جمیلہ یوسف ،شگاگو
2006ء کے شروع میں فوزیہ آنٹی اور صائمہ اظفر نے مل کر مجھے فون کیا، اِکنا کے پروجیکٹ Why Islamکے بارے میں بتایا اور کہاکہ میں ان کی سیکریٹری بن جائوں۔ اس وقت فوزیہ باجی اس کی قومی سطح پر رابطہ کار (co-ordinator) تھیں۔ میں اس ذمہ داری کو قبول کرنے سے ہچکچائی مگر پھر فوزیہ آنٹی اور صائمہ نے مجھے ہمت دلائی اور یقین دہانی کرائی کہ مدد اور مشورے کے لیے وہ دونوں ہمیشہ میرے ساتھ ہوں گی۔
میرے نومسلم ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو مجھ پر اعتماد تھا کہ میںWhy Islamکے ’انصار پروجیکٹ ‘کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں۔ ’انصار پروجیکٹ‘ نومسلم بہنوں سے تعلق بنانے اور ان کے گزشتہ مذہب سے اسلام تک کے سفر میں ان کا ساتھی بننے کا نام تھا۔ میں اس پروجیکٹ کی اہمیت کو اس لیے سمجھ سکتی تھی کیونکہ بارہ سال پہلے جب میں مسلمان ہوئی تھی، مجھے بھی اسی طرح کے مضبوط ساتھ نے سہارا دیا تھا۔ چنانچہ میں فوزیہ آنٹی کے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ ہوگئی۔
اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے کچھ ہی دن بعد فوزیہ آنٹی نے فون پر مجھ سے باقاعدہ رابطہ رکھنا شروع کردیا، تاکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جان لیں کیونکہ ہماری کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ بہت ذہین، خوش مزاج اور صابر خاتون ہیں۔ انھوں نے مجھے اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے اور وقت کے صحیح استعمال کے لیے بہترین مشورے دیے۔ میرا کام میٹنگ کے اہم نکات کا حساب رکھنا اور مختلف شہروں اور علاقوں میں رابطے کے ذریعے Why Islamکے کام پر نظر رکھنا تھا۔
ٹیلی فون پر ہماری ملاقات کے کچھ ہی ہفتوں بعد میرے ہاں بیٹی کی ولادت ہوئی اور میں نے Why Islam کے کام سے کچھ دنوں کے لیے رخصت لے لی۔ ان دنوں وہ شکاگو آئی ہوئی تھیں۔ وہ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر خاص طور پر مجھ سے ملنے آئیں۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔
فوزیہ آنٹی زندگی اور تنظیم کے معاملات میں اتنی منظم تھیں کہ ان کی ایک پوری ڈائری Why Islamکے کام کے لیے مختص تھی۔ اس میں بے انتہا باتیں، نام اور فون نمبر درج کر رکھے تھے۔ وہ سب انھوں نے میرے حوالے کردیے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کی ٹانگ کے آپریشن کی ضرورت تھی اور وہ چاہتی تھیں کہ میں Why Islamکا کام پوری طرح سنبھال لوں۔ میں انھیں مایوس نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی لیے میں نے پہلے سے زیادہ مشکل ذمہ داری کے لیے ہامی بھرلی۔ اُنھوں نے پھر یقین دلایاکہ وہ مدد اور مشورے کے لیے ہمیشہ موجود رہیں گی۔ انھوں نے ہمیشہ نومسلموں کی صحیح رہنمائی کی اہمیت اور شہادۃ کلاسز کے اہتمام پر زور دیا۔ الحمدللہ، انھیں نئی مسلمان بہنوں سے شدید محبت اور لگائو تھا۔
جیسے جیسے مہینے گزرتے گئے، میں نے شکاگو میں مقیم دوسری بہنوں سے سنا کہ فوزیہ آنٹی کی طبیعت مسلسل خراب ہورہی ہے اور وہ کیمو تھراپی کی وجہ سے خاصی تکلیف میں مبتلا ہیں، لیکن اُنھوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ میں ان سے نیوجرسی میں دوبارہ ملی۔ وہ ویسے ہی پرسکون، شائستہ اور خوش مزاج لگیں، جیسے پہلی ملاقات میں تھیں۔
ہم سب نے ان سے بہت کچھ سیکھا اور ہمیں ان کے مشوروں، نصیحتوں کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کی زندگی کو بطور مثال اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ اللہ جنت میں ان کے مرتبے بلند کرے اور ان کے خاندان کو ان کی کمی پر صبر کی توفیق دے۔ آمین
اَما شہباز ، نارتھ کیرولائنا
میں ان خوش نصیبوں میں سے ہوں جو فوزیہ بہن کو جانتے تھے۔ ربط و تعلق کے ان سارے برسوں میں وہ میرے لیے ایک قابلِ اعتماد ذریعۂ ہدایت، ایک بہترین نمونۂ عمل اور بھائی چارے کی اعلیٰ مثال رہیں۔ انھیں دوسروں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی اور ان کے پاس دوسروں کو اپنی محبت، خوشی اور خیال محسوس کرانے کے انتہائی خوبصورت طریقے تھے۔ ان کی گرم جوش مسکراہٹ، شائستہ نوک جھونک کی عادت اور ہمت و حوصلہ دلانے کا منفرد انداز، ان کے ساتھ گزرنے والے وقت کو خوش گوار بنا دیتا تھا۔
جب میں ان سے اسلامک اسکول کے فنڈ اکٹھا کرنے کے موقعے پر لیگزنگٹن میں ملی، تواُنھوں نے مسکرا کر مجھ سے کہا ’… تو اس کا مطلب اَما بہن، آپ نے ہمارے اسکول میں پڑھانے کا ارادہ کرلیا ہے؟‘ وہ جانتی تھیں کہ خاندانی مصروفیت کی وجہ سے میرا زیادہ تر وقت سنسناٹی میں گزرتا ہے۔ لیکن چونکہ انھوں نے خواہش ظاہر کی تھی کہ میں اسکول کا حصہ بنوں، لہٰذا میں نے اساتذہ کے لیے ایک ورکشاپ کا اہتمام کرنے کی ہامی بھرلی۔
ہماری گفتگو زیادہ تر اسلام، اُمت مسلمہ اور بحیثیت مسلمان ہمیں حالات کو کیسے بہتر بنانا چاہیے، جیسے موضوعات کے اردگرد گھومتی تھی۔ ان سے بات کرکے بہت خوشی ہوتی۔ ان کے ساتھ کچھ وقت گزارنے پر ان کی محبت، اپنائیت، ہمدردی اور قربت کا احساس دل پر چھایا رہتا۔
وہ گفت گو کے دوران الفاظ بہت احتیاط سے چنتیں اور بات کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھتیں کہ دوسرا ان کی بات کو کس رخ میں لے سکتاہے۔ وہ دوسروں کے احساسات کو بخوبی سمجھتی تھیں اور اس معاملے میں بہت محتاط تھیں۔ جب کبھی کچھ بہنیں میری موجودگی میں اردو میں بات چیت کرنے لگتیں، تو فوزیہ بہن فوراً معذرت کرتیں اور اس سے پہلے کہ میں کچھ کہوں، ان کی باتوں کا انگریزی میں ترجمہ پیش کردیتیں۔ بحث و مباحثے میں جہاں کہیں بہنوں کا فقہی اختلاف ہوتا، وہ مصالحتی کردار ادا کرتے ہوئے کہتیں کہ: ’دونوں باتوں میں اپنی جگہ وزن ہے، لیکن فلاں وجہ سے جمہور علماء نے فلاں چیز کو ترجیح دی ہے۔‘ یہ اس بات کو سمجھانے کا خوب صورت طریقہ تھا کہ بہنیں جھگڑنے یا دفاعی مؤقف اختیار کرنے کے بجائے دل و دماغ کو کشادہ کریں اور علماء کی آرا کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ انھوں نے کبھی رعب ڈال کر نہیں سمجھایا بلکہ وہ اس انداز سے بولتیں کہ سب کے لیے وہ بات ماننا آسان ہوجاتی۔
ماشاء اللہ، فوزیہ ایک بہت ہی باصلاحیت ماں بھی تھیں۔ ایک دفعہ انھوں نے بچوں کی تربیت پر مجھے اپنا بنیادی اصول بیان کیا، جو انھیں خاندان، اسکول اور مسلمانوں کے خصوصی پروگراموں میں مرکزی کردار ادا کرنے پر ابھارتا تھا۔ وہ اپنے بچوں سے کہتیں کہ: ’آج تم فلاں فلاں کام کے انچارج ہو … بتائو تم اس کام کو کس طرح کرو گے؟‘ فوزیہ نے بتایا کہ جب بچے انھیں اپنی حکمت عملی بتاتے تو انھیں مزید سوچنے کا وقت دیتیں۔ وہ ان کو یہ نہیں بتاتیں کہ کام کس طرح کرنا ہے بلکہ ایسے سوالات کرتیں، جو انھیں سوچنے پر مجبور کرے اور وہ اپنے کام کے طریقے کا گہرائی سے جائزہ لیں۔ الحمدللہ، ان کے اس تجربے نے ان پر ثابت کیا تھا کہ اس سے بچوں میں اپنے مسائل حل کرنے، آزادانہ فیصلے کرنے اور قائدانہ صلاحیتوں کو اُبھارنے میں نہ صرف مدد ملی بلکہ نکھار بھی پیدا ہوا۔
2007ء میں پسٹک وے، نیوجرسی میں منعقدہ تربیت گاہ میں مجھے ان کے ساتھ سفر کا اتفاق ہوا۔ ہوائی اڈے پر جب ان کی بیٹیاں ہم سے ذرا پرے چل رہی تھیں تو اُنھوں نے نہایت آہستہ آواز میں مجھے بتایا کہ: ’اب میرا مرض پوری شدت سے واپس آگیا ہے، اس کا کوئی علاج نہیں ہےاور میری طبیعت روز بروز گرتی جارہی ہے۔‘ انتہائی دل برداشتہ ہونے کے باوجود، اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے میں نے فوزیہ کو تسلی دینے کی کوشش کی، لیکن واضح طور پر ان کی فکر کی وجہ ان کی تکلیفیں نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں پریشان تھیں۔ ہم دونوں دیر تک اسی پر بات کرتے رہے۔ میں نے انھیں تسلی دی کہ اُنھوں نے اپنے بچوں کی تربیت ایسے اچھے انداز میں کی ہے اور ان کے لیے ایسی بہترین مثال ثابت ہوئی ہیں کہ ان کے بارے میں پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ: ’بیٹیوں کو ضرور تاکید کریں کہ جب بھی ضرورت پڑے، مجھ سے فون یا ای میل پر فوراً رابطہ کریں۔‘
پھر جیسا کہ ان کے کردار کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ ہمیشہ دوسروں کے بارے میں فکرمند رہتیں۔ انھوں نے کہا کہ: ’میں نے سنا ہے کہ تم اپنی ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن کرا رہی ہو؟‘ پھر فوراً میرے لیے دُعا کی اور وعدہ لیا کہ: ’شدتِ تکلیف اور مرض کی حالت میں اللہ ہی سے مدد کی دُعا کرنا، میں بھی دُعا کرتی رہا کروں گی اور ایک دُعا بھیجوں گی۔‘جب ہم ہوائی اڈے پر جدا ہوئے تو میں دیر تک ان کے گلے لگی رہی۔ ہم دونوں یہ جانتے تھے کہ شاید ہم آخری مرتبہ مل رہے ہیں۔ ہم مسکرا کر جدا ہوئے، لیکن دونوں کی آنکھوں میں آنسو رواں تھے۔
اس کے کچھ ہی دن بعد میں نے اپنا آپریشن کرالیا۔ جس دن میں آپریشن کے بعد ہسپتال سے گھر آئی، ڈاک میں فوزیہ کی طرف سے ایک کارڈ ملا۔ اس کارڈ پر فوزیہ کی لکھائی میں عربی اور انگریزی میں وہی دُعا لکھی ہوئی تھی، جس کا انھوں نے ہوائی اڈے پر جدا ہوتے ہوئے مجھ سے وعدہ کیا تھا اورساتھ ہی میرے جلد ٹھیک ہوجانے کے لیے اُمید بھری دُعائیں لکھی تھیں۔
یہ سادہ سا تحفہ میرے دل کو چھو گیا، کیونکہ اس سے دو باتیں ظاہر ہورہی تھیں: پہلی یہ کہ شدید علالت کے باوجود وہ میرے بارے میں سوچ رہی تھیں اور دُعا کررہی تھیں اور دوسری یہ کہ حضرت محمدﷺ نے ہمیں ایفائے عہد کی تعلیم دی ہے۔ فوزیہ نے بھی گرتی صحت کے باوجود اپنا وعدہ پورا کیا تھا۔
اگلی بار میں نے فوزیہ کی بیٹیوں کو اس کے جنازے کے دن دیکھا۔ میرا دل ان کے لیے رو رہا تھا مگر انھوں نے مجھے محبت سے زور سے گلے لگایا اور میں نے انھیں مسکرا کر ملتے ہوئے پایا۔ مجھے ان میں شدید غم محسوس ہوا، لیکن ساتھ ساتھ ان کا مضبوط ایمان اور ہمت بھی نظر آئی۔ وہ شکر سے سرشار نظر آئیں کہ ان کی ماں ان کے لیے کیسی بہترین مثال تھی۔ مجھے ان سے یہ بات سن کر بے پناہ عزت محسوس ہوئی، جب انھوں نے بتایا کہ ان کی ماں نے بار بار کسی مشکل میں مجھے ای میل کرنے کے لیے کہا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے ہمیشہ ان کی ای میل کا انتظار رہے گا۔
ماشاء اللہ بہن فوزیہ نے دین و دُنیا میں بہت کچھ حاصل کیا اور بے شمار طریقوں سے بہت سے مسلمانوں کی مدد کی، مگر ان کی کم عمربیٹیوں کی زندگی کے مشکل ترین دنوں میں ان کا صبر فوزیہ کی بہترین تربیت کی گواہی دے رہا تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے اور انھیں جنت کے بلند ترین مقام جنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔
مشیل پیٹن ، ڈینول، کنیٹکی
رمضان 2006ء میں، میں ایک گھنٹے کی مسافت پر ایک علاقے میں کچھ بہنوں کے ساتھ روزہ افطار کرنے اور نماز تراویح کے لیے جایا کرتی تھی۔ میں نے کچھ ہی ہفتے پہلے اسلام قبول کیا تھا۔ اسی لیے ضروری سمجھتی تھی کہ جتنا ممکن ہوسکے مسلمان بہنوں کے ساتھ وقت گزاروں۔ ایک بہن نے مشورہ دیا کہ مجھے اپنے علاقے کی مسجد سے تعلق قائم کرنا چاہیے تاکہ مجھے روزانہ اتنا دور نہ جانا پڑے۔
میں نے www.islamicfinder.com سے راستہ معلوم کیا۔ اس دن میں تقریباً پانچ دفعہ مسجد کے پاس سے گزری، تاکہ اتنی ہمت کرسکوں کہ گھر آکر انھیں فون کروں۔ پریشانی میں تنگ آکر میں نے فون ڈائریکٹری اُٹھائی اور مسلمانوں سے ملتے جلتے کسی بھی نام والے کو فون کرنے کا فیصلہ کیا۔ فوراً ہی ایک نام ’احمد‘ نظر آیا۔ میں نے گہری سانس لی اور نمبر ملادیا۔ دوسری طرف سے ایک خوش مزاج فوزیہ نامی خاتون نے فون اُٹھایا۔ جب میں نے انھیں بتایا کہ مجھے اسلام قبول کیے کچھ ہی دن ہوئے ہیں تو انھوں نے کہا کہ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ ان کے گھر آنا چاہیے۔ ان کی آواز سے لگ رہاتھا کہ وہ مجھے بہت پسند آئیں گی۔
جب ہم ان کے گھر پہنچے تو فوزیہ نے دروازہ کھولا۔ ہمارا استقبال انتہائی جوش اور محبت سے کیا۔ ہمیں ایک بڑے ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا، جہاں ان کی والدہ، بیٹیوں، دو دوسری خواتین اور ان کے بچوں سے ملاقات ہوئی۔ سب بہت اچھے طریقے سے ملے۔
فوزیہ نے ہمیں نماز تراویح میں ملنے کے لیے کہا۔ ہم وہاں گئے اور جب میں دسویں رکعت میں سجدے میں گئی تو میرا حجاب سر سے پھسل گیا۔ میں اس کو ٹھیک کرنے کے لیے غسل خانے میں گئی اور واپس آنے پر تقریباً فوراً ہی دوبارہ وہی ہوا۔ نماز کے بعد میں گھر کے لیے نکل گئی۔
اگلے دن فوزیہ نے فون کیا اور کہا کہ وہ مجھ سے ملنے آنا چاہتی ہیں۔ وہ اور ان کی والدہ آئے اور ہم بیٹھ کر دین، روزہ اور زندگی پر ایسے ہی باتیں کرنے لگ گئے۔ جب وہ جانے لگیں تو انھوں نے مجھ کو بتایا کہ: ’مجھے اپنا حجاب باندھنے کا کون سا طریقہ آسان لگتا ہے۔‘ پھر انھوں نے مجھے حجاب باندھ کر دکھایا اور پھر مجھے بہت سے خوبصورت حجاب، حجاب کی پنیں اور شلوار قمیص تحفے میں دیے۔ میں نے کبھی بھی اتنے نازک معاملے کو اتنے شائستہ انداز میں کسی کو نمٹاتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ یہ تو مجھے اگلے دو سال میں پتہ لگا کہ وہ کتنی ذہین، موقع فہم، ذی علم اور دوست پرور تھیں۔
فوزیہ جلد ہی میرے لیے وہ ہستی بن گئیں، جن سے میں دین کے بارے میں ہر سوال کرسکتی تھی، خواہ وہ کتنا ہی احمقانہ اور بے تکا ہوتا۔ میں ان سے جب بھی پوچھتی تو وہ واضح جواب دیتیں اور ساتھ ہی آیت اور حدیث کا حوالہ بھی بتا دیتیں۔ انھوں نے مجھے عیدوں کے بارے میں بتایا۔ نماز اور روزمرہ کے رہن سہن کے آداب سکھائے۔ ایک مرتبہ وہ چاند رات کو میرے پاس آئیں۔ میرے اور میری بیٹیوں کے ہاتھ پر مہندی لگائی اور ہمیں تحفے میں کپڑے بھی دیے۔ میرے گھر والے اب تک میرے مسلمان ہونے کو قبول نہیں کرسکے تھے، لیکن فوزیہ کی وجہ سے مجھے عید میں وہ خاندانی قربت محسوس ہوئی جو کرسمس میں ہوا کرتی تھی۔
فوزیہ مجھے اپنی کتابیں پڑھنے کے لیے لاکر دیتیں اور میں آہستہ سے ان آیات کو جن کو میں یاد کرلیتی، تصحیح کے لیے سنایا کرتی۔ ہم جب بات کرتے تو قریبی دوستوں کی طرح کرتے۔ وہ مجھ سے پوچھتیں کہ: ’امریکی کس طرح رہتے، پڑھتے لکھتے اور ملتے جلتے ہیں؟‘ اور میں ان سے پاکستان کی زندگی کے بارے میں سوالات کرتی۔ مجھے ان کی کہانیاں سننے میں بہت مزہ آتا تھا۔
اُنھوں نے مجھے چپاتی بنانا بھی سکھائی۔ میری بنائی ہوئی چپاتی کچھ بے ڈھنگی سی لگتی اور کئی دفعہ تھوڑا جل بھی جاتی لیکن وہ کہتیں کہ: ’مزے میں بالکل ویسے ہی ہے جیسی ان کی چپاتیاں ہوتی ہیں۔‘
اُنھوں نے مجھے نومسلموں کے لیے Why Islamپروگرام کے بارے میں بتایا۔ اُنھوں نے علاقے کی نومسلم بہنوں کے نام جمع کیے اور ان کی ملاقاتوں کا انتظام کیا۔ مہمان مقرر بھی آئے اور دوپہر کے کھانے کا بھی انتظام ہوا۔ ایسی ہی ایک ملاقات میں ہمیں اپنے ’بڈی‘ ملے۔ ہر نومسلم بہن کو ایک ساتھی بہن ملی، جو اسے سیکھنے میں مدد کرے اور اچھی نصیحت دے۔ ویسے تو سب ہی بہنیں بہت اچھی تھیں لیکن میں چاہتی تھی کہ فوزیہ ہی میری ’بڈی‘ ہوں۔ جب میرا نام پکارا گیا تو فوزیہ ہی میری ’بڈی‘ تھیں۔ الحمدللہ، میں بے انتہا خوش تھی۔
جلد ہی فوزیہ نے اپنے گھر میں تجوید اور تفسیر کی کلاسیں شروع کردیں۔ ہم ہفتے میں ایک دفعہ ملتے، ابتداء تجوید سے ہوتی اور پھر تفسیر کا مطالعہ کرتے۔ ہم قرآن سے پڑھتے، کچھ خاص آیات پر بات کرتے اور پھر وہ ہمیں اگلی کلاس میں پڑھ کر آنے کے لیے کوئی چیز دیتیں۔ وہ ہم سے کافی سوالات کرتیں۔ پھر بہت ہی کم عرصے میں انھوں نے ہمارا open book test بھی لیا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان کی کوششوں کا بہترین اَجر دے۔
فوزیہ نے کبھی شکایت نہیں کی۔ ہمیشہ مثبت رہیں اور شدید بیماری کے باوجود ایک داعی کی حیثیت سے اپنا کام جاری رکھا۔ اُنھوں نے ایک مُسلمہ کے لیے بہترین مثال چھوڑی۔
وہ اپنی زندگی اور زندگی کے معاملات میں بہت ہی سمجھ دار اور منظم تھیں۔ لگتا تھا کہ انھیں ہمارے درمیان ہونے والی ہر گفتگو کا ایک ایک لفظ یاد رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے احساسات کو اپنے سے زیادہ اہمیت دیتیں۔ ان کا ہر ایک کو انتہائی اہم محسوس کرانے کا کچھ اور ہی ڈھنگ تھا۔ ان کا ایمان بہت ہی خالص اور تازہ تھا اور دل بہت خوب صورت تھا۔ وہ دوسری نومسلموں سے میری دوستی کو بہت سراہتیں اور ہمیشہ کوشش کرتیں کہ اگر وہ لوگ میرے گھر آئیں تو وہ فون پر ضرور ان سے بات کریں۔ وہ ہمیں بات کرنے کے لیے کچھ موضوعات دیتیں، مشورے دیتیں کہ کون سی کتاب پڑھی جائے، بچوں کی تربیت کیسے کی جائے، گھر کیسے چلایا جائے؟اور یہ بھی بتاتیں کہ جب ہماری عیسائی دوستیں اور گھر والے اسلام کا مذاق اُڑائیں اور ان پر انگلیاں اُٹھائیں تو صبر کیسے کیا جائے؟
وہ ہمارے لیے مضبوط چٹان تھیں۔ ایسی مضبوط رسّی تھیں، جس نے ہم سب کو جوڑ رکھا تھا۔ وہ ایسی دوست تھیں جیسا ہم سب بننا چاہتے ہیں۔ میری زندگی میں ان کا جو کردار ہے، وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی۔ انھیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہی بہترین اَجر سے نوازے گا۔
جب فوزیہ کا انتقال ہوا تو بہت سی عورتیں نماز جنازہ کے لیے جمع تھیں۔ یہ مسلمان ہونے کے بعد پہلا موقع تھا کہ رہنمائی، مدد اور نصیحت دینے کے لیے میری پیاری بہن فوزیہ وہاں نہیں تھی۔ ایک لمحے کے لیے میں تشکر کے احساس سے بھر گئی کہ اللہ نے مجھے ایسی بہترین دوست کی نعمت سے نوازا،مگر ساتھ ہی ساتھ ان کے چلے جانے پر اپنے شدید نقصان کا اندازہ بھی ہوا۔
اس دن میں سمیعہ، اَما اور دوسری بہنوں سے ملی، جن کا ذکر میں نے فوزیہ سے سن رکھا تھا۔ لوگ دور و نزدیک سبھی جگہ سے اس عظیم عورت کو الوداع کہنے کے لیے آئے ہوئے تھے۔ ہرعورت کے پاس فوزیہ سے تعلق کی اپنی ہی کہانی تھی۔ ہمت دلانے کی کہانی، دوستی اور محبت کی کہانی … مگر سب کی کہانی میں ایک بات مشترک تھی … فوزیہ ہر بہن کی بہترین دوست اور ساتھی تھی۔
ڈاکٹر جولی، ڈینول
فوزیہ ناہید جیسی محبت کرنے اور دوسروں کا خیال رکھنے والی محسنہ اور اپنی سخاوت کا دامن وسیع رکھنے والی عظیم خاتون کے تذکرے کا آغاز کیسے کیا جائے؟ پانچ بچوں کی ماں اور وفا شعار بیوی ہونے کے ساتھ وہ معالج بھی تھی۔ اسی طرح حلقہ اسلامی شمالی امریکا خواتین کی صدر بھی تھی۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر وہ میری اور بہت سی دوسری بہنوں کی عزیز دوست تھی، اور مُربی تھی۔
امریکا کے ایک چھوٹے سے قصبے ڈینول میں، جب فوزیہ سے میں پہلی بار ملی تو میری عمر 36 برس تھی اور میری گود میں 3سال اور 6ماہ کے دو بیٹے تھے۔ تقریباً پندرہ ہزار آبادی والے اس قصبے میں مسلمان خاندانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ مجھ سے ملاقات کرنے سے پہلے بھی فوزیہ کو فکر تھی کہ ہفتے کے ساتوں دن پورا وقت مصروف رہنے والے ایک مسلمان ڈاکٹر کی غیر مسلم بیوی کی گود میں پلنے والے دو بیٹے کس طرح اسلام کی ضروری باتیں سیکھ سکیں گے؟
فوزیہ اور ایک دوسری بہن افشاں نے مسلم کیمونٹی کے 13 چھوٹے بچوں کے لیے سنڈے سکول شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور سب مائوں کو اہتمام کے ساتھ اس میں شریک کیا۔ اُنھوں نے بڑی محبت کے ساتھ مجھے بھی بچوں کے ہمراہ اس میں شمولیت کی دعوت دی اور اسلامی کتب سے منتخب کردہ کہانیاں بچوں کو سنانے کی ذمہ داری میرے سپرد کی۔ ہم سب نے مل کر سنڈے سکول کے تجربے سے بہت سیکھا، الحمدللہ۔
فوزیہ نے مجھے جمعہ کی نماز کے لیے دعوت دی اور یوں ہم پانچ خاندان بچوں کے ساتھ نماز جمعہ میں شریک ہوتے تھے۔ اس سال جب رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو فوزیہ نے نماز تروایح کے لیے میرے شوق کو بڑھایا۔ بچے تو ایک دم سے تراویح پر فریفتہ ہو گئے۔ تمام بچے چھوٹی عمر کے تھے اور ہم انھیں پہلی آٹھ رکعتوں کے لیے پابند کرتے تھے۔ اس کے بعد ہماری نماز ختم ہونے تک انھیں کھیل کود اور باہم خوش گپیوں میں مصروفیت کی آزادی تھی۔ آج اتنے برسوں بعد بھی میرے بچے رمضان اور تراویح کی ان خوش گوار یادوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔
اسی عرصے میں کسی رمضان المبارک کے دنوں کی بات ہے کہ میری عزیز دوست افشاں نے مجھ سے استفسار کیا کہ: ’مسلمان ہونے کے لیے تمہیں مزید کیا معلوم کرنا ہے؟‘ آخر میں پچھلے کئی برسوں سے اُن سب کے ساتھ نماز پڑھ رہی تھی اور رمضان کے روزے بھی رکھتی تھی، لیکن کلمہ شہادت ادا نہیں کیا تھا۔ اس وقت تو میرا جواب یہ تھا کہ میں اسلام قبول کرنے کے لیے غوروفکر کر رہی ہوں۔لیکن دراصل میں ہچکچاہٹ کا شکار تھی یا اپنے تئیں بے جا غرور کی کیفیت میں تھی۔ سچی بات ہے کہ برسوں کی بے لوث دوستی کے بعد افشاں کے سوال نے میرے سارے حجاب اُٹھا دیے اور پھر جلد وفورِ شوق سے میں نے قبولِ اسلام کے لیے ہاں کر دی۔
میں نے غسل کیا اور مسجد پہنچی جہاں فوزیہ کے دہرانے پر، کلمہ شہادت کا ایک ایک لفظ ادا کرتے ہوئے میں باقاعدہ اسلام کے دامنِ رحمت میں آگئی۔ الحمدللہ، اس روز اللہ تعالیٰ نےمیری ساس امی، میرے شوہر، میری دوستوں اور بہت سے عزیزوں کی دُعائیں میرے حق میں قبول کر لیں۔
اس واقعے کے بعد فوزیہ کے ساتھ میرا تعلق اور بھی زیادہ بڑھتا گیا۔ میں نے ہفتہ وار اس کے ہاں جانے کا معمول بنا لیا۔ اس نے اسلام کے بنیادی عقائد سکھانے سے میری تربیت کا آغاز کیا۔ میرے بیٹوں کی عمریں ڈھائی اور پانچ سال تھیں۔ وہ بھی میرے ساتھ ان محفلوں میں شریک ہوتے۔ فوزیہ اسلام کے بنیادی حقائق کی وضاحت کرتی اور اس کے بعدمیرے سوالات اور اس کے جوابات کا سلسلہ جاری رہتا۔
پھر فوزیہ مجھ سے سوال پوچھ کر میری تعلیم وتربیت میں اضافہ کرتی۔ اس کے پڑھانے کا طریقہ ایسا تھاکہ جس میں سوالوں کے ذریعے مخاطب کی سوچ اور فکر کو تحریک دی جاتی ہے۔ مثلاًفوزیہ نے مجھ سے پوچھا:’ جولی، بتائو ہمیں دُعا کرتے ہوئے اللہ سے دُنیا یا آخرت میں سے کیا مانگنا چاہیے؟‘ مجھے پتہ چلا کہ دونوں ہی اہم ہیں، اور دونوں کی فلاح اور کامیابی مانگنا احسن عمل ہے۔
سوالات کے ذریعے دین سکھانے کے اس طریقے کی وجہ سے مجھے معلومات ذہن نشین کرنے اور آج تک یاد رکھنے میں بہت مدد ملی۔ میرا چھوٹا بیٹا ان نشستوں میں میرے ساتھ بیٹھا ہوتا تھا۔ برسوں بعد بھی جب میں اس سے اسلام کے بارے میں کچھ پوچھتی ہوں تو فوزیہ کی بتائی ہوئی باتیں اسے یاد ہوتی ہیں، الحمدللہ۔
فوزیہ سے تعلق اور قربت کے حوالے سے میں کچھ نکات بیان کرنا چاہوں گی:
l پہلی بات یہ ہے کہ فوزیہ نے میرے سامنے اسلام کو بجا طور بہت سادہ اور آسان شکل میں پیش کیا۔ فوزیہ نے مجھے تاکید کی کہ:’نماز پابندی سے پڑھو اور حلال غذا کھائو۔ تمھاری دُعائیں قبول ہوں گی اور بس!‘ فوزیہ نے مجھے اصولوں اور قوانین کی کوئی لمبی فہرست نہیں تھمائی کہ جس پر مجھے عمل کرنا تھا۔ اُنھوں نے مجھے کبھی حجاب اوڑھنے کے لیے نہیں کہا، اگرچہ وہ اور اس کی بیٹیاں اس کا اہتمام کرتی تھیں۔ اسے علم تھا کہ اس نئے ماحول میں آکر آہستہ آہستہ میں سب تفصیل سے آگاہ ہو جائوں گی۔ اسی طرح فطرت کے مظاہر کے بارے میں بچوں کے تجسس اور سوالات کا رخ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف موڑ دیتی تھی۔ بچے اور بڑے بھی اگر اللہ رب العزت کی اپنی مخلوق سے محبت اور رحمت سے شناسا ہو جائیں تو اسلام کے تقاضوں پر عمل کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔
l دوسری بات یہ کہ بچوں کی پرورش اور ان کے روزمرہ کے مسائل کے بارے میں فوزیہ مجھ سے مشورے اور نصیحت کی طلب گار ہوتی اور اس حوالے سے میرے ساتھ مکمل برابری اور باہمی احترام سے معاملہ کرتی تھی۔ مجھے بسا اوقات حیرانی ہوتی کہ وہ خود اتنی سمجھ دار اور معاملہ فہم ہوتے ہوئے بھی میری رائے کیوں پوچھتی ہے؟ آخر وہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ معالج اور اسلام کی سکالر تھی۔ اصل بات یہ ہے کہ دوسروں سے مشورہ اور رائے لینے کے بارے میں اس کا ذہن بہت کھلا اور دل وسیع تھا۔ اس نے کبھی میرے مشورے اور رائے کو سطحی انداز میں رد نہیں کیا اور نہ اسے فالتو سمجھا۔ علم کے حصول کے بارے میں اس کے ہاں بڑی عاجزی تھی، بھلے وہ جہاں سے بھی ملے۔
l تیسری بات اس کی ذات اور شخصیت کے بارے میں یہ تھی کہ جن دنوں وہ خود کینسر جیسے مرض کی انتہائی شدت سے نبردآزما تھی۔ اس نے اپنی آغوشِ محبت اور دل کا دروازہ میرے لیے کھلا رکھا، جس طرح اس کے گھر کے دروازے میرے لیے کھلے تھے۔ ہم دونوں کو پتہ تھا کہ کینسر سے صحت یاب ہونے کے امکانات انتہائی معدوم ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ کبھی خود ترسی کا شکار نہیں ہوئی۔ اس نےبیماری کا مقابلہ بڑے وقار اور ہمت سے کیا۔ وہ بے دم ہو کر نہیں بیٹھی اور نہ مجبوری کی کیفیت کے ساتھ موت کا انتظار کیا۔ وہ آخری دم تک نیکی کے بیچ کاشت کرتی رہی جیسا کہ آنحضورﷺ نے نصیحت کی ہے۔
ماشاء اللہ، فوزیہ نے بلاشبہ ایک مثالی مسلمان کی سی زندگی بسر کی۔٭