عنیزہ کالج وین کی کھڑکی سے نظر جمائے باہر دیکھ رہی تھی۔ لڑکیاں زور و شور سے باتوں میں مشغول تھیں لیکن عنیزہ کو کسی کی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی ۔ بس وہ باہر دیکھنے میں مگن تھی۔
آدھا راستہ تو شہر کے گنجان علاقوں سے گزرتا تھا لیکن مضافات شروع ہوتے ہی ٹریفک کا رش کم ہو جاتا تھا اور پھر کھیت کھلیان اور گوٹھ آجاتے ۔سر سبز لہلہاتے کھیت دور تک سبزے کی بہار دکھاتے ، درمیان میں کچے پکے کوٹھے دکھائی دیتے ۔ گوٹھ کے باہر کے بڑے اور کچے راستے پر چھوٹے بڑے لڑکے اپنے اپنے ڈھور ڈنگر کو لاٹھی سے ہنکاتے گزر رہے ہوتے۔ان نو عمر چرواہوں میں بھی اسے غضب کا اعتماد نظر آتا جو گائے بیل بکریاں اور بھیڑیں لیے چلے جا رہے ہوتے ۔کچھ بیلوں کے بڑے بڑے گول نوکیلے سینگ ہوتے ۔ ایسے بیلوں کو ’’ چاند بیل ‘‘ کہتے ہیں ۔ بچپن میں جب بقر عید پر وہ بھائی کے ساتھ چاند بیل دیکھنے جاتی تو اسے ان سے بڑا ڈر لگتا تھا اور ابھی دیکھتی کہ یہ چھوٹے لڑکے ان سے ذرا نہیںڈرتے اور سارے مویشی بھی اُن کے اشاروں کو خوب پہچانتے ہیں … ذرا کوئی ادھر اُدھر ہؤا نہیں کہ چرواہا بولا … ہو ئوئو… ہو ئو ئو اور بس سب ایک طرف ہو گئے ۔
بہت دور پانی کا تالاب بھی نظر آتا جس میں بھینسیں اپنے پورے خاندان کے ساتھ موجود ہوتیں ۔ عنیزہ سب کچھ دیکھتی اور پھر چشم تصور سے وہیں پہنچ جاتی ۔ ان گلیوں میں مٹی کی سوند بھی خوشبو سونگھتی ہوئی کسی کچے گھر کے دروازے پر پڑا رنگ برنگا پردہ اٹھا کر جھانکتی جہاں لڑکیاں صحن میں کیڑی کاڑا کھیل رہی ہوتیں ۔ جب وہ ایک پائوں پر اچھلتیں تو ان کے رنگ برنگے دھاگوں اور شیشوں والی کڑہائی کی فراکیں اور گھیر دار شلوار یں مورنی کے سے انداز میں رنگوں کا سحر طاری کر دیتیں ۔ کڑہائی میں شامل شیشوں پر دھوپ کی کرنیں ناچتیں ۔
روز وہ یہ مناظر دیکھتی لیکن اسے یکسانیت لگتی نہ اکتاہٹ ہوتی کیونکہ تصور کی آنکھ اسے روز کوئی نیا دلفریب منظر دکھاتی ۔ وین کے ذریعے اس راستے پر آنا جانا کچھ ہی دنوں سے ہؤا تھا ورنہ تو وہ دونوں چاچوں کے ساتھ دادی کے گھر میں رہتے تھے جو شہر کے گنجان علاقے میں تھا لیکن دادی کے انتقال کے چند ماہ بعد ہی اس گھر کو بیچ دیا گیا ۔ وراثت وارثوں کے ہاتھ آئی تو سب ہی نے اپنے اپنے مطابق گھر لے لیے۔
عنیزہ کے ابو جی نے شہر کے باہر ذرا کھلا گھر لیا۔ جگہ پر سکون تھی شہر کے شور ہنگامے سے دور ۔کچھ نے پسند کی اور کچھ چپ رہے ، خاص طورسے جن کے کام کی جگہ فاصلے پر تھی اور فاصلہ اچھا خاصا زیادہ تھا ۔ لیکن عنیزہ خوش تھی۔
اتفاق سے اس کا کالج جتنا دور پرانے گھر سے تھا اتنا ہی نئے گھر سے تھا ۔ لہٰذا اس کو فاصلے کے معاملے میں فرق نہیں پڑا بلکہ اب تو اسے وین میں مزا آنے لگا تھا خاص طور سے جب کھیت کھلیان اور گوٹھ شروع ہوتے ۔
وین کی لڑکیاں اپنی باتوں میں مگن ہوتیں اور عنیزہ اپنے ہی خیالوں میں۔ جیسے جیسے دن گزر رہے تھے عنیزہ کا دل گائوں کی گلیوں اور چوباروں کو قریب سے دیکھنے کے لیے مچلنے لگا تھا ۔ کوئی صورت ہو مگر کیا ؟ وہ سوچ کر رہ جاتی۔
وہ امی جان اور مصباح آپی دونوں سے اس بات کا ذکر کر چکی تھی لیکن ان لوگوں نے مذاق سمجھا ۔ نہ سنجیدگی دکھائی نہ کوئی وعدہ کیا۔
’’امی مجھے گوٹھ قریب سے دیکھنا ہے ‘‘۔
’’ عنزی ! دیکھو بیٹا ابھی تو رمضان کے دن ہیں ، وہاں نہیں جا
سکتے‘‘۔
’’ اچھاٹھیک ہے امی جی عید کے بعد چلیں گے ‘‘۔ وہ امید بھری نظروں سے امی کو دیکھتی ۔
’’ میری گڑیا یہ لاک ڈائون کا مسئلہ بھی تو چل رہا ہے ‘‘امی پیار سے کہتیں ۔
’’ اسی لیے تو زیادہ دل چاہ رہا ہے ۔ کالج بند ہوگئے اتنے دن سے گوٹھ نہیں دیکھا ‘‘۔ عنیزہ نے حسرت بھرے لہجے میں کہا۔آپی اس کے اس لہجے پر ہنس پڑیں۔
’’ امی جی ! عنزی کی شادی گوٹھ والے کسی دیہاتی سے طے کر دیجیے… رہے گی وہاں اور دل بھر کر دیکھے گی ‘‘۔ مصباح آپی نے اسے چھیڑا۔
امی جی ’’ اللہ نہ کرے ‘‘ کہہ کر رہ گئیں ۔عنیزہ نے ناراضگی سے آپی کو دیکھا۔
’’ چھوٹی سی خواہش پوری نہیں کر سکتیں ؟‘‘
امی جی نے اس کے اُترے ہوئے چہرے کو دیکھا تو ترس آگیا ۔ میری سادی بچی کی فرمائش … نہ کپڑے نہ چوڑیاں نہ مہندی… فرمائش بھی کیسی اور وہ بھی عید سے پہلے!
’’ اچھا بیٹا یوں کرتے ہیں ابھی تو رمضان کا آخری عشرہ ہے اور پھر عید … بس عید کے بعد تمہیں گوٹھ دکھانے کا کوئی بندو بست کرتی ہوں ‘‘ امی نے پیار سے تسلی دی۔
عنیزہ خوش ہو گئی۔
پھر امی نے باورچی خانے کا کام کرنے والی ماسی رقیہ سے جو وہیں رہتی تھی نہ جانے کب بات کی عنیزہ کو پتہ ہی نہیں چلا ۔ وہ تو ماسی رقیہ نے عنیزہ کووہاں گوٹھ کی دکان کے بارے میں بتایا تو عنیزہ کی آنکھیں شوق سے چمکنے لگیں۔
’’ دکان میں بہت سستی چیزیں ملتی ہیں ہار بندے سے لے کر پلاسٹک کے کھلونے تک…‘‘ ماسی رقیہ نے بتایا۔
’’ اچھا تو رقیہ ماسی آپ کب لے کر جائیں گی ہمیں ، ہم اپنی عیدی سے تھوڑی سے خریداری بھی کر لیں گے ‘‘۔
پھر جیسے ہی عید گزری ، تیسرے دن امی نے رقیہ ماسی کے ساتھ گوٹھ جانے کا ارادہ کرلیا ۔ اکیلے تو عنیزہ کو ماسی کے ساتھ بھیج نہیں سکتیں تھیں لہٰذا خود بھی تیا ر ہو گئیں ۔ پیدل پندرہ منٹ کا راستہ تھا لیکن ابو جی نے گاڑی میں دو منٹ میں پہنچا دیا ۔ انہیں کہیں جانا تھا ۔ سڑک کے ساتھ چوڑے راستے پر اتار تے ہوئے ابو جی نے ہدایت کی۔
’’ واپس پیدل جانا ہوگا ، زیادہ دیر نہیں کرنا ‘‘۔
تینوںکا قافلہ گوٹھ میں داخل ہؤا عنیزہ حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔ اونچے نیچے راستے کیچڑ اور کچرے سے بھرے تھے ۔ دور سے نظر آنے والے کچے پکے کوٹھے قریب سے مٹی سے اٹے لگ رہے تھے کھلی ہوئی نالیاں جن میں تیرتی گندگی … عنیزہ کو ابکائی آئی ۔ بھیڑ بکریوں کی بدبو تو تھی ہی لیکن بھینسوں کے تالاب کے پاس بو میں شدید اضافہ ہو گیا ۔ ایک طرف بھینسیں تھیں دوسری طرف اسی تالاب میں لڑکے نہا رہے تھے بلکہ کھیل رہے تھے ۔ کنارے کی کیچڑ میں کتے لو ٹ رہے تھے۔
عنیزہ نے امی کو دیکھا اور بولی ۔
’’ بس امی چلتے ہیں ‘‘۔
ماسی رقیہ بولی ’’ گوٹھ کی دکان تو دیکھ لو اس طرف ہے ‘‘۔ اس نے اشارہ کیا۔
قریب جا کر دیکھا ایک چھوٹا سا لکڑی کا دروازہ کھلا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک بڑی سی کھڑکی تھی جس میں کائونٹر کے اوپر پلاسٹک کی برنیاں سجی تھیں جن میںرنگ برنگی گولیاں املی کی ٹوفیاں تل کے لڈو اور کھارے بسکٹ تھے۔ ایک تختے پر سنہری روپہلی چوڑیاں بندے اور ہار لٹک رہے تھے ۔ ایک دوسرے تختے پر پلاسٹک کے نیلے پیلے کھلونے گلابی گڑیاں لٹو اور شیشے کی گولیاں یعنی کنچے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں بند تھے۔
عنیز ہ کا ذرا دل نہ چاہا کہ کچھ خریدے لہٰذا اب قافلہ واپسی کے راستے پر تھا۔واپسی پر کئی گھروں کے دروازوں پر بوسیدہ پردے ہوا سے ہل رہے تھے ۔ عنیزہ کو اندر کے کئی مناظر نظر آ ئے ۔ کچا صحن جس کے کونے میں چولہے پر مٹی کی ہانڈی رکھی تھی ۔ کُھری چار پائیاںدیوار کے ساتھ
کھڑی تھیں ۔ کسی کسی صحن میں کچرا بکری کی گندگی اور اس کا کھانا بکھرا تھا۔ گلی میں لڑکے شیشے گولیاں کھیلتے کھیلتے الجھ پڑے تھے ، ننگے پیر میلے کچیلے کپڑے اور میلے کر رہے تھے ۔ ایک لڑ کے نے دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالا تو گریبان دامن سے جا ملا۔
جلدی جلدی واپسی کے راستے پر چلتے ہوئے عنیزہ کا سارا شوق ہوا ہو چکا تھا۔
گلی کے آخر میں ایک گھر کے دروازے پر ایک لڑکی بیٹھی تھی ۔ عنیزہ کے قدم اسے دیکھ کر ذرا ہلکے ہوئے ۔ لڑکی نے سر اٹھا کر عنیزہ کو دیکھا اس کی آنکھوں میں گہری اداسی تھی۔
’’السلام علیکم‘‘ عنیزہ نے سلام کیا لیکن لڑکی چپ چاپ انہیں دیکھتی رہی۔عنیزہ نے اس کے قریب پہنچ کر کہا ۔
’’ تمہیں کیا ہؤا ہے ؟‘‘
وہ لڑکی اب بھی جواب میں کچھ نہ بولی۔ بس ساکت چہرہ لیے وہ عنیزہ کی چوڑیوں پر نظر جمائے ہوئے تھی ۔ چوڑیوں پر جمی اس لڑکی کی نظریں کیا کہہ رہی ہیں ۔ عنیزہ کی سمجھ میں آگیا تھا ۔ اس نے دھیرے سے اپنی چوڑیاں اتاریں اور لڑکی کو پہنا دیں ۔ امی اور ماسی چپ تھے ۔ پھر عنیزہ نے انگلی میں پہنی روپہلی موتیوں اور نگوں والی انگوٹھی بھی اتار کر اس کی انگلی میں پہنا دی۔
لڑکی کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی تھی ۔ عنیزہ کا دل خوش ہو گیا ۔ اس نے اپنی مٹھی میں دبی عیدی کی رقم بھی لڑکی کے ہاتھ میں تھما دی ۔ لڑکی کے چہرے کی حزنیہ مسکراہٹ گہری ہوئی لیکن ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے … عنیزہ نے اس کے کندھے پیار سے تھپتھپائے۔
امی نے رقیہ ماسی کو اشارہ کیا ، اس نے آگے بڑھ کر پوچھ تاچھ کی تو پتہ چلا کہ پچھلے ہفتے اس کے ابا کا انتقال ہؤا ہے ۔ امی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔
’’دن ایک جیسے نہیں رہتے پیاری بہن یہ مشکل وقت بھی گزر جائے گا‘‘ ۔
عنیزہ نے دھیرے سے کہا ۔یہ جملہ ابھی چند دن پہلے ہی ایک کتاب میں اس نے پڑھا تھا۔
امی اور ماسی رقیہ خاموش تھیں ، ان کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں اور پھر تینوں واپسی کے راستے پر چل پڑیں۔
گھر پہنچ کر عنیزہ تو دکھ کے مارے بستر پر پڑ گئی ۔ اس کے سارے خوبصورت تصور جو گائوں کے بارے میں تھے۔ بری طرح ٹوٹ گئے تھے۔
امی اپنے کاموں میں لگ گئیں لیکن انہیں عنیزہ کی فکر تھی۔ کچھ دیر بعد جب کھانا لگا تو عنیزہ نے کہہ دیا مجھے بھوک نہیں۔
امی کچھ پریشان ہوئیں پھر عنیزہ کے پاس بیٹھ کر بولیں۔’’ عنیزہ ! اتنی پریشان نہ ہو… سوچو تو کیا گوٹھ والے اپنی زندگی میں مگن نہیں ؟تم کو یہ سب بہت خراب لگا۔ کوڑے کا ڈھیر ۔ صفائی کا نہ قرینہ نہ احساس… لیکن وہ تو اس میں ہی ماہ وسال گزار رہے ہیں ۔ انہیں کوئی افسوس ہے نہ احساس ہے ۔‘‘ وہ ایک لمحہ رکیں ، اور پھر کہنے لگیں ۔
’’ اور عنیزہ کیا دنیا بھی ایسی ہی نہیں ہے ؟‘‘
عنیزہ امی کے آنے پر اٹھ کر بیٹھ گئی تھی ۔ اس نے حیرانی سے امی کو دیکھا۔
’’ہاں … بس ایک پردہ ہے جو اس کی کیچڑ دھول مٹی بدبو اور دوسری گندگیوں پر پڑا ہے ، سو کچھ نظر نہیں آتا اور سب اپنے اپنے طور پر مطمئن اور سکون سے اس گندگی میں رہ رہے ہیں ‘‘۔
عنیزہ امی کی بات پر حیران تھی بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی ۔
’’ یہ دیکھو دنیا میں کس قدر بے ایمانی وعدہ خلافی جھوٹ چوری دوسروں کے حق مارنے کی جنگ چل رہی ہے۔ لالچ اور فائدوں کے کیچڑ سے سَنے ہوئے لوگ ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈال رہے ہیں ۔ دنیا داری کا پردہ پڑا ہے لہٰذا اپنے مال اور فائدوں کی شکل خوبصورت نظر آتی ہے اور دوسروں کا حق مار کر بھی انسان کو کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ امی کچھ دیر خاموش رہیں پھر بولیں۔
’’ پتہ ہے جس طرح تم وہاں خوبصورتی کی تلاش میں گئی تھیں اس طرح فرشتے بھی آسمانوں سے زمین پرآتے ہیں ۔ سوچتے ہوں گے ، ہم
سے جن کو سجدہ کرایا گیا ، اشرف المخلوق… کیسی حسین و جمیل شخصیت کے مالک ہوں گے … لیکن یہاں کے مناظر دیکھ کر شاید وہ بھی تمہاری طرح مایوس لوٹتے ہوں … لیکن نہیں … اصلی خوبصورتی کے کچھ دلکش مناظر وہ ضرور دیکھتے ہوں گے کہ بے غرض اور بے لوث نیکی کرنے والے بہت سے لوگ ابھی دنیا میں موجود ہیں ‘‘۔
امی مسکرائیں تو عنیزہ بھی مسکرا دی ۔ وہ امی کا اشارہ سمجھ گئی تھیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بے سمجھے کوئی بات کی جاتی ہے اور اللہ اسے پورا کردیتا ہے ۔
آپی کا رشتہ تو طے تھا ۔لہٰذا ان کی شادی ہو گئی ۔ ان کی شادی میں ابا کے پرانے دوست عنیزہ کے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ ڈال گئے ۔ ان کی زمین داری تھی بیٹے نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد باپ کے کام کو سنبھال لیا تھا ۔عنیزہ کی مرضی پوچھ کے ہاں کردی گئی اور وہ عنیزہ جو کالج وین میں گائوں گوٹھوں کے خواب دیکھا کرتی تھی ، اس کی پوری زندگی وہیں گزارنے کا بندوبست کردیا گیا ۔
آپی حیران تھیں کہ عنیزہ نے ہاں کیسے کردی وہ تو گوٹھ دیکھ کر آئی تھی تو ہفتوں اس کا ذکر آنے پر بھی اداس ہو جاتی تھی۔
’’ عنیزی! ہاں کرنے کی اتنی جلدی کیا تھی تم کو ؟ ‘‘ آپی نے عنیزہ کو گھورا۔
’’ کہاں تو ہوش و حواس جاتے رہے تھے گوٹھ دیکھ کر آئی تھیں تو … اور اب وہیں رہنے بسنے پر آمادہ ہو گئیں ؟‘‘
عنیزہ بس سر جھکا کر مسکراتی رہی۔ اس کی مسکراہٹ ہی تھی کہ جس کی وجہ سے آپی اور امی دونوں کو اطمینان ہو گیا ۔ پھر فائنل امتحان ہوتے ہی عنیزہ کی رخصتی کردی گئی ۔
ہر نو عمر لڑکی کی طرح خواب تو بہت سارے عنیزہ کی آنکھوں میں سجے تھے لیکن ساتھ دل میں یقین بھی تھا کہ ان خوابوں کو ٹوٹنے نہیںدینا … عزم و عمل سے انہیں پورا کرنا ہے ۔
سب سے پہلے تو اس نے شادی کے چند ماہ بعد ہی سسر سے اجازت لے کر گھر کے ایک کمرے کو بچوں کا اسکول بنا لیا ۔ شوہر کا دھیان وہ خود سے بھی زیادہ رکھتی تھی لہٰذا وہ خوش تھا ۔ عزت محبت اور خیال مل جائے تو دشمن بھی حلیف بن جاتے ہیں وہ تو پھر محبوب شوہر تھا ۔لہٰذا اس کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔
شروع میں اسکول میں تین چار بچے ہی آئے پھر آہستہ آہستہ تعداد بڑھنے لگی، اب تو کمرہ بھر گیا تھا اور عنیزہ کو اچھا خاصا وقت دینا پڑتا تھا ۔ محنت تو تھی لیکن وہ خوشی خوشی کر لیتی تھی کہ اس کو اپنی محنت سے اپنے خوابوں کے تعبیر ہونے کایقین تھا۔
بچوں کو پڑھانے کے علاوہ بلکہ پڑھانے سے زیادہ وہ انہیں طور طریقے اور اخلاق کے بارے میں بتاتی احادیث سناتی ، کہانیاں سناتی ، نظمیں اور دیہاتی گیت سنتی اور سناتی سب بچے خوش تھے ، پڑھائی کا بوجھ محسوس نہیں کرتے تھے لہٰذا فکر مندی غصہ جھگڑا لڑائی نہ ہوتا ۔ بچے خوش خوش آتے اور خوش خوش جاتے۔
اس دن سب بچے جب محنت کے عنوان سے ایک نظم مل کر پڑھ رہے تھے تو عنیزہ نے ان کو تفصیل سے محنت کا مفہوم سمجھایا اور بتایا کہ دنیا میں محنت کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ پھر اس نے بات کا رخ گائوں کی طرف موڑتے ہوئے کہا کہ بچو!ہم محنت سے اپنے گھر اپنے گائوں کو چمکا سکتے ہیں۔
عنیزہ نے سوچ لیا تھا کہ آج کی عملی سر گرمی گلیوں ، نالیوں کو ڈھکنے کے بارے میں ہونی چاہیے برسات شروع ہونے کو ہے ایسے میں نالیوں کی گندگی باہر آجاتی ہے ۔ اسے یاد تھا کہ ایک بار جب گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ لوگ ابو جی کے ساتھ موہنجو داڑو گئے تھے تو ابو جی نے بتایا تھا کہ یہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے ساڑھے چار ہزار سال پرانی … وہاں گلیوں میں گھروں کے باہر نالیوں کے اوپر چپٹے اور بڑے پتھر رکھے تھے ، نکاس کی نالیوں کو ڈھکنے کا نظام بھی تھا اور کوڑے کو ایک مخصوص جگہ جمع کیا جاتا تھا۔
عنیزہ نے بچوں کو وہاں کے بارے میں بتایا کہ اگر موہنجو ڈارو کے رہنے والے آج سے چار ہزار سال پہلے اپنے پانی کے نکاس کی نالیوں کو ڈھکنے کا انتظام کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔
بچے پہلے تو حیران ہوئے پھر کچھ بچوں نے اس کے لیے مشورے دینے شروع کیے۔
’’ ہاں باجی مٹی کی پکی اینٹوں سے ان کو ڈھکا جا سکتا ہے ‘‘۔ ایک بچے نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ کچرے کے لیے بھی ایک گڑھا بنا کرگائوں والوں کو کہا جا سکتا ہے کہ وہ سارا کچرا اس میںڈالیں ‘‘۔ ایک اور بچہ بولا۔
’’ ماشا اللہ آپ سب تو بہت ذہین بچے ہیں … اچھا آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ ردی والا کاغذ لوہا وغیرہ گھروں سے خریدتا ہے ‘‘۔
بچوں نے سر ہلایا۔
’’ تو ہم لوگوں کو یہ بھی بتائیں کہ کچرے میں ڈالنے سے پہلے کاغذ اور پلاسٹک شیشہ وغیرہ الگ کرلیں اور پھر گڑھے میں ڈالیں اس طرح دو فائدے ہوں گے ۔ ایک تو ردی سے کچھ پیسے ملیں گے اور دوسرے ہماری زمین کی زرخیزی اچھی رہے گی ۔پتہ ہے نا بچو کہ یہ پلاسٹک زمین کو بیمار کر دیتا ہے ہمیں اپنی مٹی کو اپنے وطن کو بیماری کا شکار ہونے سے بچانا چاہیے نا؟‘‘ بچے خاموشی سے سن رہے تھے ۔ وطن کا نام آتے ہی ان کے چہرے جوش سے چمکنے لگے ۔
عنیزہ چشمِ تصور سے اپنے گائوں کی گلیوں کو صاف ستھرا اور ماحول کو سر سبز و شاداب دیکھ رہی تھی ۔ بچپن کے دیکھے ہوئے خواب ان بچوں کی صورت حقیقت میں ڈھلنے کو بے تاب تھے۔
٭…٭…٭