میرے پچھلے مضمون میں قہوے کا ذکر ہؤا تھا۔ قہوہ عربی زبان کا لفظ ہے اور کافی اسی کی تبدیل شدہ شکل ہے۔جس طرح عربی کے کچھ اور الفاظ تبدیل ہو کر انگریزی زبان کا حصہ بن چکے ہیں، اسی طرح قہوے نے بھی کافی کی ہیئت اپنا لی ہے۔ قہوے کی دکانوں کو ’’مقہی‘‘ کہا اور لکھا جاتا ہے۔
پاکستانی کھانے بھی یہاں پر کافی پسند کیے جاتے ہیں۔ ہمارے پچھلے شہر میں بھی کچھ مشہور پاکستانی ریستوران تھے جن میں سے ایک ’’ایسٹ اینڈویسٹ‘‘ تھا۔ اس ریستوران کا ذکر پہلی بار میں نے ایک سعودی سے ہی سنا تھا۔ میں اپنے بینک مینیجر کے کمرے میں کسی دستاویز کا انتظار کر رہی تھی۔ ایک سعودی صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے میرے کوٹ سے اندازہ لگا لیا کہ میں نیول بیس ہسپتال میں ڈاکٹر ہوں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ‘‘ ان کا ریستوران ہے۔ اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ وہ اس میں ایک پاکستانی کے ساتھ حصہ دار ہیں۔ ہمیں ابتدا میں اس ریستوران کے کھانوں کا ذائقہ روایتی پاکستانی کھانوں سے مختلف لگا، اگر چہ فرق اتنا زیادہ نہیں تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ جب ہم سعودی عرب میں رہنے کے اور ذائقوں کی تبدیلی کے عادی ہو گئے تو اس ریستوران کا کھانا بہت دل کو بھایا۔ جن پاکستانی صاحب نے یہ ریستوران شروع کیا، سنا ہے کہ وہ مزدور تھے۔ کسی طریقے سے انہوں نے اس کاروبار کا بہت چھوٹے پیمانے پر آغاز کیا، اور وقت کے ساتھ اس نے اتنی ترقی کی کہ کیا پاکستانی اور کیا سعودی، ہر کوئی اس کے ذائقوں کا اثیر ہو گیا۔ ریستوران اب بھی پاکستانی علاقے میں ہے اور بالکل سادہ ہے۔ بیٹھنے کی جگہ کچھ زیادہ عمدہ نہیں ہے اور صرف حضرات کے لیے ہے۔اکثر لوگ کھانا بندھوا کر لے جاتے ہیں۔ اسی طرح مٹھائی کی ایک بہت مشہور دکان جبیل میں ہے، نرالا سویٹس کے نام سے۔ اس کا کوئی تعلق لاہور والی نرالا سویٹس سے نہیں تھا۔ ان کی مٹھائیاں اس قدر لذیذ ہیں کہ ہمارے کئی دوست احباب پاکستان بھی لے جاتے ہیں، خاص طور پر ان کے گلاب جامن اور لڈو انتہائی اچھا ذائقہ رکھتے ہیں۔ الخُبرمیں ایک ریستوران’’بندو خان‘‘کے نام سے ہے، اگرچہ اس کا بھی پاکستان میں موجود مشہور’’بندو خان‘‘ ریستوران سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کھانابھی بہت عمدہ ہے۔ خاص طور پر ان کے روغنی نان بالکل پاکستانی نان جیسے ہیں۔ بیٹھنے کی جگہ بھی اچھی ہے۔ جبیل ہی میں ایک اور بہت اچھا پاکستانی ریستوران’’مصالحہ ‘‘ہے۔ اس کے کھانے بھی بہت اچھے ہیں اور یہ کافی مشہور ہے۔ اکثر پاکستانی دعوتیںیہی ہوتی تھیں۔ ہماری الوداعی دعوت بھی وہیں ہوئی۔ اس دعوت کے علاوہ ایک اور الوداعی دعوت جو ہمارے ایک ہندوستانی ڈاکٹر نے دی، وہ بھی اسی ریستوران میں ہوئی۔ کچھ عرصہ پہلے ہی فناطیر جبیل میں ایک اور پاکستانی ریستوران’’تایا‘‘ کے نام سے کھلا ہے۔ اس کا کھانا بے حد پاکستانی ذائقے والا ہے۔ تایا ریستوران ایک برازیلی ریستوران ’’براسا ڈی برازیل‘‘ کا حصہ ہے۔ جبیل میں دونوں ریستوران ایک ہی بڑی سی عمارت میں ہیں، اور بیٹھنے کی جگہ بہت عمدہ ہے۔
ریاض میں بھی بہت سے پاکستانی ریستوران ہیں۔ ان میں سب سے مشہور’’باربی کیو ٹو نائٹ‘‘ ہے جو ہمارے گھر سے بہت قریب ہے اور میرے ہسپتال کے راستے میں ہے۔ یہاں پر رات کا کھانا بوفے ہوتا ہے جو قیمت کی اعتبار سے بہت مناسب اور ذائقے میں لاجواب ہے۔ اس ریستوران کے کاروبار کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے کی سند آویزاں کر رکھی ہے۔ ان سے بھی زیادہ مشہور اور پرانا ایک اور پاکستانی ریستوران ’’لاہوری کھابے‘‘ہے۔ سعودی عرب میں پہلی بار ہم نے جو پاکستانی کھانا کھایا تھا، وہ اسی ریستوران کا تھا۔
اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ہم گیارہ اگست اور گیارہ ہی رمضان کو 2011 عیسوی میں مملکت میں داخل ہوئے۔ انیس دن کے بعد عید تھی اور ہمیں عید پر چھٹی مل گئی۔ یہ پہلی عید تھی جو ملک سے دور اور اکیلے منائی جانی تھی۔ ہم نےسوچا کہ کیوں نہ یہاں اداس اور پریشان رہنے کی بجائے مکہ المکرمہ چلے جائیں اور عمرہ بھی کرلیں، عید بھی منا لیں۔ ہمارے میاں صاحب نے اپنے دوست احباب سے ذکر کیا تو اللہ نے ہمارے جانے کا سبب بھی بنا دیا۔ اس وقت نہ ہمارے پاس سواری تھی اور نہ ہی ابھی ہمارے اقامے بنے تھے۔ میاں صاحب کے ایک دوست فرشتہ بن کر آئے اور ہمیں جبیل سے دمام ریلوے اسٹیشن پر عید کی صبح چھوڑ گئے۔ ہم نے دمام سے ریاض کی بکنگ پہلے سے کرا رکھی تھی۔ ریاض پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے جس فرشتے کو بھیجا، انہوں نے ہمیں اسٹیشن سے لیا اور ہم مکہ کی طرف چل پڑے۔ فجر کی نماز ہم نے حرم میں پڑھی۔ اس کے بعد عمرہ کیا، اور پھر ہم جدہ آ گئے۔ جدہ میں کنگ فیصل سپیشلسٹ ہسپتال میں میری بہت عزیز دوست کام کر رہی تھی۔ ہم اس کے پاس ٹھہرے، بچے تو بے سدھ ہو کر سو گئے، لیکن ہم کچھ آرام کر کے شام کو پھر طواف کرنے کے لیے مکہ چلے گئے۔ رات اپنی دوست کے پاس گزار کر اگلے دن ہم مدینہ روانہ ہو گئے۔ مدینہ میںایک دن گزار کر اور حرم میں اللہ کی توفیق سے کچھ نمازیں ادا کر کے ہم نے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔ ریاض پہنچے تو رات ہو چکی تھی۔ جاتے ہوئے ہم نے ایک مشہور سعودی فاسٹ فوڈ چین’’کودو‘‘ سے کھانا کھایا تھا، جو بہت پھیکا لگا تھا۔ ہمارے راہبر اور فرشتہ نما دوست ہمارے لیے فکر مند تھے۔ انہوں نے ریاض میں رک کر ’’لاہوری کھابے‘‘ سے کھانا لینے کی تجویز دی جو ہم نے وقت کی کمی اور ساڑھے تیرہ سو کلو میٹر طویل سفر کے باوجود فورا ًمنظور کر لی۔ ہم نے وہاں سے پاکستانی کھانا لیا جو گاڑی ہی میں سفر کے دوران کھایا۔ ماہر القادری نے خوب لکھا ہے ’’لذتوں کی ماری زبان‘‘ ، بے شک بیرون ملک قیام کی صعوبتوں میں سے ایک اپنے ذائقے کی تسکین کی تلاش کی صعوبت بھی ہے۔ لاہوری کھابے ریاض کا بے حد معروف اور شاید سب سے قدیم پاکستانی ریستوران ہے۔ اس کے قریب ہی ایک بہت مشہور پاکستانی مٹھائی کی دوکان ہے’’بابا سویٹس‘‘۔ ان کی مٹھائیاں ہر پاکستانی کی پسندیدہ ہیں۔ ان کے دہی بڑے بھی نہایت لذیذ ہیں۔ ایک بار ہم نے الخُبر میں مشہور ہندوستانی سپر مارکیٹ ’’لولو‘‘ سے بڑے شوق سے دہی بڑے خریدے۔ لیکن کھانے کے بعد طبیعت کچھ بوجھل ہو گئی۔ انہوں نے میٹھی چٹنی کے بجائے دہی میں چینی شامل کی ہوئی تھی۔ شاید وہ دہی بڑوں کی میٹھی قسم تھی۔ لیکن بابا سویٹس کے دہی بڑے لاہور کی یاد دلا دیتے ہیں اور ہمارے ذائقے کے عین مطابق ہیں۔ لاہور کی یاد کی بھی ہم نے اپنے تئیں خوب کہی۔ یاد تو اسے کرتے ہیں جو کبھی بھولا ہو، اور لاہور کا تو یہ عالم ہے کہ
ہائے کشمیر! تیرے ہوتے ہوئے
ہم نے لاہور سے محبت کی
پاکستانی اور ہندوستانی کھانوں میں بہت سی چیزیںیکساں ہونے کے باوجود کچھ فرق بھی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں ہندوستانی کھانا کھانے میں اکثر طبیعت کو بہلانا پڑا۔ سعودی عرب اور ملائشیا میں ملنے والے ہندوستانی کھانوں میں ایک تیز مہک ہوتی ہے جو شاید ہینگ کی وجہ سے ہے۔ ایک بار سفر کے دوران ہم نے مدینہ شریف سے واپسی پر ریاض کے قریب آ کر ایک ہندوستانی ریستوران سے کھانا لیا۔ دال اور روٹی تھی، لیکن اس تیز مہک کی وجہ سے دال بہت تھوڑی کھائی گئی۔ اسی طرح ملائشیا میں چونکہ ہندوستانی پس منظر رکھنے والے افراد ملے اور چین قومیت کے ساتھ تین بنیادی قومیتوں میں سے ہیں، اس لیے وہاں پر ہندوستانی ریستوران بہت ہیں۔ ان میں سے ایک خاص قسم کے ریستوران کو’’ماما ریستوران‘‘کہتے ہیں جہاں عام طبقہ کھانا کھاتا ہے۔ ہم بھی اکثر وہیں سے کھانا کھاتے تھے۔ اس لیے کہ وہاں پر تندور کی تازہ اور گرم روٹی ملتی تھی لیکن دال کا وہی مسئلہ کہ اس میں سے بہت تیز مہک آتی تھی اس لیے روٹی سے لطف اٹھاتے ہوئے ہم پلیٹ کے کنارے سے دال لگا کر کھانا کھاتے تھے۔ ملائشیا میں ایک اور بے حد دلچسپ تجربہ ہؤا۔ وہاں ماما ریستوران میں پانی میں چینی گھول کر شربت تیار رکھا ہوتا ہے۔ حسب ضرورت اس میں لیموںیا دودھ پتی ملا کر سکنجبین یا چائے تیار ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ ملائشیا میں ہماری طرح کی گرما گرم چائے کا رواج نہیں ہے۔ اگر گرم چائے لینا ہو تو “تی تاری”یعنی گرم چائے کہنا پڑتا ہے۔ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے جب وہ ہمارے لیے سکنجبین یا لیموں پانی بناتے تھے۔ بالٹی میں سے شربت نکالا، اس میں لیموں نچوڑا، برف ڈالی، اگر برف زیادہ ہو گئی تو ہاتھ سے واپس نکال لی۔ یہ سب دیکھ کر بھی ہم وہ سکنجبین ہنسی خوشی پی جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے بیماری سے بھی محفوظ رکھا۔
جبیل میں ہماری ایک ہندوستانی مڈ وائف بہت عمدہ پراٹھا اور مرغی کا قورمہ بناتی تھی۔ میرے بچوں کو وہ بہت پسند تھا،اور کچھ عرصے کے بعد وہ اس کی ضرور فرمائش کرتے تھے۔ جب ہم جبیل سے آئے تو اس نے خاص طور پر وہ قورمہ اور پراٹھے تیار کر کے ہمارے گھر بھجوائے۔ وہاں سے رخصت ہوتے ہوئے آخری دن اتنا کھانا اکٹھا ہو گیا کہ ہمیں اور کچھ سمجھ نہ آیا تو ہم نے اپنے ہمسائیوں کو تحفتاً بھیج دیا۔ اسی طرح مختلف موقعوں پر ہمارے مدیر مستشفیٰ یعنی ہسپتال کے ڈائریکٹر کے گھر سے بھی عربی اور مغربی کھانا آیا کرتا تھا۔ ہم بھی انہیں مغربی کھانوں کے ساتھ خالص پاکستانی کھانا ضرور بھیجتے تھے، البتہ اس میں مرچیں کافی کم رکھتے تھے۔ پاکستانی کھانے جو جبیل میں ہمارے غیر پاکستانی حلقہ احباب میں مشہور رہے، ان میں پکوڑے، فروٹ چاٹ، بریانی، پراٹھا اور قورمہ شامل ہے۔ ہمارے شعبے کی دعوتیں ان کھانوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھیں۔ دعوتوں میں کھانوں کی میز اس قدر متنوع ہوتی تھی کہ دیکھ کر ہی دل خوش ہو جاتا تھا۔ ایک طرف یہ پاکستانی کھانا، دوسری طرف فلپنی نوڈل اور اس کے ساتھ عربی طعام۔ ہماری سعودی ساتھی جو استقبالیہ پر ہوتی تھیں، ہمیشہ بہت اچھا سعودی کھانا بنا کر لاتی تھیں۔ جیسے کبسہ، تلی ہوئی مرغی۔ اور کچھ بھی نہیں بچتا تھا۔سب کھانا کھایا جاتا تھا، اور جو بچ جاتا اسے تقسیم کر دیا جاتا۔
جہاں ملائشیا کے کھانوں کا بھی کچھ ذکر ہو گیا، تو کیوں نہ کچھ ذکر جنوبی امریکہ کا بھی اس بارے میں ہو جائے۔ لیکن اس سے پہلے کچھ تفصیل ذرا ملائشیاکی۔ جیسا کہ ملائشیامیں تین طرح کی قومیتیں آباد ہیں،یعنی ملے، چینی اور ہندوستانی، اسی طرح ان کے کھانے بھی تین ہی طرح کے ہیں۔ ملے کھانوں میں مرچیں اور لہسن کافی ہوتا ہے۔ اس لیے کبھی اگر ملائشیامیں کھانا منگوانا ہو تو Spicy کہنے کی ضرورت کبھی نہیں پڑتی۔ ہم نے ایک بار یہ غلطی کی تھی، اور اس کے نتیجے میں ہمارے کانوں سے دھواں نکلنے لگا تھا۔ ملائشیاکا عمومی کھانا کراچی کے کھانوں جیسا مرچوں کا تناسب رکھتا ہے۔
چینی کھانے کے لیے اگر کسی ریستوران کا انتخاب کرنا ہو تو پہلے دیکھنا ضروری ہے کہ وہ حلال ہے کہ نہیں۔ سب چائنیز ریستوران ملائشیامیں حلال نہیں ہیں۔ وہاں چونکہ مچھلی اور سمندری خوراک کافی کھائی جاتی ہے، اور کھانوں میں ناریل کا بھی کافی استعمال ہوتا ہے، اس لیے عموماً وہاں کے مالوں اور فوڈ کورٹ میں ایک تیز مہک ملتی ہے۔ کئی ملائشیائی پھل بھی ایسے ہیں جن سے بہت تیز مہک آتی ہے جو سلفر جیسی ہوتی ہے، ان میں سے ایک جیک فروٹ ہے۔ ہمیں اسے کھانے کا بہت شوق تھا، لیکن ڈر کے مارے کھایا نہیں کہ کہیں اس کی مہک کی وجہ سے اپنے تئیں کچھ گڑ بڑ نہ ہو جائے۔ جس ہوٹل میں ہمارا قیام تھا، وہاں انتباہ کے طور پر لکھا ہؤا تھاکہ دوریان (ایک پھل) اور شاید جیک فروٹ لانا منع ہیں۔ حلال کھانے کی بات ہو رہی تھی تو ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔ ہم کوالالمپور ٹاور دیکھنےکے لیے گئے۔ وہاں ایک پارلر سے ہم نے آئس کریم لی۔ میرے شوہر نے ٹیرامسو منتخب کی، لیکن ویٹر نے بتایا کہ یہ حلال نہیں ہے۔ ہم سعودی عرب اور پاکستان میں حلال ٹیرا مسو کے عادی تھے، ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ٹیرامسو کی اصلی ترکیب میں وائن ڈالی جاتی ہے۔ دوپہر کو اکثر ہم کھانا کسی فاسٹ فوڈ چین سے لیتے تھے جیسے میکڈونلڈیا کے ایف سی، جو حلال تھے۔ میکڈونلڈ تو وہاں پر اس قدر ہیں کہ اگر آپ گلی کا موڑ مڑیں تو ایک نیا میکڈونلڈ آپ کو مل جائے گا۔
جنوبی امریکہ کے کھانوں کی ایک اچھی بات سعودی عرب کی طرح کھانے کی مقدار کا زیادہ ہونا ہے۔ ایک فرد کا کھانا لیں تو دو افراد آرام سے کھا سکتے ہیں۔
کینیڈا میں ہمارا پہلا قدم ہیلی فیکس میں پڑا۔ صبح کا وقت تھا۔ ہم کھانوں کے بارے میں کچھ تحقیق کر کے گئے تھے۔ وہاں کینیڈا کی مشہور کافی چین “ٹم ہارٹن” سے ہم نے کافی اور بعد از معلومات ڈونٹ اور بیگل لیے۔ اس کے بعد کینیڈا میں ہر قیام کے دوران ہم نے ٹم ہارٹن سے ہی ہمیشہ کافی اور چائے لی۔ ان کا ہیلاپنو اور سب کچھ شامل کیا ہؤا بیگل ہمیں بہت پسند آیا، حلال بھی تھا اور قیمت بھی بےحد مناسب۔ اس کی علاوہ ان کے پاس سبزیوں کا سینڈوچ بھی مل جاتا تھا۔ ایک بار کنگسٹن میں ہمارا جی چاہا کہ ہم مچھلی کھائیں۔ ہم ایک ریستوران میں گئے اور جو خاتون وہاں گاہکوں سے کھانے کی تفصیل لے رہی تھیں، ان سے پوچھا کہ مچھلی اور آلو کے قتلے کس تیل میں تلے جاتے ہیں سبزیوں سے حاصل کردہ یا چربی سے حاصل کردہ؟ انہیں اس کے بارے میں علم نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے مدیر سے پوچھا، اس نے بتایا کہ ہم چربی سے حاصل کردہ تیل میں تلتے ہیں۔ بس پھر ہم فش اور چپس کھانے سے محروم رہ گئے۔ کنگسٹن میں ایک ریستوران سے حلال تلا ہوئی مرغی ملتی تھی۔ ہماری بیٹی اس وقت کافی چھوٹی تھی۔ ایک دن دریا پار کر کے ہم اسے وہاں مرغی کھلانے کے لیے لے گئے تھے۔ کنگسٹن کینیڈا کا آبادی کے اعتبار سے ایک چھوٹا شہر ہے، لیکن بہت عرصہ کینیڈا کا دارالحکومت رہا ہے۔ یہاں پر جامعہ کوئینز ہے جو بہت بڑی جامعہ ہے اور گوروں کی جامعہ کے نام سے مشہور ہے۔ کینیڈا کا قومی کھانا’’پوٹین‘‘ہے جوتلے ہوئے آلوؤں پر گوشت کا شوربہ ڈال کر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ کھانا لاہور میں ایمپوریم مال میں بھی دستیاب ہے، لیکن ہمارا من بھاتا نہیں ہے۔ کینیڈا کے مختلف شہروں میں اب حلال کھانوں کی بہت سی اقسام دستیاب ہیں۔ میرے شوہر کے ایک دوست کینیڈا کی گوشت کی مشہور فرم میپل میں کام کرتے ہیں۔ ان صاحب کے بقول اس وقت یہ فرم جتنا گوشت مہیا کرتی ہے، وہ سب حلال ہے، چاہے اس پر یہ نہ بھی لکھا ہو۔
نیویارک کو دنیا کا دارالحکومت کہا جاتا ہے، اور مین ہیٹن اس کا دل ہے۔ جب ہم پہلی بار مین ہیٹن گئے، تو کھانے کے بارے میں ہماری رہنمائی کی گئی۔ مین ہیٹن میں کھانوں کی بے شمار ریڑھیاںیا کھوکھے سڑک کے کنارے موجود ہوتے ہیں، اگرچہ ان کو کھوکھے یا ریڑھیاں کہنا ان کی اچھی خاصی توہین ہے۔ انہیں Carts کہا اور لکھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ریڑھی کے بارے میں ہمیں بتایا گیا کہ اس کے بریانی نما چاول بہت مشہور اور لذیذ ہیں۔ جب ہمیں بھوک لگی تو ہم نے بھی اس کا رخ کیا، لیکن وہاں لگی طویل قطار نے ہمارا حوصلہ توڑ دیا، اور ہم نے ان چاولوں کو نہ کھانے پر قناعت کر لی۔ شاید اس ریڑھی کا نام’’حلال گائیز‘‘تھا۔ لیکن وہاں ہر نکڑ پر موجود ریڑھی کا یہی نام تھا۔ ہم نے ایک مصری بھائی کی ریڑھی سے شوارما نما سینڈوچ لیا جو بہت پھیکا اور بہت بڑا تھا۔ ہم اسے مکمل کھانے میں ان دونوں وجوہات کی بنا پر کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہمیںیہ بھی بتایا گیا کہ مین ہیٹن پر سب ریڑھیوں کا کھانا حلال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں سے ٹیکسی ڈرائیور کھانا لیتے ہیں اور تقریباً سب ٹیکسی ڈرائیور مسلمان ہیں۔ بر سبیل تذکرہ ہر پاکستانی اور دیگر مسلمان ٹیکسی کیوں چلاتے ہیں؟یہ ذکر کسی اور وقت کے لیے چھوڑتے ہیں کیونکہ جواب کچھ لمبا ہو سکتا ہے۔ کینیڈا اور امریکہ کے درمیان سفر کرتے ہوئے ہم نے جس کھانے کو سب سے اچھا پایا، وہ سبزیوں کے سینڈوچ تھے، جو ٹم ہارٹن، سب وے اور برگر کنگ وغیرہ سے مل جاتے ہیں۔
ہمارے ساتھ حلال کھانے کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ بھی ہؤا۔ ہم ہوائی جہاز کے ذریعے ٹورنٹو سے ایڈمنٹن جا رہے تھے۔ راستے میں ائیرہوسٹس نے ہم سے کھانے کو چوائس پوچھی۔ ہم نے سفر سے پہلے حلال یا کوشر کھانے کی سہولت نہیں حاصل کی تھی۔ ہم نے پوچھا کہ گوشت حلال ہے؟ پتہ چلا کہ نہیں تو ہم نے منع کر دیا۔ اس نے میری بیٹی سے پوچھا جو ہم سے اگلی قطار میں بیٹھی تھی اور ابھی چھوٹی تھی۔اس نے فورا ًمرغی سے بنے کسی کھانے کا انتخاب کر لیا۔ ہم نے جب سنا تو اسے بتایا کہ یہ کھانا حلال نہیں ہے۔ ائیر ہوسٹس کہنے لگی کہ آپ اسے چننے دیں،یہ اس کی پسند ہے۔ میرے شوہر نے اسے بتایا کہ کس وجہ سے ہم نے اپنی بیٹی کو بتایا ہے اور اب وہ اپنا کھانا بدلنا چاہتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب کھانے بھی بین الاقوامی ہوتے جا رہے ہیں۔ اس حد تک کہ میں نے اپنی زندگی کا بہترین گنے کا رس مانٹریال میں پیا۔
کھانوں کا ذکر تو جب تک حیات ہے، ختم ہونا مشکل ہے۔ باقی کا تذکرہ پھر کبھی سہی۔
(جاری ہے)
٭ ٭ ٭