ہدایت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰیؑ کو فرعون کے دربار میں بھیجتے ہوئے کی تھی:
’’تم ( موسٰیؑ اور ہارونؑ) اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرے اور خدا سے ڈرے‘‘۔ (طہ، ۲۴)
آپؐ اخلاق کی بلندی کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملتی۔کسی نبی کو اتنا نہ ستایا گیا ہو گا جتنا آپؐ کو ستایا گیا، مگر آپؐ نے ہمیشہ اپنی قوم کے لیے دعائیں کیں اور دن رات انہیں راہِ راست پر لانے کی کوششیں کیں۔
دعوت کے لیے ترجیحی اختیار
داعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کی جانب زیادہ توجہ دے جو راہِ حق کی جانب میلان رکھتے ہیں۔ آپؐ بھی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے مطابق ایسے لوگوں کو ترجیح دیتے جو مخلص ہوں اور دین کی طلب رکھتے ہوں۔ جو لوگ خدا سے برگشتہ ، دنیوی وجاہت کے بھوکے اور متکبر اور مغرور تھے ، اور اسے سننے کو تیار نہ تھے، آپؐ بھی وقارِ دعوت کے پیشِ نظر ایسے لوگوں کے پیچھے نہ پڑتے البتہ عام دعوت دینے میں کوئی کمی یا کوتاہی نہ کرتے تھے۔
آسان سے مشکل کی جانب
اللہ تعالیٰ نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنایا ہے۔آپؐ بھی دعوت دیتے وقت آسان ترین پیرائے میں اپنی دعوت پیش کرتے، اور اس بات پر نظر رکھتے کہ کون اس کو قبول کرنے کی جانب آمادہ ہے۔ آپؐ جس میں آمادگی پاتے وہی سعید فطرت لوگ آپؐ کی نگاہ التفات کے زیادہ مستحق قرار پاتے۔ آپؐ بڑی نرمی سے اسے حق کی بات بتاتے، اور نصیحت کا حق ادا کرتے ان کے داروغہ اور کوتوال نہ بنتے۔ جیسے کہ ارشاد ِ الٰہی ہے:
’’پس اے نبی نصیحت کیے جاؤ ۔ تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘۔ (الغاشیہ، ۲۱۔۲۲)
آپؐ نے اپنے ساتھیوں کو بھی ہدایت فرمایا کرتے تھے:
’’تم جہاں تبلیغِ حق کے لیے جاؤ ، وہاں تمہاری آمد لوگوں کے لیے خوشخبری ہو، باعثِ نفرت نہ ہو اور تم لوگوں کے لیے سہولت کے موجب بنو، تنگی اور سختی کا ذریعہ نہ بنو‘‘۔
آپؐ کا طریقہ یہی تھا کہ آپؐ آسان ترین پیرائے میں بات سمجھاتے۔ نہ کسی سے ناراضی نہ غصّہ، نہ کسی سے عناد اور نہ مجادلہ اور مباحثہ، بلکہ بے لاگ اور بے لوث حق گوئی جو دلوں کو مائل کرتی چلی گئی۔اور حق کو اختیار کرنے کے بعد آپؐ کے ساتھی ایسی طاقت بنے کہ تلواروں کے سائے میں کشمکش اور جنگ و جدل بھی ان کے لیے کچھ مشکل ثابت نہ ہؤا۔
صبرو تحمل سے معاملہ
دین کی دعوت کھیل نہیں ہے اس کے لیے بے پناہ صبر اور پہاڑ کی طرح ثابت قدمی اور جماؤ چاہیے۔اور دعوتِ دین کا جذبہ انسان کے اندر
اس طرح داخل ہونا چاہیے کہ مرتے دم تک اس کی حرارت ختم نہ ہو۔
صبر وتحمل رسول اللہ ؐ کی دعوت کی اہم صفت ہے۔آپؐ نے تیرہ برس تک مکہ میں بڑے صبر و ثبات سے دعوت الی اللہ کا کام کیا۔اور اپنے رفقاء کو بڑے صبر سے اعمالِ صالح کا عادی بنایا۔راہِ حق میں پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کیا مگر حق کے معاملے میں کبھی مداہنت سے کام نہ لیا۔یہ اسی صبر کا نتیجہ تھا کہ کفار و مشرکین ٹوٹ ٹوٹ کر آپ کے کیمپ میں آنے لگے۔
حکمت حق کی پہچان ہے، اور حق کے طالب آگے بڑھ کر اسے اختیار کرتے ہیں۔ حکمت اور موعظہ حسنہ ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو چلتے ہیں،کبھی نصیحت ترغیب پر مشتمل ہوتی ہے اور کبھی عذاب کا خوف دلانے سے۔اور یہ حق سے پہلو تہی کرنے والے والے غافلین کو متنبہ کرنا ہے۔اور جہاں تک جدال کا تعلق ہے تو یہ عناد رکھنے والوں سے مجادلہ ہے۔
امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں: انسان کی تین حالتیں ہیں، یا تو وہ حق کو قبول کرتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہو جاتا ہے۔کبھی وہ حق کو جانتا اور مانتا تو ہے مگر اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔اور کبھی وہ حق ہی کا سرے سے انکار کر دیتا ہے۔
پہلی قسم کے شخص کو حکمت سے تلقین کی جائے گی۔دوسری قسم کو وعظ و نصیحت کی جائے گی۔ عام انسان انہیں دو گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور انہیں حکمت اور عمدہ نصیحت سے بھلائی کی جانب متوجہ کیا جائے گا۔مجادلہ حق کے معاندین سے ہے اور کبھی تو تلوار ہی ان کا کام کرتی ہے۔
دین کی جانب بلانا امتِ مسلمہ کا فرض ہے، اور اس فرض سے اسی وقت سبکدوش ہو سکتے ہیں جب دل کی پوری آمادگی کے ساتھ مخاطب کو حق کی جانب مائل کرنے کے لیے حکیمانہ اندز میں نصیحت کریں اور جو قوم غفلت کی نیند سو رہی ہے اسے جگائیں۔ اور جو کچھ کھو دیا ہے اسے حاصل کرنے کا جذبہ بیدار کریں۔
٭٭٭