چناب کنارے ایک بھیڑ تھی۔ موبائلز کے کیمروں سے مسلسل ویڈیوز بنائی جا رہی تھیں،رخ ان کا دریا کے تیز بہاؤ کی طرف تھا،شور کافی زیادہ اور کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔سب لوگ دریا کی طرف مسلسل دیکھے جا رہے تھے ،گویا کہ پورا وجود ہمہ تن گوش جیسا کہ کوئی راہب گیان دھیان میں مصروف ہو اور اسے اپنے ارد گرد کی کوئی ہوش نہ ہو۔
مجھے گوجرانوالہ تعلیمی بورڈ ایک کام کے سلسلے میں جانا تھا۔ جب چناب کے کنارے پہنچا تو یہ منظر دیکھ کر مختلف برے برے خیالات آنے لگے۔ گاڑی ذرا اور قریب آئی تو دریا کے تیز بہاؤ کے درمیان محسوس ہؤا جیسے کالے رنگ کے لباس میں غوطہ خور تیرتے چلے جارہے ہیں،میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہاں غوطہ خوری کا کوئی مقابلہ جاری ہے یا پھر کچھ افراد ڈوب گئے ہیں جن کو بچانے کے لئے اتنے سارے غوطہ خور تیرتے چلے جا رہے ہیں۔لیکن اور زیادہ قریب ہونے کے بعد پتہ چلا کہ وہ غوطہ خور نہیں بلکہ کالی بھینسیں ہیں جو سیلاب آنے کی وجہ سے دور دراز کے کسی اونچے علاقے سے بہہ کر پانی کے ساتھ چناب تک پہنچ گئی ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ سوہنی اور بھینسوں کا آپس میں کیا رشتہ ہو سکتا ہے۔سوہنی کو کچے گھڑے جبکہ بھینسوں کو ناپختہ بندوں اور نا کام بلدیاتی نظام نے ڈبویا۔ تفریح طبع کے لیئے میں نے گاڑی پل سے نیچے اتار کر ہجوم سے ذرا فاصلے پر کھڑی کی ، باہر نکلا اور کنارے کی طرف چلنے لگا قریب آنے پر آوازوں کی سمجھ آنے لگی تھی۔
’’وہ پنج کلیانی اعلیٰ نسلی لگ رہی ہے، ہاتھ آ جائے تو قسمت سنور جائے ‘‘ سفید کاٹن کے سوٹ میں ملبوس ایک آدمی کی آواز آئی۔
’’انڈیا سے بہہ کر آئی ہے، کب سے خواہش تھی ایک انڈین بھینس رکھنے کی، آج پوری ہو جائے‘‘ ایک اچھی خاصی وضع قطع کے آدمی کو آسمان کی طرف رخ کیے کہتے سنا۔
میں چونکا کہ یہاں تو مال غنیمت میں بہہ کر آنے والی بھینسوں کو قابو کرنے کا معاملہ ہے۔
’’ارے یار وہ کالی بھینس اس طرف کو آ جائے اس کو پکڑ کر چودھری صاحب کے ڈیرے پر لے جاؤں گا بہت خوش ہوں گے اپنے ڈیرے پر ایک اور اعلیٰ نسل کی بھینس دیکھ کر ‘‘ ایک اور آواز آئی۔
’’آجا آجا ادھر کو آجا…..‘‘ ایک آدمی التجائی نظروں سے بھینس کی طرف دیکھ کر کہہ رہا تھا
’’ حا حا …..حا حا …..‘دو چار آدمی آدھے کیچڑ میں اور آدھے خشکی میں کھڑے بھینس کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔
دو چار لوگوں سے بات کرکے پتا چلا کہ باقی بھینسیں تو ان سب کی پہنچ سے باہر ہیں کیونکہ وہ عین دریا کے وسط میں ہیں اور آگے کسی علاقے کی طرف بہتی ہوئی چلی جائیں گی لیکن اس بھینس کے پاؤں زمین پر لگ گئے تھے اور یہ کنارے کی طرف چلی آ رہی تھی۔ پہلے تو اتنا نوٹس نہ لیا گیا لیکن جب یہ پانی سے باہر نکل کے نظر آنے لگی تو پتہ چلا کہ یہ بہت اعلیٰ نسل کی انڈین بھینس ہے۔ بس پھر کیا تھا ہر کوئی اس کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔
’’لیکن ایسے کوئی کسی کی بھینس کو پکڑ کر کیسے گھر لے جا سکتا ہے ؟‘‘ میں نے پہلو میں کھڑے ایک صاحب سے پوچھا ۔
’’ارے بھائی صاحب یوں بہہ کر آنے والی بھینسیں دور دراز کے علاقوں سے آتی ہیں ان کے مالکان ان کے پیچھے نہیں آ سکتے اور نہ ہی ان کو تلاش کر سکتے ہیں،کبھی کبھار تو انڈیا سے بہہ کر آجاتی ہیں، ان بھینسوں
کے بارے میں اصول یہ ہے کہ جو پکڑ لے اسی کی ہو جائے ‘‘
دل میں سوچا بڑے افسوس کی بات ہے لاکھوں کروڑوں کا مال بہا چلا آ رہا ہے ان لوگوں کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ کہیں دور دراز کوئی عرش سے فرش پر آگرا ہوگا۔ اتنی خودغرض دنیا کہ اپنا مال بنانے کی فکر میں مگن ہے۔
میں کچھ دیر وہیں رک گیا کہ دیکھو یہ بھینس کس خوش قسمت کے ہتھے چڑھتی ہے۔ لوگوں کا جم غفیر اس کو قابو کرنے کے چکر میں تھا، کوئی سیٹی بجا رہا تھا کوئی خا خا کی آوازیں نکال رہا تھا کوئی چھڑی سے موڑنے کی کوشش کر رہا تھا۔
اور میری خواہش تھی کہ یہ دوبارہ دریا میں واپس چلی جائے اور بھینسوں کے لشکر میں شامل ہو کر آگے بڑھ جائے۔لیکن اس سے کیا فرق پڑ جاتا ، آگے کسی اور کنارے پر اسی طرح کے لالچی اور بے حس انسانوں کا گروہ ان کا انتظار کر رہا ہو گا۔
بھینس جوں جوں قریب آتی جا رہی تھی لوگوں کے شور کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔بہت سے لوگ کنارے سے اتر کر دریا میں چلے گئے تھے اور بھینس کو اپنی طرف کھینچ لانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے ۔
لیکن یہ کیا کہ بھینس جو کہ سیدھی آگے آ رہی تھی، اچانک رک گئی اور اپنا رخ دائیں طرف کر لیا یعنی جو لوگ اس کا انتظار کر رہے تھے ان کی عمودی سمت میں چلنے لگی، سب لوگوں کے منہ سے بے بسی کی آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں۔
میں نے نظر اٹھا کر کر بھینس کی چلنے کی سمت کی طرف دیکھا تو سامنے کنارے پر پھٹے پرانے کپڑے پہنے، ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں رہنے والے چند غریب لوگ چپ سادھے کھڑے تھے جو خود بھینس کا رخ ان کی طرف تبدیل ہوجانے کی وجہ سے حیران کھڑے تھے۔
لوگوں نے پیچھے سے بہت آوازیں لگائیں، لکڑیاں پھینکیں جوتے ہوا میں اچھالے مگر بھینس کے آگے اس وقت بین بجانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ وہ اپنی دھن میں چلتی چلی جا رہی تھی۔
میں بھی کچی آبادی کے ان غریب لوگوں کی طرح چپ سادھے یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ بھینس خراماں خراماں چلتے پانی میں سے باہر کنارے کی طرف نکل گئی اور رخ اس ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی کی طرف کر لیا، چیتھڑوں میں ملبوس دو مردوں نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کسی عظیم الشان سلطنت کی ملکہ کی طرح کیا ، اس کی گردن سے کٹی پھٹی رسی پکڑی، پیٹھ پر تھپتھپایا اور بڑے پیار سے ہانک کر جھونپڑی کے پیچھے لے جا کر باندھ لیا، غریبوں کے بچے اس کے گرد جمع ہو کر ناچنے لگے۔
اور ان کے ساتھ میرا دل بھی …..!
٭٭٭