’’وسیع البنیاد حکومت ‘‘کے مطالبے پر کچھ خیالات
اور طالبان کی خدمت میں چند گزارشات
(آج کل جب کہ افغان عبوری حکومت کے قیام پر افغانستان کے یورپی اور ایشیائی پڑوسی ملک کچھ خاص خوش نہیں ہیں کیونکہ ہر طرف سے ایک وسیع البنیاد حکومت کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، یہ مضمون انتہائی جداگانہ تجزیہ پیش کررہا ہے جس میں چار دہائیوں کی جنگ کے بعد افغانستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی تجاویز بھی دی گئی ہیں۔’’سٹرے ٹیجک کلچر‘‘ ویب سائٹ کے شکریہ کے ساتھ اس کا ترجمہ قارئین بتول کے لیے پیش کیا جارہا ہے)
ذرا تصور کریں کیا ہوتا اگر:
نئی عوامی جمہوری حکومت بناتے ہوئے فرانسیسی انقلابیوں سے تقاضا کیا جاتا کہ وہ لوئی چاردہم کی بادشاہت کے عناصر کو بھی حکومت میں برقرار رکھیں تاکہ ایک all inclusive حکومت بن سکے؟
امریکی انقلابیوں کو کہا جاتا کہ سلطنت برطانیہ کے وفاداران کو نئی امریکی جمہوریہ کا حصہ بنائیں تاکہ ’’سب کی شمولیت‘‘ ہو؟
بالشویک روسیوں پر دباؤ ڈالا جاتا کہ زارشہنشاہیت کا تختہ الٹنے کے بعد انہی زاروں کے نمک خواروں کو حکومت میں رکھیں تاکہ حکومت وسیع البنیاد ہو سکے؟
چیئرمین ماؤ سے توقع کی جاتی کہ خونی انقلاب کے بعد کوئےمنتانگ کو بھی نئے سیٹ اپ کا حصہ بنایا جائےتاکہ وہ الگ نہ رہ جائیں؟
اما م خمینی سے مطالبہ کیا جاتا کہ پاسدارانِ انقلاب کی حکومت میں رضا شاہ پہلوی کی کٹھ پتلی حکومت کے لوگ بھی شامل ہوں؟
اردگان سے کہا جاتا کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد گولن تحریک کے لوگوں کو ترکی حکومت میں برقرار رکھیں؟
سعودیوں کو کہا جائے کہ اپنی ایک چوتھائی آبادی کو جو شیعہ ہے، حکومت میں حصہ دیں تاکہ ان کی بادشاہت میں سب کی نمائندگی ہو؟
مودی کو کہا جائے کہ مسلم، سکھ اور دیگر اقلیتوں کو مکمل شہری حقوق دیں تاکہ آر ایس ایس بھارت وسیع البنیاد ہوسکے؟
اگر یہ سب باتیں ممکن نہیں تھیں تو نام نہاد بین الاقوامی برادری کون سی منطق لارہی ہے جب وہ یہ مطالبہ کرتی ہے کہ طالبان اپنے ملک کے ان عناصر کو اپنی حکومت کا حصہ بنائیں جو ناجائز غیر ملکی تسلط کی مدد اور معاونت کرتے رہے؟
افغانستان میں جو ہؤا وہ محض تبدیلی حکومت نہیں ہے۔ وہاں ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت کا تختہ الٹا گیا ہے جو اپنے ہی شہریوں کی ہلاکتوں اور خطے میں دوسروں کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی ذمہ دار تھی۔سابق حکومت سے وابستہ عناصر کو باقی رکھنا دراصل سازشیوں کواپنے اندر جگہ دینا ہے جو ان کی غیر ملکی تسلط کے خلاف نصف صدی کی جدوجہد کو ضائع کر کے رکھ دیں۔
یہ ریاست ہی کی قوت ہے جس کو طاقت کے استعمال کا جائز طور پہ اختیار ہے۔دیگر تمام مسلح گروہوں کو غیر مسلح اور غیر منظم کردیا جانا چاہیے۔ ایک دفعہ جب ریاست تشکیل پا جائے اور تمام فریق کسی مشترک ضابطے کے تحت آ جائیں تبھی یہ ممکن ہے کہ زیادہ گروہوں کی شمولیت سے ایک ایسی حکومت بنائی جائے جو تمام لوگوں کے عقائداور اقدار کی آئنہ دار ہو۔ جو حکومت ایسا نہ کرے وہ لوگوں کی نظر میں ایک جائز حکومت نہیں ہوتی، اس کے خلاف بغاوت ہو تی ہے اور اسے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
ایک ریاست کی قانونی حیثیت ان اصولوں سے بنتی ہے جن کو اس ملک کے لوگ اپنی قدیم مذہبی و سماجی وابستگیوں کی بنا پہ تسلیم کرتے ہیں۔ یہ مشترک بنیاد افغانستان میں مسلم عقائد اور اقدار کے علاوہ اور کوئی نہیں۔ باوجودیکہ طالبان کی اکر یت پشتون ہے (اس کا مطلب ہے کہ وہ ’پشتون ولی‘ کوڈ اور اس کے مطابق سنی حنفی شریعت پہ چلتے ہیں ) مگرغیر پشتون افغانی بھی مسلمان ہیں، لہٰذان کی قدر مشترک اسلام ہی رہتی ہے
لہٰذا طالبان کا اصرار کہ ان کی حکمرانی اسلامی اصولوں پہ مبنی ہوگی ، بے حد منطقی ہے۔یہ توقع کرناکہ وہ سویڈن کے لبرل ازم پر چلیں گےمحض خام خیالی ہے۔اشرف غنی ایسی حماقت کے لیے تیار تھا، مگر طالبان سمجھدار ہیں۔
یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ طالبان نے پورے ملک پر لڑائی کے بغیر قبضہ کیا ۔نام نہاد افغان فوج بآسانی منتشر ہوکر ان سے بغل گیر ہوگئی بلکہ ان میں بہت سے طالبان میں ہی شامل ہوگئے۔مزاحمتی تحریکوں کے پیچھے عوامی رائے نہ ہو تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ طالبان کے وسیع البنیاد ہونے کا یہی ثبوت ہے۔
بالشویک، فرانسیسی اور امریکی انقلابیوں، سعودیوں اور ایرانیوں کے برعکس جنہوں نے طاقت حاصل کرنے کی جدوجہد میں اپنے مخالفین کو بے رحمی سے قتل کیا، طالبان نے سب کو عام معافی دی۔کس کے اندر رحم کا حوصلہ زیادہ ہے، جدید جمہوریاؤں کے بانیوں کو یا ان طالبان کو؟قریب کی انسانی تاریخ میں ہم نے ایسا منظر نہیں دیکھا۔ اگر یہ وسعت اور شمولیت نہیں اور پھر اور کیا ہے؟
یہ جو ’’بین الاقوامی برادری‘‘ یعنی مغربی قوموں کے بگڑ چکے ٹولے نے افغانستان میں اسلامی نظام پر چیخنا پیٹنا مچا رکھا ہے اس کی وجہ ان کااسلام اور مسلمانوں کے لیے تاریخی اور عادتاًتعصب ہے۔ صلیبی جنگوں سے لے کر نو آبادیاتی نظام تک مغرب کے تصور میں اسلام سب سے بڑی بلا ہے۔ایڈورڈ سعید نے اپنی شاہکار کتاب ’اوریئنٹل ازم ‘ میں اس کی بہت خوب تصویر کشی کی ہے۔دورِ حاضر کی اسلامو فوبیا صنعت مغرب کی اسلام سے اس بے بنیاد نفرت کا ایک اور ثبوت ہے۔ امید ہی کی جا سکتی ہے کہ چین اور روس کے سیاسی نظام اپنی حکمران اشرافیہ کو اس راستے کی پیروی کی اجازت نہیں دیں گے، ورنہ اس کے نتائج و عواقب ان دونوں سپر طاقتوں کے لیے خوشگوار نہ ہوں گے۔ ابھی تک تو ان دونوں کے ریاستی میڈیا وسیع البنیادی کی مغربی منطق ہی کو لے کر چل رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے نو گیارہ کے بعد انہوں نے امریکی موقف اپنایاہؤا تھایہ غور کرنے کی زحمت کیے بغیر کہ کون غلط ہے اور کون صحیح۔ہمیں بھروسہ ہے کہ اب کی بار یہ دونوں سیاسی نظام بہتر فیصلے کریں گے۔
’ذی وقار‘ بین الاقوامی برادری کی ایک اور عجیب وغریب توقع ہے کہ طالبان کو اپنے کیے ہوئے وعدے راتوں رات پورے کرنے چاہئیں۔ یہ نوزائیدہ بچے سے پیدا ہوتے ہی بھاگنے دوڑنے کی فرمائش کرنے والی بات ہے۔ ریاستی ہنر کی الف بے جاننے والے کو بھی پتہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں۔پہلے ریاست کو اپنے قدم جمانے ہوں گے اور اس میں کچھ ماہ لگیں گے۔
افغان حکومت کے عبوری سیٹ اپ میں سابق حکومت کے عناصر ہرگز شامل نہیں ہونے چاہئیں جو اس دشمن کے تنخواہ دار تھے کہ جس سے انہوں نے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔ پھر ان تمام گروہوں سے رابطہ کیا جائے جو دین اور اقدار کی اس مشترک بنیادپہ یقین رکھتے ہوں جس کی پاسبانی کی ریاست سے توقع کی جا رہی ہے۔یہی اشتراک، وسیع البنیادی اور شمولیت ہے جو عوام کی نظر میں حکومت کوحکومت ہونے کا استحقاق دے گی۔
ریاست کے قدم جم جائیں تو اسلامی اصولوں پر ایک حکومت بنائی جائے۔ طرز حکومت کے معاملے پر اسلام غیر جانبدار ہے۔ اسلام کا زور اس بات پر ہے کہ طرز حکومت جو بھی ہو اس کا ثمر عدل و انصاف ہونا چاہیے۔ قرآن سے سمجھ آتی ہے کہ عدل برابری نہیں ہے۔برابری سب کو ایک جیسا دینا ہے جبکہ عدل یہ ہے کہ جس کا جتنا بنتا ہے اسے اتنا دیا جائے۔ قرآن کتاب عدل ہے کتاب مساوات نہیں۔
ریاست مستحکم ہوجائےتوصلاحیت اوراستحقاق (meritocracy) کی بنیاد پرحکومت سازی کی جائے، کثیر الجماعتی جمہوریت پر نہیں جس میں عالمی سرمایہ دار ،جمہوریت کے علمبردار وں کواپنی طوائفیں بناکر لوگوں کولوٹیں۔ہر گروہی پس منظر کے ایماندار اور باصلاحیت لوگوں کو چن کر ان کی حکومت چلانے کے لیے تربیت کی جائے۔
مگر یہ ریاست کی تشکیل کے بعد کی بات ہے، پہلے تو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جن لوگوں نے غاصبوں کو بھگانے میں جدوجہد کی ہے قربانیاں دی ہیں ، ریاست کی تشکیل میں ان کی رائے کی زیادہ وقعت ہو، بہ نسبت
ان کے جو اپنے لوگوں اور پڑوسیوں کو مارنےکے لیے ظلم ڈھانے والوں کے حامی تھے۔یہ بالکل عام سمجھ بوجھ کی بات ہے مگر ’بین الاقوامی برادری‘ کی ذہنی سطح سے بلند ہے!
طالبان کے لیے پیغام
میں امارات افغانستان کے غازیوں کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہو ں اور ان تمام مجاہدین کے لیے دعاگوہوں جنہوں نے امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کی ظالم ، سفاک اورجابرحکومتوں سے جہاد میں شہادت پائی۔مسلم دنیا کی توہین کی دوصدیوں میں آپ نے برطانویوں، روسیوں اور یانکیز کو ان کی سلطنتوں سمیت اپنے پہاڑوں میں دفن کر ڈالا۔
جن کٹھن حالات سے آپ گزرے اور جو قربانیاں آپ نے ملت کے لیے دیں انہوں نے آپ کے کردار کی ایسی تعمیر کی ہے جو فخر کے قابل ہے۔ اب جبکہ آپ نے بیرونی تسلط کو شکست دے دی ہے بہت کچھ اور ابھی ہونے والا ہے۔ دنیا پہلے ہی آپ کو ایسی سمت میں جانے کے مشورے دے رہی ہے جو آئندہ آپ کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔مغرب اور مشرقی ایشیا کے ساتھ ساتھ اسلام کی تہذیبوں میں اسلام کی گوناگوں تفہیم سے آشنا ہونے کے باعث میں خود کو اس حیثیت میں پاتا ہوں کہ آپ کو کچھ ناچیز مشورے دے سکوں جو مستقبل کی صورت گری میں آپ کے کام آئیں۔
پہلی اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ تلوار اب آپ کے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں منتقل ہو جائے اور آپ کے دائیں ہاتھ میں اب قلم آجائے۔آپ کا فوجی دفاع کا دور اب ختم ہؤا مگر ابھی بھی آپ کو اپنے ملک کا دفاع کرنا اور اس کو ترقی دینی ہے۔اب جبکہ آپ کے دشمن ابھی بھی آپ پر بمباری کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، ان کی جنگی کوششیں اب شر انگیز ہائبرڈ وار سے تقویت پائیں گی، جس کے لیے آپ مکمل تیار نہیں ہیں۔ یہ ہائبرڈ وارعلم کی طاقت کے بغیر جیتی نہیں جا سکتی۔
آپ کی دہائیوں پر محیط ثابت قدمی ’استقامت‘ کے اصول سے آئی ہے جو پشتون ولی کے نو اصولوں میں سے ایک ہے۔ آپ پر تشدد ، قیدوبند اور قتل وغارت سب آزمایا گیا مگر دشمن نہ آپ کو خرید سکا نہ جھکا سکا۔ یہ آپ کی بصیرت کا ثبوت ہے جو ظاہر سے آگے اور جھوٹے وعدوں سے پاردیکھ لیتی ہے۔یہ شخصیت کے وہ لازمی اوصاف ہیں جو ریاست چلانے کے لیے اخلاقی اور روحانی طور پہ کھری لیڈرشپ ہونے کی شرائط ہیں۔ بصیرت تزکیہ نفس سے ملتی ہے جس کا ذریعہ اپنے لیے قناعتاور دوسروں کے لیے سخاوت ہے۔آپ نے اپنے سے لڑنے والوں کو عام معافی دے کر اس کا بھی ثبوت دے دیاحالانکہ نقصان کے تاوان کا مطالبہ کرناعین اسلام کے مطابق ہوتا جیسا کہ جنگ عظیم دوم میں نورمبرگ مقدمے میں کیا گیا۔
یہ یاد رہنا چاہیے کہ جوتحریکیں زبردست جذبے سے اٹھتی ہیں، وقت کے ساتھ ٹھنڈی بھی پڑ جاتی ہیں کیونکہ ان کے پیروکار اپنے کمفرٹ زون میں لوٹ جاتے ہیں، مطمئن ہو جاتے ہیں اور شر کی قوتیں جو سائے کی طرح پیچھے لگی رہتی ہیں ان کے آگے مغلوب ہوجاتے ہیں۔ افغانستان آپ کی قیادت میں جلد ہی دنیا کے امیر ترین ملکوںمیں شامل ہوگا۔خیال رکھیے گا کہ آپ کے عوام کی ضرورتیں پوری ہوں اور وہ اوسط درجے کی خوشحالی پائیں۔ ورنہ بے تحاشا خوشحالی آپ کی آبادی کو خلیجی عربوں کی طرح فربہ، سست اور بزدل بنا دے گی۔
افغانستان میں ظلم و جبر کی آخری بڑی لہر نائن الیون کے بعد آئی۔ یہ لہر مکمل ختم ہونے میں دو سے چار سال لے گی۔ جب سونامی کی طرح یہ لہر اترے اور واپس جائے گی تو کئی نا مطلوب بری چیزیں آپ کے پڑوس سے بھی ساتھ لے جائے گی۔ بیشک آپ اپنے پڑوسیوں کو تبدیلی کا شکار نہیں کرنا چاہتے مگر ہم میں سے کئی آپ کی فتح کے نتیجے میں پہلے ہی بدلنا شروع ہو چکے ہیں۔ تحریک حریت کشمیر، خالصتان تحریک،فلسطینی تحریک، اور پاکستان میں کرپشن کے خلاف تحریک، یہ سب آپ کو ظلم کے آگے فتح یاب ہوتے دیکھ کر حوصلہ پکڑ رہے ہیں۔
اسلام میں اس سیکیولر لبرل سیاسی فلسفے کی کوئی جگہ نہیں جس کی کوکھ سے جدید جمہوری فریب نے جنم لیا ہے۔ اس سے دور ہی رہیں۔ جدیدیت پسند مسلمان آپ کو بتائیں گے کہ شورائی تصور جمہوریت ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ شورائیت مغربی طرز کی جمہوریت نہیں ہےبلکہ
صلاح مشورے کا ایسا نظام ہے جو گھر کے دائرے سے لے کر ریاست تک معاشرے کی تمام پرتوں میں جاری و ساری ہے۔ اسے ہر سطح پر استعمال میں لائیں، جیسے آپ مزاحمت کے دور میں کیا کرتے تھے۔
بڑی طاقتوں سے کیسے نمٹیں
مغربی ممالک کی حکومتیں آپ کی دشمن تھیں۔ انہوں نے آپ کے ملک پر قبضہ کیا، آپ کا خون بہایا اور علاقائی امن کو تباہ کیا۔ آپ انہیں معاف توکریں مگر بھولیں نہیں کہ انہوں نے کیا کیا۔ اچھا ہے کہ اس وقت آپ ان کے ساتھ بھرپور سفارت کاری کریں ، مگر کسی صورت میں بھی ان کے ساتھ رحم دلی نہ دکھائیں۔ یہ اس کے قابل نہیں ہیں۔بھوکے رہنا پڑے تو رہ لیں مگر ان قوتوں کے آگے نہ جھکیں۔ ان کے ساتھ پشتون ولی روایت اور شریعت کے مطابق معاملہ کریں۔
آپ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں۔ اگر آپ اسلامی اصولوں پر اپنی حکومت بنائیں تو آخر کار یہ آپ ہی کے گھر کا حصہ بن جائے گا۔ افغانستان ایک قوم نہیں کئی قوموں پر مشتمل علاقہ ہے۔ پاکستان بھی ایک قوم نہیں ہے، یہ چار بڑی اور کچھ چھوٹی قومیتوں کا مجموعہ ہے۔ یہ بھی اسلامی اقدار کے نام پر وجود میں آیا مگر اس کی بدعنوان اور مغرب زدہ اشرافیہ اس کے قیام کے اصل مقصد کو بھول گئی۔کتنے ہی پشتون، ہزارہ اور تاجک ایک کے بعد ایک جنگوں کے دوران پاکستان آئے اور اسے اپنا گھر بنا لیا۔ آپ بھی آ سکتے ہیں، پناہ گزیں کے طور پہ نہیں، متحدہ شہری کے طور پہ!
پاکستان اور افغانستان دونوں نے سیکھا ہے کہ انہیں دفاع او ر خارجہ امور پر ہم آہنگ رہنا ہوگا، ورنہ ہمیشہ مسائل رہیں گے۔ اگر ہم ان دو میدانوں میں ہم آہنگی پیدا کرلیں تو افغان وسائل کامعاشی کنٹرول افغانوں کے ہاتھ میں رہے گا ، ایسے ہی جیسے پاکستانی وسائل کا معاشی کنٹرول پاکستان کے پاس رہے گا۔
کچھ عرصہ تو یہ معاملہ چل سکتا ہے۔ مگر افغانستان چونکہ زمین سے گھرا ہؤا ہےاس لیے آپ کو پاکستانی علاقے میں رسائی کی ضرورت پڑے گی اس حال میں کہ پاکستان کو آپ کے ہاں رسائی کی کوئی ضرورت نہیں۔تاہم زمینی محصور وسط ایشیاکے ساتھ تجارت چونکہ پاکستان کے لیے اہم ہے لہٰذا وہاں پہنچنے کے لیے آپ پاکستان کو رسائی دے سکتے ہیں۔اس صورت میں یک طرفہ انحصار دو طرفہ انحصار بن جائے گا جو دونوں ملکوں کے لیے اچھا ثابت ہوگا۔
اس کے علاوہ درج ذیل نکتے پر بھی غور کیجیے جو بہت اہم ہے۔
افغانستان کے پاس قابل کاشت زمین آبادی کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ اناج کی یہ کمی آپ کو پاکستان سے پوری کرنی ہوگی۔ آپ کو سمندر تک پہنچنے، غذائی قلت پوری کرنے اور جدید دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اپنی افغان قوم پرستی کی مالا جپتے رہے اور ہم انکل ٹام کے گئے گزرے یورپی روشن خیالی کے فرسودہ نظریات پرعمل پیرا رہے تو باہم دشمن ہی رہیں گے۔پاکستان غربت کا شکار رہے گا اور آپ تو بالکل ہی بھوکے مر جائیں گے۔ جب تک آپ اپنے وسائل تلاش کرکے انہیں بیچیں گے تاکہ خوراک خریدیں اور سڑکیں بنائیں، اتنا عرصہ آ پ افغان عوام کو مقروض کرتے رہیں گے۔
سو آپ پاکستان کےساتھ مختلف شعبوں میں اشتراک اور حصہ داری کریں سوائے سیاست کے! اگر اپنی سیاست آپ نے پاکستان کے ساتھ جوڑ دی تو ہم آپ کو مایوس کریں گے۔ جب تک پاکستان میں ایک بیدار مغز سیاسی اشرافیہ کارفرما نہیں ہو جاتی، بس آپ دور ہی رہیں۔
لگتا یہ ہے کہ ابتدا میں آپ ایران کے انداز کی معاشرت بنائیں گے۔یہ دیکھ لیں کہ سعودی ماڈل کی پیروی ہرگز نہ کریں کیونکہ وہ کئی اعتبار سے اسلامی ماڈل نہیں ہے۔ یادرہے مسلم خواتین نے تاریخ میں جنگوں کی قیادت کی ہے، ہم نے کسی بھی تہذیب سے پہلے خواتین سکالر پیدا کی ہیں،بلکہ ہماری تاریخ میں خواتین سلاطین بھی گزری ہیں جب کسی تہذیب میں ایسی مثال نہیں تھی۔ تاہم گزشتہ نصف صدی سے افغانستان میں امن و امان نہیں تھا اور خواتین کی زندگی بھی مردوں کی طرح بس زندہ رہنے کی تگ ودو میں گزری۔ لہٰذا عورتوں کے لیے آپ کی حالیہ پالیسی ایک روایت پسند،جنگ زدہ پشتون معاشرے کے لحاظ سے حقیقت
پسندانہ ہے۔
سب لوگ آپ کی طرح نہیں ہیں۔ آپ اسلامی احکامات پر جمے رہیں اور اپنی خواتین کی حفاظت کریں۔ مرد بیزار فیمنسٹ نظریات کو پھیلنے کی اجازت نہ دیں تاکہ گھر کی اکائی مضبوط رہے۔ ہماری عورتوں کوآزادی بھی ہو،ہماری بہبود ہماری ماؤں بہنوں بیٹیوں اور بیویوں کی بہبود پر منحصر ہے۔اس معاملے میں ہر قسم کے بیرونی دباؤ کی مزاحمت کریں اور درجہ بدرجہ معاشرے کی تشکیل نو کریں جس میں خواتین باحیا ہوں مگر قومی اور تمدنی زندگی میں پوری طرح شریک ہوں۔ غذائی قلت کو دیکھتے ہوئے تحدید آبادی کے اسلامی نقطہ نظر پر از سر نو غور کرلیں۔ زمانہ جنگ کی نسبت اب فیملی سائز چھوٹا ہونا چاہیے۔
٭ ٭ ٭
؎۱ پروفیسر مذہب اور عالمی سیاست، ساؤتھ ویسٹرن یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ لاء، چین