آج عید ہے
زینب منیب
’’ مغیرہ اُٹھو آج عید ہے ۔ عید کی نماز پڑھنے جانا ہے۔نہا کرتیار ہو جائو۔‘‘ امی نے مغیرہ کو اٹھاتے ہوئے کہا ۔مغیرہ اٹھا اور نہا کرتیار ہوگیا۔
مغیرہ نے کہا :’’امی کیا میں کچھ کھا سکتا ہوں؟‘‘امی نے کہا : عید الاضحی کی صبح کچھ نہیں کھاتے۔پہلے نماز پڑھتے ہیں۔ پھرقربانی کرتےہیں پھرقربانی کے گوشت سے کھاتے ہیں۔ یہ حضرت محمد ؐ کی سنت ہے ۔ ہالہ نے پوچھا :امی جان اگرکسی سے بھوک برداشت نا ہو تووہ کھا سکتا ہے ؟
امی جان نے کہا : ’’جی ہاں ، جس سے بھوک برداشت نہیں ہوتی ، وہ کھا سکتا ہے ۔‘‘
اُس کے بعد سب بچے اپنے بڑوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے گئے ۔نماز کے بعد مردوں نے بکرا ذبح کیا اورعورتوں نے کھانا بنایا۔ سب نے کھانا کھایا۔
ہالہ نے کہا: ہم اپنے رشتہ داروں اور ضرورت مند لوگوں کوگوشت کیوں دیتے ہیں ؟
ابو نے کہا : اس لیے کہ یہ حضرت محمدؐ کی سنت ہے ۔
مغیرہ نے کہا : قربانی کرنا کس کی سنت ہے ؟
امی جان: قربانی کرنا حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے ۔
ہالہ نے کہا : آج اسلامی تاریخ کیا ہے ؟
مغیرہ نے کہا : آج دس ذوالحجہ ہے ۔
ابونے کہا : اور دس ذوالحجہ کو یوم نحر کہتے ہیں ۔
مغیرہ نے کہا : عید الاضحی کے کتنے دن ہوتے ہیں ؟
امی نے : کہا عید الاضحی کے چار دن ہوتے ہیں ۔
ہالہ نے کہا : امی ان کے نام بھی تو ہوں گے نا ۔
مغیرہ نے کہا : پہلے دن کو یوم نحر اورباقی دنوںکو ایام تشریق کہتے ہیں۔
ابو نے کہا : جی ہاں ، ان دنوں کو ایام تشریق کہتے ہیں اور ان کے الگ الگ نام بھی ہوتے ہیں۔
ہالہ نے کہا : وہ کون سے ہیں ؟
امی نے کہا :11ذوالحجہ کویوم الروس ، 12ذوالحجہ کو یوم النفر اول13ذوالحجہ کو یوم النفر الثانی کہتے ہیں۔
مغیرہ نے کہا : کیا ہم ان دنوں میں قربانی کر سکتے ہیں ؟
امی نے کہا : جی ہاں ، کر سکتے ہیں لیکن زیادہ ثواب پہلےدن ہی ملتا ہے ۔
ہالہ نے کہا : قربانی کس کس جانور کی ہوتی ہے ؟
ابو نے کہا : قربانی بکرے ، بیل ، دنبے ، اونٹ کی ہوتی ہے ۔
بچوں نے ابو سے کہا ۔ ’’ کیا آپ ہمیں ایک بکری کا بچہ لا دیں گے ؟ ہم اگلے عید تک اس کو خوب کھلائیں پلائیں گے اور پھر اس کی قربانی کریں گے ۔‘‘
’’ ضرور لادوں گا ۔‘‘ ابو نے وعدہ کرلیا۔
٭…٭…٭
حدیث مبارکہ
نادیہ رحمان
سید نا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے ارشاد فرمایا : ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حقوق ہیں ۔ سوال کیا گیا اے اللہ کے رسول ؐ وہ ( حق ) کون سے ہیں ؟ تو رسول اللہ ؐ نے فرمایا :(۱) جب تو کسی مسلمان سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے ۔ (۲)جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کر۔(۳) جب وہ تجھ سے خیر خواہی طلب کرے تو اس کی خیر و خواہی کر (۴) جب وہ چھینک لے کر الحمد للہ کہے تو اس کا جواب دے (۵) جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کر (۶)جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو کر نماز جنازہ کی ادائیگی کر (صحیح المسلم 2162جامع ترمذی)
٭٭٭
موہن جو داڑو
فاطمہ لیاقت
موہن جوداڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ مردوں کا ٹیلا ‘‘ کے ہیں۔ زمین میں دفن یہ شہر1 191ء میں دریافت ہوا اور کھدائی کے بعد 1923ء میں پوری دنیا کے سامنے آگیا۔
موہنجودارڑو کی تاریخ اور تہذیب کے بارے میں ابھی تک مکمل معلومات حاصل نہیں ہو سکیں کچھ کا خیال ہے کہ یہ تہذیب پانچ ہزار سال پرانی ہے ، کچھ سات ہزار سال پرانی کہتے ہیں اورکچھ 2500قبل مسیح کی تہذیب بتاتے ہیں ۔کچھ بھی ہو اس بات سے انکار نہیں کہ یہ لوگ بہت ترقی یافتہ تھے۔ اس شہر کی منصوبہ بندی دیکھ کر اس شہر کے تہذیب یافتہ ہونے کا اندازہ لگایا جا تا ہے۔ اس شہر سے ملنے والے مجسمے ، چوڑیاں ، سرمہ دانیاں،گھونگھے، ہار اوربرتن ان لوگوں کے اعلیٰ ذوق کی نشاندہی کرتے ہیں۔
اس شہر کی سڑکیں 35 فٹ چوڑی ہیں ۔ پانی حاصل کرنے کے لیے گھروں میں کنوئیں موجود ہیں۔ گندے پانی کے اخراج کے لیے نالیا ں بنی ہوئی ہیں۔ گھروں میںمردوں اور عورتوں کے لیے الگ الگ غسل خانے بنائے گئے ہیں ۔ شہر کے درمیان اینٹوں کےبیس ستونوںپر بنا ہوا ایک بڑا سا ہال ہے ۔ گھروںکے دروازے کھلی سڑکوں کے بجائے تنگ گلیوں میںکھلتے ہیں ۔ مکانوں کی تعمیر جدید اصولوںکے مطابق کی گئی ہے ۔
کھدائی کے دوران ملنے والی اشیاء کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہےکہ ان عورتوں کو بنائو سنگھار کرنے ، زیورات پہننے کا بہت شوق تھا بچے کھلونوں سے کھیلتے تھے ، اس کے علاوہ ایسی مہریںبھی ملی ہیں جن پر جانوروںکی شکل کے علاوہ انسانی شکل بھی بنائی گئی ہیں ۔ یہ لوگ مجسمہ سازی میں بہت ترقی یافتہ تھے ۔ یہ لوگ لکھنا پڑھنا بھی جانتے تھے ۔ لیکن ان کی لکھائی کو آج تک کوئی پڑھ نہیں سکا ۔ اگر کسی دور میں اس لکھائی کو پڑھ لیا گیاتو شاید اس تہذیب کی اصل حقیقت سامنے آجائے ۔
نیکی کا انعام
رابعہ شاہین ننکانہ صاحب
عبداللہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اسے بچپن سے ہی پڑھنے کا بہت شوق تھا، اسی لیے اس کے والدین محنت مشقت کر کے اس کی پڑھائی کا خرچ اٹھا رہے تھے۔ اس کا سکول گاؤں سے بہت دور تھا وہ روزانہ سکول پیدل آتا اور پیدل ہی جاتا تھا۔ راستے میں ایک نہر آتی تھی جس سے گزر کر ہی وہ سکول پہنچتا تھا۔ ایک دن جب وہ سکول جا رہا تھا،اس نے ندی کے پاس ایک چھوٹی سی مچھلی کوتڑپتےدیکھا۔ عبداللہ جلدی سے آ گے بڑھااور اسے پکڑ کر ندی میں پھینک دیا۔
’’بہت شکریہ مہربان بچے! تم نے میرےبچےکی جان بچائی‘‘۔ عبداللہ نے دیکھا تو وہ ایک بہت خوبصورت مچھلی تھی۔
عبد اللہ مچھلی کوبولتےدیکھ کر ڈرگیا۔
’’ڈرو نہیں عبداللہ، تم نےمجھ پر ا حسا ن کیاہے،جو چاہو مجھ سے مانگ سکتے ہو‘‘۔ اس نے عبداللہ کو تسلی دی۔ عبداللہ بہت حیران ہواکہ مچھلی اس کانام جانتی ہے۔وہ اب پہلے سے بھی زیادہ خوف محسوس کرنے لگا تھا۔
مچھلی نےپانی میں غوطہ لگایااورایک لاکٹ منہ میں لےکرنکلی۔
’’یہ جادوئی لاکٹ ہے اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا، تمہیں جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے اس لاکٹ کو ہاتھ میں لےکر جو مانگو گے تمہیں مل جائے گا‘‘۔عبد اللہ نے ڈرتے ہوئے ہاتھ آگے بڑھایا اور لاکٹ اُٹھا لیا۔
’’شکریہ‘‘۔ عبداللہ نےاس کا شکریہ ادا کیا اور سکول کی طرف بڑھ گیا۔ مچھلی نے پانی میں ڈبکی لگائی اور واپس چلی گئی۔
ایک دن حسب معمول عبد اللہ سکول سے واپس گھر جا رہا تھاکہ راستے میں اسے ایک بزرگ عورت دکھائی دی۔
’’اللہ کے نام پہ کچھ کھانے کو دے دو۔‘‘ وہ عورت صدا لگا رہی تھی۔
عبداللہ اس پرترس آیا۔اس نے اپنے بیگ سے ٹفن نکالا۔ ٹفن میں ایک روٹی اور اس کے اوپر تھوڑا سا سالن رکھا تھا۔ چوں کہ آج سکول میں بریک نہیں ہوئی تھی اس لیے عبداللہ کا کھانا جوں کا توں رکھاتھا۔
’’یہ لیجے ماں جی…..‘‘۔ عبداللہ نے ٹفن اس کی طرف بڑھایا۔
بوڑھی عورت نا جانے کب سے بھوکی تھی۔وہ جلدی جلدی کھانا کھانے لگی۔
’’ماں جی آپ کہاں رہتی ہیں؟‘‘ عبداللہ نے سوال کیا۔
’’میرا کوئی گھر نہیں ہے بیٹا، دن رات انھی سڑکوں پر گزار دیتی ہوں‘‘۔ اس نے افسردہ لہجے میں بتایا۔ عبد اللہ کو اس بوڑھی عورت پر بہت ترس آیا، اس نے اس کی مدد کرنے کا سوچا۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑکر آبادی سے تھوڑا دور لے آیاجہاںآس پاس کوئی نا تھا۔پھر اس نے اپنی جیب سےلاکٹ نکالا اورآنکھیں بندکرکےکہا :
’’میں چاہتاہوں کہ ان بوڑھی اماں کے لیے ایک گھر بن جائے جس میں ہر طرح کی سہولت موجود ہو‘‘۔ دعا کی بعد جیسے ہی اس نے آنکھیں کھولیں اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ سامنے ایک خوب صورت سا گھر تھا۔ دیکھنے سے ہی معلوم ہو رہا تھا کہ اس میں زندگی کی ہر سہولت موجود ہے۔عبداللہ بڑی اماں کوگھر کے اندر لے گیا۔
’’اب آپ یہاں آرام سے رہیں۔ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تومجھے بتائیےگا۔‘‘اس نےاماں جی سےکہا۔
اماں جی نے عبداللہ کوبےشماردعائیں دیں۔عبداللہ نےان سے اجازت لی اور گھر کی راہ لی۔جب وہ گھر پہنچا تو وہاں کا منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کےپرانےگھرکی جگہ ایک شان دارگھرکھڑاتھا۔اس کےامی اور ابو حیرت اورخوشی سےگھرکودیکھ رہے تھے ۔ ابھی عبداللہ معاملہ سمجھنےکی کوشش کررہاتھاکہ اس کےکانوں میں باریک سی آوازگونجی ”عبداللہ ! تم نےاپنے بجائےدوسرےکی ضرورت کا احساس کیا،یہ اسی کاانعام ہے۔“
عبداللہ نے دل ہی دل میں مچھلی کا شکریہ ادا کیا اور اپنے نئے گھر کی جانب قدم بڑھا دیے۔ ٭
٭ ٭ ٭