۲۰۲۲ بتول جنورییہ عشق نہیں آساں! - بتول جنوری ۲۰۲۲

یہ عشق نہیں آساں! – بتول جنوری ۲۰۲۲

بظاہر کسی میگزین کا مدیریا مدیرہ ہونے میں بڑی دلکشی نظر آتی ہے اوربلاشبہ یہ ایک بڑا اعزاز بھی ہے ۔ اکثر ایڈیٹر ز نامورشخصیت بن جاتے ہیںاورعلمی ادبی حلقوںمیں ان کو ایک با وقار حیثیت حاصل ہوجاتی ہے ، میگزین کے سب سے پہلے صفحے پر ان کا نام نمایاں طور پر شائع ہوتا ہے ۔
نگارشات بھیجنے والے ان کی نگاہ ِ انتخاب کے منتظر ہوتے ہیں کہ ان کا مضمون ، غزل ، کہانی یا افسانہ ایڈیٹر کی شرف قبولیت کی سند حاصل کرلے اور میگزین کے صفحات کی زینت بن جائے اس سلسلہ میں کبھی مضمون نگار کو خوشی حاصل ہو جاتی ہے اور کبھی انتظار اور مایوسی ،آخری رائے بہر حال ایڈیٹر کی ہوتی ہے ۔
البتہ ایڈیٹر کے کام کے پیچھے انتھک محنت لگن اور لگا تار کوشش پوشیدہ ہوتی ہے ۔ ایڈیٹر کا کام اتنا آسان نہیںہوتا جتنا بظاہر نظر آتا ہے ۔ بقول شاعر
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے
ایڈیٹرکا کام بے حد محنت طلب اور کٹھن ہوتا ہے اور سارے مہینہ جب تک پرچہ پریس میں نہ چلا جائے ایڈیٹر کی جان پہ بنی رہتی ہے ۔ بس مہینے کے آخری دوچار دن شاید سکون کے مل جاتے ہوں وگرنہ سارا مہینہ شمارے کے لیے مضامین ، کہانی، افسانے، نظم ، غزل ہی ایڈیٹر کا اوڑھنا بچھونا ہوتے ہیں۔ دفتری اوقات میں بھی میگزین کی فکر گھر میںبھی یہی مصروفیت ہے کہ آج یہ کام رہ گیا کل وہ کام کرناہے ، آگے کیا مراحل درپیش ہوں گے ۔
میں خود مختلف کالجز میں کالج میگزین کا ایڈیٹر رہ چکا ہوں اس لیے مجھے احساس ہے کہ ایک میگزین کے منظر عام پر آنے تک کتنے کٹھن مراحل در پیش ہوتے ہیں۔
ہم اپنے پیارےمجلے’’ چمن بتول ‘‘ کے حوالے سے ہی بات کریں تو بخوبی اندازہ کر سکتے ہیںکہ مدیرہ کی ذمہ داری نہایت اہم اور محنت طلب ہے ۔پورامہینہ مسلسل سعی میںگزرنا ، سر پرست اعلیٰ اور مشیران سے گفت و شنید اوررہنمائی حاصل کرنا ، شمارے کے لیے بہترین مواد کا انتخاب، پھر مضامین کو بر وقت کمپوز نگ سیکشن کے حوالے کرنا ۔ پھرکمپوزر کی غلطیوںکی تصیح کرنا، اس مقصد کے لیے دوبارہ سارے مسودے کو نہایت عمیق نگاہوںسے دیکھنا ضروری ہوتا ہے ۔ کمپوزنگ کے مرحلے کے بعد بر وقت میگزین کوپریس بھیجنا ، بر وقت اشاعت یقینی بنانا تاکہ قارئین کو طویل انتظار نہ کرنا پڑے۔
مدیرہ صاحبہ کو یقیناً مشہور لکھاریوںکے مضامین ، افسانوں وغیرہ کا بھی شدت سے انتظار کرنا پڑتا ہے اور اگر ان کی جانب سے ذراتاخیر ہوجائے تو پریشان ہوکے ان سے رابطہ کرنا اورتقاضا کرنا پڑتا ہے کہ اپنی نگارشات جلد روانہ کردیں کیونکہ ان نامور لکھاریوں کی تحریریں’’چمن بتول‘‘ کے حسن میں اضافہ کرتی ہیں ، کسی کی جانب سے مصروفیت کا عذر ہو یابیماری کاذکرتو مدیرہ صاحبہ کی جان پہ بن جاتی ہے ۔
پھر مدیرہ صاحبہ کو ان بے شمار مضامین کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جنہیں وہ غور سے پڑھ تولیتی ہیںلیکن وہ ’’ چمن بتول‘‘کے مقررہ معیار پر پورے نہیں اترتے اور اشاعت کے قابل قرار نہیں پاتے ۔ یہ مرحلہ مدیرہ کے لیے بہت دشوار ہوتا ہے کہ کسی مضمون کو نا قابل اشاعت گردانیں ۔

سی پر صاحب/صاحبہ سوال کرتے ہیں کہ ہمارا مضمو ن کیوں قابل اشاعت نہیں سمجھا گیا ۔ براہ کرم اس پر دوبارہ نظر عنایت کیجیےشاید کوئی کام کی بات نکل آئے۔ ٹیلیفون اوراصرار …. مدیرہ صاحبہ کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہوگا کہ انہیں کیسے قائل کریں ۔ اگران کی نکارشات واپس کی جاتی ہیں تو ان کا دل ٹوٹ جاتا ہے ۔ مدیرہ صاحبہ کا دل اپنی جگہ رنجیدہ ہوتا ہے ۔
ایک اورمشکل مرحلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ جونگارشات ہاتھ سے لکھی گئی ہوں ان میں سے اکثر الفاظ پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ سمجھ نہیں آتی کیا لکھاہے، خاص طور پر یہ میرے لکھے ہوئے مضامین پڑھنے میں تو مدیرہ صاحبہ کو خاص مشکل پیش آتی ہو گی۔ لیکن صد آفریں کہ وہ میری تحریر وں کوپڑھ لیتی ہیںاورجہاں کوئی لفظ سمجھ نہ آئے وہاں اپنے وسیع تجربے اور علم کی بنا پر تصحیح کر لیتی ہیں۔ میں مشکور ہوں مدیرہ صاحبہ کا کہ خود تکلیف اٹھا لیتی ہیں لیکن مجھ سے کبھی شکوہ نہیںکیا۔ یہی حال کچھ اورنگارشات بھیجنے والوںکا ہوتا ہوگا جنہیں پڑھنے کے لیے ان کو اپنے ذہن پر خاصا بوجھ ڈالنا پڑتا ہوگا۔
’’ چمن بتول‘‘ کے ایک شمارے کے لیے مضامین کاانتخاب یقیناً ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے کیونکہ اس مجلے کا اپنا ایک مزاج اور معیار ہے جس کوہر حال قائم رکھنا پڑتا ہے اوریہ ذمہ داری بھی مدیرہ ہی کے کاندھوںپر ہوتی ہے ۔شمارے کی پروف ریڈنگ بھی ایک خاصا محنت طلب کام ہے ، پھر ان اغلاط کو کمپوزر سے صحیح کروانا بھی ایک بڑاہم مرحلہ ہوتا ہے ۔ پھرپریس والوں کوتاکید کہ کاغذمعیاری ہو ، پرنٹنگ معیاری ہو ، جاذب نظر ہو ،خاص طور پر ٹائٹل کا فیصلہ کرنا بھی اہم ہوتا ہے کہ ایسا ٹائٹل ہو کہ رسالے کا تاثر پہلی نظرمیں ہی اچھا قائم ہو ۔سٹاف اورمعاونین سے کام لینا ، شمارے کے لیے مالی امور ، سبھی کچھ تو دیکھنا پڑتا ہے ۔
گویا ایڈیٹر کی ایک جان ہوتی ہے اور دُکھ ہزاروں !
الغرض ’’چمن بتول‘‘ جیسے اصلاحی اور معیاری مجلے کا ایڈیٹر ہونا کوئی آسان کام نہیںیہ ایک ہمہ وقت ڈیوٹی والا کام ہے پورے مہینے کا ایک مسلسل عمل ہے جس میں کہیں بھی کوتاہی کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک نظم وضبط کے ساتھ سارے امور کی ترتیب و تنظیم کا خیال رکھنا پڑتا ہے جس کے لیے ایڈیٹر کوہروقت مستعد اور چوکس رہنا پڑتا ہے ، تب جا کے سجا سجایا ، پھولوںکیاریوں سے مہکتاہؤا ’’ چمنِ بتول‘‘ قارئین کے ہاتھوںتک پہنچتا ہے ۔
جب مہینے کا شمارہ منظر عام پر آجاتا ہے تو شاید ہی دو تین دن فرصت کے مدیرہ صاحبہ کوملتے ہوں۔ وگرنہ تو بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر ؔ مجھ کو
میںایک دریا کے پار اترا تو میںنے دیکھا
پھر اگلے ماہ کے شمارے کی فکر لاحق ہو جاتی ہے اور پھر وہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدیرہ صاحبہ کی ہمت و توفیق میں اوراضافہ کرے اور وہ ’’ چمن بتول‘‘ کو سجانے سنوارنے کا کام یوں ہی جاری رکھیں( آمین ،ثم آمین )۔
٭٭٭
٭ قارئین ! پروفیسر صاحب کی ماہنا مہ بتول سے محبت کے لیےہم ان کے از حد ممنون ہیں ۔ ان کی اسی محبت نے ان سے تجربے اور تخیل کے زور پر ایسی تحریر لکھوائی جو بہت حد تک حقیقی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے اسی لیے میں نے اس کو شائع کرنے میں کوئی ہرج نہیںسمجھا ۔ البتہ یہ ضرور اضافہ کردوں کہ اس ’’ آگ کے دریا میںتیرنے ‘‘ کی بہت سی تفصیلات نا گفتنی ہیں اوربہت سی سپرد قلم ہونے کے لیے کسی لمحہ فرصت کی منتظر !( ص۔ ۱)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here