تھر ہمیں اپنی محبت کے سحر میں جکڑچکا تھا … ہمیں یقین ہؤا کہ محبت لمحے میں وارد ہو جاتی ہے!
صاف ستھری سیدھی سڑک پہ گاڑی تیز رفتاری سے رواں تھی ۔ سڑک کے دونوں جانب صحرا تھا، ہم کہا نیوں اور ناولوں کی بنیاد پہ بننے والے تصورکے مطابق صحرا میں تاحد نگاہ ریت تلاش کر رہے تھے جب کہ یہاں دونوں طرف چھوٹے بڑے ریت کے ٹیلے اور بے شمار صحرائی پودے تھے ، اس کے ساتھ ساتھ جگہ جگہ جانوروں کے ریوڑ چرنے میں مصروف نظر آئے۔ کہیں بکریاں ، کہیں بھیڑیں ،کہیں گائیں اور کہیں اونٹ ، یہ اونٹ ہمارے کراچی کے ساحل پہ نظر آنے والے اونٹوں کے مقابلے میں خوب اونچے لمبے اور صحت مند تھے ۔خاص بات یہ تھی کہ ان جانوروں کے ساتھ کوئی چرواہا دور دور تک نظر نہیں آیا، صاحب نے بتایا کہ یہ جانور خود ہی کھا پی کر شام ڈھلے واپس اپنے ٹھکانوں پر پہنچ جاتے ہیں ، اونٹ اور گائیں وغیرہ بعض اوقات اتنی دور بھی نکل جاتے ہیں کہ دو دن بعد واپس پہنچتے ہیں لیکن ان کے مالکوں کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ایک مزے کی بات ان جانوروں ، خصوصاً بکریوں کی یہ تھی کہ سڑک پہ خوب نازوانداز کے ساتھ ٹہل ٹہل کے چلتی ہیں اور آپ کی گاڑی لاکھ ہارن بجاتی رہے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ، شان بے نیازی سے منہ اٹھا کر آپ کو دیکھتی ہیں گویا پوچھتی ہوں ، تمہارے باپ کی سڑک ہے کیا؟ یہ ہماری زمین ہے یہاں ہمارا راج ہے۔ اس کے بعد اپنی رفتار پہلے سے بھی دھیمی کرتے ہوئے سڑک پارکرتی ہیں ، آپ کی مرضی آپ ہارن بجائیں یا دانت کچکچائیں ، صاحب نے بتایا کہ ان سڑکوں پہ رات کے اندھیرے میں گاڑی پہ سفر کرنے میں اگر کوئی خطرہ ہوتا ہے تو وہ انہی ” شترِ بے مہار ” مخلوقات کا ہوتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی آپ کی گاڑی کی زد میں آگیا تو جانے کون سے مواصلاتی رابطے حرکت میں آتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ارد گرد سے تھر واسی جمع ہو جاتے ہیں ۔دراصل یہ جانور ہی تو ان کا سرمایہ ہیں ،یہی ان کا ذریعہ آمدنی ہیں ۔
صحرا میں سفر جاری تھا کہ گاڑی ایک دم ہی جیسے ایک نخلستان کے سامنے جا کھڑی ہوئی ،یہ الخدمت ہسپتال تھرپارکی سفید اور نیلی عمارت تھی۔ صاف ستھری اور جدید سہولیات سے آراستہ اس ہسپتال میں تھری باشندوں کی بڑی تعدادانتظار گاہ میں موجود تھی ، مختلف کمروں میں مختلف امراض کے ماہرین کی او پی ڈی جاری تھی، کشادہ راہداریاں ، جدید مشینوں سے آراستہ لیباٹری ، معیاری طریقہ کار کے مطابق ترتیب دیا گیا دوا خانہ جہاں زندگی بچانے والی ادویات بھی علیحدہ موجود ہیں ، الخدمت کے ذریعے دنیا بھر میں موجود جن معاونین نے اس ہسپتال کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالا ہے انہوں نے اپنے لیے کیا خوب صدقہِ جاریہ کا انتظام کر لیا ہے۔ نچلی منزل پہ او پی ڈی کے مختلف کمروں کے علاوہ خصوصی نگہداشت کا وارڈ بھی قائم ہے ،جبکہ بالائی منزل پہ آپریشن تھیٹر ، لیبر روم اور بچوں کا وارڈ موجود ہیں۔ آپ تھر میں موجود الخدمت ہسپتال کا موازنہ بڑے شہروں کے کسی بھی معیاری ہسپتال سے کر سکتے ہیں۔
ہسپتال سے نکل کر ہم پھر سےگاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔سفر جاری تھا، وہی پختہ سڑک جو بار بار اپنے شہر کی سڑکوں کو یاد کرنے پہ مجبور کرتی تھی ، وہی ارد گردصحرا ئی پودے اور ٹیلے اور جانوروں کے مست ریوڑ اور اور ان سے کہیں پرے ایک کے تعاقب میں دوسرا چونرا نظر آتا ۔ چونرا تھر کے صحرا میں بنے ہوئے مخصوص کمروں کو کہتے ہیں اس کی ادائیگی میں ن کو غنہ کے طور پہ ادا کیا جاتا ہے ۔ چونرا کی خاص بات یہ ہے کہ یہ گرمیوں میں ٹھنڈے ہوتے ہیں ، یہ بہت تھوڑی زمین کا احاطہ کیےکہیں گول ، کہیں مستطیل اور کہیں مربع کی شکل میں میں بنا ہؤا کمرہ ہے جس کی چھت اوپر کو بڑھتے بڑھتے تنگ اور تکون نما شکل اختیار کر لیتی ہے ۔یہ تکون بہت سلیقے سے جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہے ۔
الخدمت ہسپتال سے نکل کر نگر پارکی جانب طویل سفر تھا ، اسلام کوٹ سے گزرتے ہوئے ان گنت گوٹھوں کے نام سڑک کے دائیں بائیں جانب آویزاں نظر آئے ،جب کوئی بورڈ نظر آتا ہماری نظریں دور دور تک چکر لگاتیں کہ شاید گاؤں کے آثار نظر آئیں لیکن جس طرح کا باقاعدہ گاؤں ہم نے اپنے تصور میں سجا رکھا تھا وہ کہیں نظر نہ آیا ، اگر کچھ تھا تو صحرائی پودوں سے مزین بیابان ۔البتہ سڑک سے کافی ہٹ کر چونرا کی کئی اقسام بھی دیکھنے میں آئیں کچھ مٹی سے لیپ کیے ہوئے اور کچھ کی چار دیواری سیمنٹ کی اور اوپر کی تکون چھت جھاڑیوں سے ڈھکی ساتھ ہی ایسے چونرا بھی نظر آئے جن کی پوری کی پوری دیواریں بھی جھاڑیوں سے ڈھکی ہوئی تھیں ۔
صاف ستھری اور پختہ سڑک پہ چلتے ہوئے آہستہ آہستہ ایک پلانٹ کے آثار نمودار ہوتے گئے ، یہ ہے تھر کول پاور پلانٹ جو اسلام کوٹ سے بھی کوئی 25 کلو میٹر کے فاصلے پہ ہے ، یہ پلانٹ چین اور پاکستان کی اقتصادی رہداری کا ایک اہم حصہ ہے ، اس منصوبے میں حکومتِ سندھ کو اینگرو کارپوریشن کا تعاون حاصل ہے ۔ اس منصوبے سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے عوام کی توقعات وابستہ ہیں ، جس طرح دور سے دور سے دھندلا دکھائی دینے والا پلانٹ آہستہ آہستہ پورے جاہ و حشمت کے ساتھ نظروں کے بالکل سامنے آگیا خدا کرے کہ ہماری آنکھوں میں سمائے اس سے وابستہ خواب بھی ایک دن اسی طرح تعبیر بن کے آ کھڑے ہوں ، دل سے بے ساختہ دعا نکلی ۔ہم نے خوب چاہا کہ گاڑی کچھ دیر وہاں ٹھہر جائے اور ہم کچھ دیرخوابوں کے تعبیر بننے کے عمل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں لیکن گاڑی کا ڈرائیور شاید اونچا سنتا تھا یا ہماری اردو اسے سمجھ نہیں آئی ….. بہر حال صاحب نے وعدہ کیا کہ واپسی پہ اس طرف ضرور اتریں گے ۔ گوکہ اس کے ارد گرد تو چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی لیکن کم از کم کچھ تصاویر اس بورڈ کی ہی ہو جاتیں جن پہ تفصیلات لکھی تھیں ، یا پاکستان اور چین کے جھنڈے تلے ہی کچھ دیر کھڑے ہو پاتے ….. بہر حال اندازہ ہؤا کہ تھر کے ریگستان میں یہ پختہ سڑکیں در اصل اسی پلانٹ کی دین ہیں۔
کاش ہم بھی منجھے ہوئے سفر نامہ نگاروں کا سا انداز اپناتے ہوئے دائیں بائیں مڑنے کی تفصیلات اور سڑکوں کے فاصلے لکھ پاتے لیکن افسوس کہ اس صلاحیت سے ہم بالکل ہی عاری ہیں تو بس یوں سمجھ لیجیے کہ چلتے گئے چلتے گئے …..بائیں جانب ایک مخدوش سی عمارت نظر آئی ، عمارت کیا تھی چھوٹے بڑے گنبد ہی گنبد تھے اور اچانک ڈرائیور نے گاڑی ایک جانب لگا دی۔ سامنے کے منظر میں نہ تو خوبصورت برفیلے پہاڑ تھے اور نہ ہی پھولوں کی بہار لیکن جو منظر تھا اس نے ہمیں مبہوت کر دیا تھا ۔
ایک دم سے فضا سا ز و آواز سے پُر ہو گئی ۔منظر کیا تھا …..ایک درخت اور اس کے نیچے کپڑا بچھائے بیٹھا ایک شخص! احساس ہوا کہ جو ساز ہمیں اپنے ارد گرد بکھرتے محسوس ہو رہے تھے ان کا منبع یہاں تھا۔ گلوکار نے تان لگائی’’ کھڑی نیم کے نیچے …..‘‘
ہم تھوڑی دیر اسے دیکھتے رہے اور پھر ڈرائیور کے متوجہ کرنے پہ بائیں ہاتھ پہ دیکھا ، ایک عمارت جس کی اینٹ اینٹ سے قدامت ٹپکتی تھی ، یہ سندھ میں موجودقدیم جین مندروں میں سے ایک تھا ’’گوری مندر‘‘ ۔ ہم نے آگے بڑھ کے وہاں نصب بورڈ دیکھا جس پہ انگریزی اور سندھی میں تفصیلات درج تھیں ، یہ صبح دس اور گیارہ کے درمیان کا وقت تھا ، سردیوں کی دھوپ درخت کے پتوں سے چھن چھن کے میرے اوپر پھسل رہی تھی ، فضا میں تھری باشندے کی آواز کا فسوں تھا ۔
او لال میری پت رکھیو بلا جھولے لالن …..
یہی لمحہ تھا جب تھر نے جیسے دل سے ہمیں آواز دی تھی۔ صحراہمیں اپنی محبت کے سحر میں جکڑ چکا تھا اور ہمیں یقین ہوا کہ محبت لمحے میں وارد ہو جاتی ہے ۔بچے مندر کے ارد گرد ٹہل رہے تھے ، ایک ضعیف العمر لاغر سا پجاری پشت پہ ہاتھ باندھے ادھر سے ادھر ٹہلتا منتظرتھا کہ کب ہم مندر کا رخ کریں ۔مندر میں داخل ہونے سے پہلے باہر نصب معلوماتی بورڈ کے سامنے ایک بار پھر رکے جو کہتا تھا کہ یہ ایک جین مندر ہے جو1375عیسوی میں تعمیر ہوا ، اس عمارت کی تعمیر میں سنگِ مرمر کا استعمال کیا گیا ہے ۔ جس راستے سے ہم اندر گئے وہ ایک چھوٹا سا دروازہ تھا جو کہیں سے بھی قدیم دکھائی نہیں دیا ، اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ اسے بعد میں ہی نصب کیا گیا ہو گا، بہر حال اب ہم مندر کے اندر داخل ہو گئے، سامنے کھڑے ہو کے دیکھیں تو ستون ہی ستون نظر آتے ہیں اور ان کا تعاقب کرتی نظریں اندر صرف اندھیرا ہی دیکھ پاتی ہیں ۔
جوتے ہم سے باہر ہی اتروا لیے گئے تھے۔ ستونوں کے درمیان راہداری تھی جس پہ چلتے ہوئے ہم اندر داخل ہوئے ، اس وقت ہم جس گنبد کے نیچے کھڑے تھے شاید یہی اس مندر کا دوسرا بڑا گنبد تھا ، ایک چھوٹی سی ٹیوب لائٹ کی روشنی اندھیرے کا مقابلہ کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی ، سنگِ مر مر کا صدیوں پرانا فرش اپنی آب و تاب کھو چکا تھا، حکومت نے جگہ جگہ سے اکھڑے فرش کی تعمیر جس بھونڈے انداز سے کی ہے اس پہ بس افسوس ہی کیا جا سکتا ہے ، اوپر نگاہ دوڑائی تو پورا گنبدہی چھوٹی چھوٹی تصاویر سے سجاہؤا تھا۔صدیوں پرانی اس تعمیر میں جانے کیا چیز استعمال کی گئی ہو گی کہ یہ سب ابھی بھی موجود ہے ۔گنبد سے پلٹتے ہوئے نگاہ جب ستونوں سے ٹکرائی تو غور کرنے پہ پتہ چلا کہ ہر ستون میں جابجا بت تعمیر کا ہی حصہ تھے ، اس لیے اس مندر میں ان گنت بت موجود ہیں ۔ابھی ہم جہاں کھڑے تھے وہاں ایک محراب باہر سے داخلے کے لیے تھی ، دائیں اور بائیں جانب کی محرابیں تنگ راہداریوں میں کھلتی ہیں جہاں قطار در قطار بہت ساری ،اندازاً 2X4 کی تنگ کوٹھریاں تھیں ، پجاری کی زبان میں ہمیں صرف ’’چیلے‘‘ کا لفظ ہی سمجھ آیا اور ہم یہ اخذ کر پائے کہ یہ چیلوں کے لیے تعمیر کردہ کمرے تھے جب کہ سامنے کی جانب ایک اور بڑے گنبد کے نیچے کچھ چھوٹے چھوٹے بت رکھے تھے ، پجاری نے بتایا کہ یہاں ایک سونے کا بڑا بت ہوا کرتا تھا جو چوری ہو گیا۔ کب چوری ہوا ؟ ہم نے سوال کیا، انگریزوں کے زمانے میں چوری ہؤا تھا، جواب پاکر جانے کیوں کچھ اطمینان ہؤا۔
بتوں کے آگے ایک دیا ٹمٹما رہا تھا، جین مت کا دیا…..اس وقت مجھے لگا تھا کہ جین مت اب دنیا سے تقریباً معدوم ہو چکا ہے اور اس کی باقیات تاریخی ورثہ کی صورت زیادہ تر تھر اور راجستھان کے صحراؤں کا حصہ بن گئی ہیں ،لیکن بعد میں تحقیق کرنے پہ یہ اندازہ غلط ثابت ہؤا، وکی پیڈیا کے مطابق ہندوستان میں تو جین مت کے پیرو کار کل پانچ لاکھ کے قریب رہ گئے ہیں لیکن دنیا کے دوسرے حصوں میں ابھی بھی اس مذہب کے پیروکار موجود ہیں ،خصوصاً جاپان میں گزشتہ دہائی میں اس کے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہؤا ہے ، جین مت اور ہندو مت کہیں کہیں مماثلت کے باوجود دو علیحدہ مذاہب ہیں ، بلکہ یہ بدھ مت سے بھی الگ ہے ۔بدھ مت کا تعلق بدھا کی تعلیمات سے ہے جب کہ جین مت کا تعلق مہاویر کی زندگی اور تعلیمات سے ۔ یہاں سے نکل کر ہم نے ان کوٹھڑیوں کا رخ کیا جن میں صدیوں قبل جین مت کے چیلے رہا کرتے تھے ، درمیان کے دو بڑے گنبد کے تینوں طرف چیلوں کی کل چوبیس کوٹھڑیاں تھیں، ہر کوٹھڑی کے اوپر ایک چھوٹا گنبد تھا یہ کوٹھڑیاں باہر سے ہی اچھی خاصی وحشت ناک دکھائی دے رہی تھیں ۔ ہمت کر کے ایک کوٹھڑی میں قدم رکھا، ایک عجیب بے نام سا احساس رگوں میں سرایت کر گیا ، ایسا ہی عجیب احساس شاہی قلعے کے زندان خانوں کو دیکھ کے بھی ہؤا تھا، لمحوں نے صدیوں کا سفر کیا اور میری نگاہوں کے سامنے یہ سارے کھنڈر نما کمرے ایک آباد بارونق عبادت گاہ میں تبدیل ہوگئے ،درمیان والی محراب کے نیچے سونے کا چمکتا ہوا بت براجمان ہو گیا اونچے ستون اور گنبد جگمگ جگمگ کرنے لگے ، اور نیچی نیچی چھتوں والی تنگ کوٹھڑیا ں چمکتے سروں والے بھکشوؤں سے بھر گئیں۔
میں سر جھکاتا ہوں مذہبی پیشواؤں کے آگے ، میں سر جھکاتا ہوں شفاف روحوں کے سامنے، میں سر جھکاتا ہوں آزاد روحوں کے سامنے…..
میرے ارد گرد آوازیں بلند ہونے لگیں ، سامنے دیوار سے لگے سیمنٹ کے چبوترے پہ ایک بھکشو سر جھکائے مراقبے میں جھومتا ہؤا نمودار ہؤا اور میں گھبرا کے الٹے پاؤں کوٹھڑی سے باہر نکل آئی۔ صدیوں پرانا مندر ایک لمحے میں کھنڈرات میں تبدیل ہوگیا منقش دیواریں زمانوں کی دھول کے نیچے ماند پڑ گئیں ،دمکتے ہوئے ستونوں میں دراڑیں نظر آنے لگیں ، چمکتا ہؤا سنگ مر مر کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑ گیا اور اس میں جابجا سیمنٹ کے بھدے پیوند نظر آنے لگے ۔ یہ در و دیوار جانے کن کن واقعات کے شاہد ہوں گے ، کتنے ہی کردار ان میں بستے ہوں گے ، کتنی ہی بے چین روحیں یہاں بھٹکی ہوں گی ، کتنوں کو قرار آیا ہو گا اور کتنوں کی بے چینی سوا ہوئی ہو گی ۔
صاحب اور بچے ارد گرد ٹہل ٹہل کر معائنے اور تبادلہِ خیال میں مصروف تھے ۔پجاری بابا اپنی زبان میں جو کچھ سمجھانا چاہتا وہ ہماری سمجھ سے باہر تھا۔ اس موقع پہ وہاں ایک گائڈ کی کمی بھی محسوس ہوئی ، لیکن جو کچھ میں نے دیکھا تھا وہ گائیڈ بھلا کیسے دکھا پاتا!
ہم نے مندر سے قدم باہر رکھے اور زمین پہ کپڑا بچھا کر بیٹھے ہوئے تھری نے تان لگائی ۔
کھڑی نیم کے نیچے ہوں توں ہیکلی …..
صاحب کچھ دیر اس کے پاس ہی بیٹھ گئے ، اس کے سُر اس کا روزگار تھے ، پجاری بھی پُر امید نظروں سے دیکھتا پاس ہی چلا آیا، ہم نے گاڑی میں بیٹھنے سے قبل ایک بار مڑ کے گوری مندر کو دیکھا ، اس میں آنکھوں میں بسانے لائق کہاں کچھ تھا، لیکن پھر بھی ،کہیں کوئی یاد بن کر دل میں رہ گیا، ہم سب گاڑی میں بیٹھے اور تھوڑی ہی دیر میں گاڑی کچے سے نکل کر پکی سڑک پہ فراٹے بھرنے لگی ۔
پی ٹی وی پہ ایک ڈرامہ دیکھا تھا ، ماروی ، اور یاد نہیں کہ اردو یا سندھی کی کس درجے کی کتاب میں سبق پڑھا تھا ’’ عمر مارئی‘‘ ۔ ماروی کا کردار بچپن سے ہی دل کے بے حد قریب تھا ، ایک بہادر اور غیرت مند لڑکی جس نے کسی بھی چیز کے عوض اپنی حدود کو پامال نہ ہونے دیا۔ہمارا رخ اب ماروی کے کنویں کی طرف تھا۔’’ ماروی جو کھوہ‘‘ دل کے تار چھیڑتی ایک انوکھی کہانی ، حکومت نے یہاں باقاعدہ ایک ثقافتی مرکز بنا یا ہے ، تھر کے پورے دورے میں واحد یہ جگہ تھی جہاں باقاعدہ انتظامیہ تھی ، سلاخوں والا مخصوص داخلی دروازہ کھلا تھاجس کے باہر ڈھول والے کھڑے تھے۔ ہمارے گاڑی سے اترتے ہی زور دار ڈھول کی آوازوں سے ماحول گونج اٹھا ، چلیں توپوں کی سلامی نہ سہی ، ڈھول کی سلامی سے استقبال ہؤا۔ داخلی روش کے عین سامنے ہی ایک کنواں تھا ، ماروی کا کنواں ،اب کیا کریں کہ ہماری تصور کی آنکھ بھی فوراً ہی مائل بہ کرم ہو جاتی ہے ، بس پھر کیا تھا کنویں کے پاس کھڑے بڑے میاں ایک دم ہی ماروی میں تبدیل ہو گئے ۔
یہاں ایک صاحب بطور باقاعدہ گائیڈ موجود تھے ، سب سے خاص بات یہ کہ اردو میں بات سمجھا رہے تھے ۔ یہاں راہداری کے اطراف میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ چونرا بنے ہوئے ہیں ، جن میں سے کچھ چیزیں ماروی سے متعلق ہیں جب کہ کچھ سندھ کی ثقافت سے متعلق ۔ انہی میں سے ایک چونرے میں ماروی اور اس کی سہیلی کا مجسمہ بھی رکھا ہے ، ان کے آگے چرخہ دھرا ہے ، دونوں نے سروں پہ اوڑھنیاں ڈال رکھی ہیں ، ان کے مد مقابل عمر بادشاہ کا بڑا سا مجسمہ بھی ہے جو بہت غرور کے ساتھ گردن اونچی کیے بیٹھا ہے۔گائڈ نے ہمیں ماروی کی جو کہانی سنائی وہ باقی سنی گئی کہانیوں سے مختلف نکلی۔ اس کے مطابق عمر کی کسی دائی یا نوکرانی نے بتایا کہ یہ ماروی رشتے میں تمہاری بہن لگتی ہے ، جس کے بعد اس نے اسے چھوڑ دیا۔ بہرحال اصل کہانی جو بھی ہو ، سب ہی داستانوں میں ماروی کی ثابت قدمی مشترک ہے اور اس کی یہی بات مجھےبہت اچھی لگتی ہے ۔ یہاں ہم نے ماروی کے زیرِ استعمال رہنے والی چوڑیاں بھی دیکھیں ،آپ انہیں چوڑیاں کی جگہ چوڑی بھی کہہ سکتے ہیں ، تانبے سے بنی ہوئی ایک ہی چوڑی جو کلائی سے شروع ہوکے کہنی تک یا اس سے بھی اوپر جاتی ہے ۔ ماروی کے کنویں پہ چرخی لگی ہوئی ہے ہم نے بھی باری باری اس کنویں سے پانی نکالا ، رسی کا ایک سرا چرخی میں بندھا تھا جب کہ دوسرے سرے پہ چمڑے کا مشکیزہ سا بندھا ہؤا تھا، بھرے ہوئے مشکیزے کو اوپر کھینچنا شروع کیا تو احساس ہؤا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔یہاں بھی ایک تھری باشندہ چونرا کے انداز میں بنی جھونپڑی میں بیٹھا سندھی ٹوپی لگائے سندھی زبان میں گیت گا رہا تھا، صاحب اس کے قریب ہی بیٹھ کے سُر میں سُر ملانے کی کوشش کرنے لگے۔
شوق پورا ہؤا تو ہم نے گلوکار صاحب سے کچھ سوالات کیے جن کے ذریعے علم ہؤا کہ جب سے سڑک بنی ہے یہاں سیاحوں کی تعداد میں کجھ اضافہ ہؤا ہے ، انہوں نے بتایا کہ کسی کسی دن تو دس بارہ سیاحتی گروہ بھی آ جاتے ہیں اور کبھی بس ایک دو۔اندر مختلف شیشے کے چوکھٹوں میں سندھ کی ثقافت کی نمائندگی کرتی اشیا کو رکھا گیا ہے ، کچھ چوکھٹے خالی بھی ہیں۔ اسی طر ح کچھ چونرا بھی مقفل ہیں ، بہر حال حکومت کی اچھی کوشش ہے ۔
وہاں سے باہر نکلے تو ڈھول والے ، چوکیدار ، اور باہر گاڑی پہ کپڑا پھیرنے والے سب ہی خرچی کے منتظر تھے ، اسمٰعیل کو ارطرل کی مانند کوئی گھوڑا تو نہیں ملا ، لیکن اس نے اونٹ پہ سواری کی یہ کہتے ہوئے کہ ارطرل اونٹ پہ بھی بیٹھتا تھا۔ اس سے قبل کراچی کے ساحل پہ اونٹ کی سواری کی تھی ، لیکن جانے کیوں آج کا تجربہ ذرا مختلف تھا جس کے نتیجے میں اسمٰعیل میاں کافی عرصے اونٹ نامی مخلوق سے کھنچے کھنچے ہی نظر آئے ، راستے میں جہاں اونٹ نظر آتا وہیں منہ بنا کے رخ دوسری طرف کر لیتے۔ ماروی جوکھو ( ماروی کا کنواں ) سے نکل کر گاڑی پھر صحرا کے درمیان بنی سڑک پہ رواں دواں تھی ، خیالات کی رو اور گاڑی کی رفتار میں مقابلہ جاری تھا ، فاطمہ کے لیے ارد گرد کے مناظر میں میری سوچ سے زیادہ کشش تھی ، و ہ ہر تھوڑی دیر پہ کسی نہ کسی گزرتے منظر کو اپنے کیمرے میں قید کرنے کی کوشش میں مصروف تھی ۔ اسمٰعیل کے لیے یہ تمام مناظر ایسے ہی تھے جیسے میرے لیے بچپن میں امی ابا کے ساتھ سفر کے دوران کراچی سے گوجرانوالہ یا ملتان کے راستے میں آنے والے مناظر۔ اب سوچتی ہوں کہ کیا بے فکری کا دور تھا ، ریل گاڑی کی کھڑکی سے پیشانی ٹکائے اور ناک کو چپٹا ہو جانے کی حد تک چپکائے باہر کے ہر منظر کو اپنے اندر اتارتی جاتی تھی ، لیکن وہ مشاہدہ بے حد سادہ اور فطری سا ہؤا کرتا تھا، میری نظروں کا محور تیز رفتاری سے گزرتے مناظر ہوتے تھے اور امی ابا کی نظروں کا محور میں ہؤا کرتی تھی ، والدین اور اولاد کی زندگی کی حقیقت بھی تو یہی ہے ! دانیال میرے کندھے پہ سر ٹکائے سو چکا تھا ، صحرا کے سفر نے میری مامتا کی پیاس ایسے بھی بجھائی تھی ، بچوں سے قریب ہونا انہیں جذباتی طور پہ ساتھ ہونے اور پیار کا احساس دلانے کا بہت مفید ذریعہ سفر ہے، سویہ سفر وسیلہِ ظفر بھی بن رہا تھا۔
سڑک کے اطراف ہر تھوڑی دیر پہ ایک نیلا بورڈ نصب دکھائی دیتا ، جس پہ کسی نہ کسی گوٹھ کا نام لکھا ہؤا تھا، مجھے فی الحال تو سمجھ نہیں آئی کہ یہ بے شمار گوٹھ الگ الگ ناموں سے آخر کیوں ہیں ۔ پورے تھر میں کہیں بھی صرف ریت ہی ریت دکھائی نہیں دی ، صحرا کے مخصوص پودے اور جھاڑیاں ہر طرف بے ترتیبی سے اگے ہوئے تھے ، کچھ گہری سبز اور بالکل جھاڑ میں تبدیل شدہ سوکھی ٹہنیاں ، نگاہوں کی آخری حد پہ ریت کے ٹیلے بھی نظر آتے جو کہیں کہیں پہاڑ سی شکل میں تبدیل ہو جاتے ، ان کے درمیان کہیں دھندلے سے بجلی کے ہائی ٹینشن پاور کھمبے بھی دکھائی دیتے ۔ تقریباً بیس منٹ مسلسل سفر کے بعد بائیں ہاتھ پہ پاکستان رینجرز کے کچھ اہلکار ایک درخت کے نیچے چھوٹی سی میز پہ بیٹھے نظر آئے ، کاہی سبز رنگ کے بورڈ پہ انگریزی میں تنبیہہ لکھی تھی کہ اس پوسٹ سے آگے غیر ملکی افراد وزارتِ داخلہ سندھ کے خصوصی اجازت نامے ، پولیس کی حفاظت اور پاسپورٹ اور ویزہ کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے ۔گاڑی سڑک کے ایک کنارے رک گئی ، ڈرائیور اور صاحب اتر کے چوکی پہ گئے ، شناختی کارڈ نمبر کا اندراج کروایا ۔ہمیں لگا کہ اگلی منزل قریب ہی ہو گی لیکن ابھی سفر باقی تھا، یہاں رینجرز کی موجودگی اور اس قدر حفاظتی اقدامات کا سبب یہ تھا کہ اب وہ علاقہ شروع ہو رہا ہے جہاں سرحدیں ہندوستان سے ملتی ہیں ۔ احساسات عجیب سےہونے لگے ، بظاہر زمیں پہ خار دارتاروں سے کھینچی گئی ایک لکیر ہی تو ہے لیکن اس پار اور اس پار میں کتنا فرق ہے ، خاص بات یہ ہے کہ لباس اور ثقافت بھی ایک دوسرے سے بہت مماثل ہیں ، لیکن وہ جو نہ نظر آنے والی چیز عقیدہ ہے وہ بالکل جدا اور سب پہ حاوی ہے۔ اس سڑک سے تیز رفتاری سے گزرتے ہوئے عجیب سی کیفیت رہی ، ہوا کا ہر جھونکا کانوں میں سرگوشی کرتے ہوئے جاتا کہ تم ایک آزاد ملک کے شہری ہو اور رواں رواں شکر بجا لاتا۔دانیال گوگل میپ سے دیکھ دیکھ کے بتاتا رہا کہ بھارت کا کون سا شہر یہاں سے کتنے کلو میٹر دور ہے ۔
(جاری ہے )
٭٭٭
یونہی گوگل گوگل کھیلتے کھیلتے گاڑی رکی تو سامنے ایک قدیم مسجد تھی ، مسجد بودھیسر ، سن 1505 میں تعمیر کردہ کارونجھر کے دامن میں واقع ڈیم کے کنارے بنی یہ مسجد اپنے وقت کی خوبصورت مسجد تھی ۔ یہ مسجد مکمل طور پہ سفید سنگِ مرمر سے تعمیر کردہ ہے ، بورڈ پہ لکھی معلومات پڑھ کے اندازہ ہؤا کہ اس مسجد کی تعمیر بھی گنبد کے لحاظ سے ہندو اور جین مذاہب کی عبادت گاہوں کے تعمیراتی انداز میں کی گئی ہے ۔ گوری مندر کے مقابلے میں یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی ، دونوں ہی کی تعمیر میں سنگِ مر مر کا استعمال کیا گیا تھا لیکن گوری مندر اندر سے کافی بند اور گھٹا گھٹا سا تھا جب کہ یہاں کشادگی کا احساس ہوتا تھا ۔مرکزی دروازے سے مسجد کے برآمدے تک جانے کے لیے ایک کچی راہداری بنی ہوئی تھی جس کے اطراف کئی قبروں کے تعویذ ابھرے ہوئے تھے ۔ ایک دو قبریں بے حد پرانی محسوس ہو رہی تھیں ، بے نام و نشان قبریں ، ان میں مدفون ہستیاں یقیناً اپنے وقت کی خاص شخصیات ہوں گی تب ہی تو ا نہیں یہاں اس مسجد کے پاس جگہ دی گئی۔ بے ترتیبی سے بنی یہ قبریں عجیب منظر پیش کر رہی تھیں ، ایک دو پہ نام بھی نصب تھے لیکن کیا کہیے کہ سنگِ مرمر کے نام کنندہ کتبے اس طرح سے ٹوٹے ہوئے تھے کہ ایک کے نام کا حصہ’’ فقیر‘‘ باقی بچا تھا جبکہ دوسری قبر پہ رکھی تختی کا نام سرے سے غائب تھا ۔البتہ ولدیت’’شاہ بخش کھوسو ‘‘لکھی نظر آ رہی تھی ۔ ان ہی دو قبروں پہ گہری سبز ریشمی چادریں بھی تھیں جنہیں اڑ جانے سے بچانے کے لیے پتھروں سے دبا یا گیا تھا اور ان ہی دو قبروں کے درمیان لکڑی کا ایک بوسیدہ سا جھولا تھا ۔ کچھ قبریں بالکل ہی راہداری کے درمیان میں بنی تھیں ، ان سے بچتے بچاتے ہم مسجد میں داخل ہوئے ، پرسکون سے احساس نے دل کو ٹھہرا دیا۔
خوش قسمتی سےظہر کے وقت ہم اس مسجد میں پہنچ گئے تھے سو نماز ادا کرنے میں آسانی رہی ۔ نماز یہاں بس اسی وقت ہوتی ہے جب کوئی سیاح آ جائے ، وہاں موجود ایک تھری نے بتایا جو مسجد کی دیکھ بھال کرتا نظر آ رہا تھا ۔ اس سے بھی حکومت کے تعاون کے بارے میں سوال کیا اور اس کا جواب بھی مختلف نہ تھا، اتنے قدیم تاریخی مقامات تو ریاست کا اثاثہ ہوتے ہیں ،لیکن ٹھنڈی آہ بھرنے کے سو ااور کیا کیا جا سکتا ہے ، سو ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے ہم مسجدِ بودھیسر سے باہر نکل آئے ، باجی خرچی ، صاحب خرچی ، خرچی کی پکار کے ساتھ پھیلتے کئی ننھے منے ہاتھ ایک دم سے ہمارے سامنے آ گئے ۔المیہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کاسہ کلچر سا جنم لینے لگا ہے ، کاسہ سب ہی کے ہاتھ میں ہے،کوئی مختلف ٹی وی شوز پہ فلاں بھائی بائیک ، فلاں بھائی ٹی وی یہاں تک کہ عمرہ کا ٹکٹ بھی باآواز بلند مانگتے ہیں ، کچھ مختلف بازاروں اور تفریحی مقامات پہ آپ کے پیچھے بھاگتے ہیں ان بے چاروں کا کاسہ تو بس ترس کھا کے بھر دیا جاتا ہے ، جب کہ حکمرانوں کا کاسہ !قوم کی غیرت و حمیت اور جانے کتنے وسائل گروی رکھے جاتے ہیں کیا کیا شرائط لگائی جاتی ہیں ، اور ہماری ہر نئی نسل کے پچھلی نسل سے بڑھ کر مقروض ہونے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کوئی تحقیق تو کرے کہ یہ کاسہ کلچر اوپر سے نیچے سفر کر کے آیا ہے یا نیچے سے اوپر منتقل ہؤا ہے!
ہماری اگلی منزل تھی ساردھرو دھام!
پہاڑی کی اونچائیوں کے درمیان بنے جھاڑیوں سے گھرے ٹیڑھے میڑھے راستوں سے گزرتے ہوئے ہم نے ان گنت مور دیکھے ، ویسے سچ یہ ہے کہ دو دن کے قیام میں ہم نے تھر میں اتنے مور دیکھے جتنے اپنے شہر میں بلّیاں اور کتے دیکھتے ہیں ۔ ساردھرو دھام مندر کو باہر سے ہی دیکھا اور ذرا آگے ڈھلان میں اترے ، جہاں ہمارے ڈرائیور کے بقول ساردھرو دھام کی جھیل واقع تھی ، یہ خوبصورت ہری بھری چھوٹی سی وادی دراصل پہاڑی سلسلے کارونجھر کے دامن میں واقع ہے ، ہماری نظریں سب سے پہلے پر شکوہ پہاڑ سے اور پھر ارد گرد پھیلے سبزے اور ان میں پھرتے موروں پہ جا ٹکیں ۔ ڈرائیور کی بتائی گئی جھیل کا خیال آیا تو اسے ارد گرد ڈھونڈا لیکن جھیل ہوتی تو نظر آتی ، یہ تو ایک عدد تالاب تھا جس کی تہہ میں کائی زدہ پانی جمع تھا۔کوئی مایوسی سی مایوسی ہوئی ، ، بچپن میں ہمیں جو بھی اپنا کام ڈھنگ سے کرتا نہ نظر آتا ہم ٹھان لیتے کہ بڑے ہو کر یہی بنیں گے اور یہ کام ٹھیک طرح انجام دیں گے ، تو ہم تصور میں ڈرائیور ، کنڈکٹر ،دکان دار حتیٰ کہ وزن کی مشین لیے بیٹھنے والا بابا بھی بن جایا کرتے ، بچپن کی خواہش مچلتی ہوئی سامنے آئی اور دل چاہا کہ ہم خود ہی گائیڈ بن جائیں ۔
بہر حال اس کائی زدہ گدلے پانی کا تو نہیں پتہ کہ صدیوں پرانا تھا یا نہیں ، البتہ اس سے منسوب صدیوں پرانا واقعہ بہت دلچسپ ہے۔ ساردھرو کا تعلق ہندو مذہب کی ایک اونچی ذات سے تھا، جس سے کوئی بڑا گناہ سرزد ہوگیا اور اسے اس بات کا شدت سے احساس ستانے لگا کہ اس گناہ کی وجہ سے اب اس کا جسم پاک نہیں رہا ، اس احساس سے نجات پانے کے لیے اس نے ہندو دھرم کا علم رکھنے والے کچھ خاص افراد کو اکٹھا کیا اور ان کے سامنے اپنی پریشانی رکھی ، اپنے علم کے ذریعے تمام شرکا مشورہ نے یہ کہا کہ اڑسٹھ دریاؤں کا پانی ایک جگہ اکٹھا کر کے اشنان کرو تو تمہارے جسم کی ناپاکی ، پاکی میں بدل جائے گی ، اسی غرض سے مذکورہ مقام پہ ساردھرو نے اڑسٹھ دریاؤں کا پانی جمع کر کے اشنان کیا اور اس طرح گویا خود کو پاک کیا۔ ہمارے لیے بڑی آسانی ہے کہ استغفار کرو ، روؤ ، گڑگڑاؤ اور پاک ہو جاؤ ۔بہرحال یہ ساری معلومات صرف سندھی زبان میں بورڈ پہ درج تھیں ، جن کا ترجمہ و خلاصہ ہماری نئی تھری دوست نے بعد میں کیا۔ اس وقت توابھی ہم کائی زدہ پانی میں حیرانی و پریشانی سے دیکھ ہی رہے تھےکہ ایک بچہ چھلاوے کی طرح اچھلتا کودتا ہمارے قریب آ کے گویا ہؤا، اس پہاڑ پہ چڑھ کے واپس آ سکتا ہوں صرف چار منٹ میں ، ہم نے ہونقوں کی طرح اسے دیکھا، باجی سچ کہہ رہا ہوں ، یو ٹیوب پہ وڈیو بھی ہے میری ، ہم نے صاحب کی جانب دیکھا جو جگہ جگہ خرچی بانٹ بانٹ کر اب کنگال ہونے کو تھے ، انہوں نے ہماری آنکھوں میں تحریر درخواست کو اچھی طرح پڑھنے سمجھنے کے بعد شان بے اعتنائی سے رد کرتے ہوئے واپسی کے راستے کی جانب قدم بڑھا دیے ۔ ہم نے جان بوجھ کے رفتار ذرا ہلکی رکھی ۔
بات سنو ! ہم نے قدرے جھک کے ننھے کوہ پیما کی جانب دیکھا ۔
میں تمہاری وڈیو ضرور دیکھوں گی ، لیکن ایک کام کرو، تم نا یہاں کی ساری جگہوں کے بارے میں خوب معلومات حاصل کر کے گائیڈ بن جاؤ۔ وہ عجیب لاپروائی سے ہماری طرف دیکھتا رہا اور ہم برا مانے بغیر اپنی کہتے رہے ۔
تو صاحبو! مستقبل میں آپ تھر جائیں اور آپ کو وہاں ایک عدد پکا گائیڈ ملے تو سمجھ جائیے گا کہ اس کارِ خیر میں ہمارا بھی کچھ حصہ ہے ۔٭