جنگل کاٹ دیے گئے۔ زمین ہموار ہو گئی اور گھروں کی بنیادیں ڈال دی گئیں ۔لیکن جنگل کے باسی حشرات بے گھر ہو گئے ۔ ڈیویلپر نے زمین کی صفائی ستھرائی اور حفاظت کے لیے بہت کچھ انتظامات کیے ہوں گے مگر مکڑیوںکا وہ کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔سردیوں میں پھر بھی کچھ امن رہتا مگر گرمیوں کے آتے ہی مکڑیوں کے قافلے اترنے لگتے۔ روشن اور مالی جوان دنوں گھر دیکھتے پھر رہے تھے ، اس گھر کو دیکھا توپھر کسی اور گھرکو دیکھنے کی خواہش سے دستبردار ہوگئے ۔ لیکن ہؤا یہ کہ اس گھر کوگھر کی صورت ملنے کے بعد انہیںاس میں رہتے چند دن ہی ہوئے ہوںگے کہ مکڑیوں سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں ۔ پتہ چلا کہ دوسرے گھروں میں بھی یہی پرابلم چل رہی ہے۔
ایک روز مالی شام میں آفس کے بعد اپنے پرانے سب ڈویژن میں ناز سے ملنے چلی گئی ۔ روشن کو کچھ کام تھا آفس کے بعد اور کہہ گیا تھا کہ دیر سے آئے گا ۔ ناز کا گھر آفس کے راستے میں ہی تھا اور ویسے بھی مالی کو کوئی ایسی جلدی نہیں تھی ۔ کچھ ہی دیر میں باتوں کا موضوع مکڑیاں تھا ۔ ناز کا خیال تھا کہ کچھ کر لو کچھ خاطر خواہ ہونے والا نہیں ۔ مکڑیاں خود ہی ایک دن غائب ہوجائیں گی اور یہ بھی کہ پہلے پہل جب وہ اس گھر میں شفٹ ہو ئے تھے ، ان کو بھی مکڑیوں سے نپٹنا پڑا تھا ۔ اس نے اپنے ماتھے کا نشان دکھایا جو کسی مکڑی ہی کے کاٹے کا ثبوت تھا ۔ مالی نے غور سے دیکھا ۔ ماتھے پرناک کی سیدھ میں ایک چھوٹا ساگڑھا تھا جو مالی کاخیال تھا کہ کسی پھنسی کی یاد گار ہوگا ۔
’’ میرے لیے یہ فیصلہ بھی مشکل ہے کہ کیڑے مکوڑوں سے میں ڈرتی ہوں یا کراہیت ہوتی ہے ‘‘۔
’’ اور سانپ؟‘مالی نے کہا۔
’’ ہش ۔ نام نہ لو ، رات کا وقت ہے ۔ میری نانی رات کے وقت اس کا نام لینے سے منع کرتی تھیں ۔ کہتی تھیں کہ رسی کہو‘‘۔
’’ ہیں ؟ وہ کیوں ؟‘‘
’’ ہاں بھئی وہ تو رات میں آیت الکرسی اور ناد علی کا حصار باندھتیں اور پھر ایک مزے کی بات اور سنو‘‘۔
’’ وہ کیا ؟‘‘
’’ پھر وہ تمام حشرات الارض کو حضرت سلیمانؑ کی قسم دے کر انہیں سوتے ہوئوں سے دور رہنے ، تنگ نہ کرنے کا کہتیں ‘‘۔
’’ مطلب ؟‘‘ مالی نے حیرت سے پوچھا۔
’’ بھئی! حضرت سلیمانؑ ، اللہ کے نبی ہیں ۔ ان کو اللہ نے تمام جانوروں ، کیڑے مکوڑوں کا حاکم بنایا ۔ اسی لیے حشرات الارض پر نبی کااحترام واجب ہے ۔ جیسے ہم مسلمان ہیں اور محمد رسول ؐاللہ کی کہی بات ہمارے لیے حکم ہے ‘‘۔
’’ ارے واہ! ‘‘مالی کواب بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔
’’ مالی یہ حقیقت ہے ۔ کبھی ضرورت ہو تو تم بھی ضرور کرنا ۔ خود ہی دیکھ لو گی ‘‘۔
’’مگرناز! وہ وقت اور تھا ۔ لوگ ان پڑھ ، سادہ دل تھے اور ویسے بھی ان باتوں کو ہو کر بھی صدیاں گزر گئیں ۔ اب کی بات کرو ۔ موجودہ مسائل کی بات کرو‘‘۔
’’ مالی ! تم ان باتوں کو وقتی نہ سمجھو ۔ بہت بڑی غلطی کر رہی ہو تم ۔ وہ سب باتیں جو تب ہوئیں اور آج بھی اسی طرح ہو رہی ہیں ۔ تم بیٹھی ہو ناں میلوں میں لگنے والے ہنڈ ولوں میں … وہی تمہارا فیرس وہیل ، گول چکر ۔ تو جب وہ گول گول اوپر جاتے ہیں تو نیچے بھی آتے ہیں اور اس میں
بیٹھے لوگ بھی اوپر جاتے ہیں ۔ نیچے آتے ہیں ۔ ہر چکر میں بار بار وہی منظر بھی دیکھتے ہیں ۔ کائنات کے اس گول چکر میں بیٹھے ہم بھی یہی کرتے ہیں اس کو بھی ایک فیرس وہیل ہی سمجھو، اس کو چلانے کا اختیار ہمارے پاس نہیں ہم مسافر سواری کرتے ہیں اور منزل آنے پر اتر جاتے ہیں اور ہماری جگہ دوسرے لوگ آکر بیٹھ جاتے ہیں … میرا مطلب بس یہ تھا ‘‘۔
’’ چھوڑو ، جانے دو ۔ میں گزرتے وقت کے ساتھ بہنے والی ، یہ سب جان کر کیا کروں گی ۔ ‘‘
’’ اوکے ۔ جیسا تم چاہو۔ لیکن جان لینا ، علم حاصل کرنا کبھی رائیگاں نہیں جاتا ، کبھی نہ کبھی کام ہی آتا ہے ‘‘۔
’’ ٹھیک ۔ چلو ناز ، اب میں چلتی ہوں ۔ روشن آج دیر سے گھر آ رہا تھا میں نے سوچا کچھ دیر تمہارے پاس بیٹھوں گی آفس سے واپسی پر ۔ ملے ہوئے دن بھی توبہت ہو گئے تھے‘‘۔
’’ ہاں ٹھیک کہا تم نے ۔ تمہارا مکڑیوں کا معاملہ سدھر جانے پر چکر لگائوں گی تمہارے پاس میں بھی ‘‘۔
’’گھر جاتے ہوئے وہ دل ہی دل میں ناز کی باتوں پر ہنستی رہی۔ آج کے زمانے میں بھی لوگ ایسی دقیانوسی باتیں کرتے ہیں ۔ خیر ! ! وقت گزاری ہی سی ۔ انٹر ٹیننگ ! کیا کہہ رہی تھی ناز… کیڑے مکوڑو! … اس نے آواز بدل کر کہا … تمہیں قسم ہے نبی سلیمان …
مگر بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اسے ایک جھٹکا لگا اور گاڑی بیچ کی لائن سے فاسٹ لائن کی طرف ہو گئی جس پر پیچھے سے آتی ایک تیز رفتار گاڑی میں بیٹھے شخص نے بریک لگاتے ہوئے زور سے ہارن بجایا اور پاس سے گزرتے ہوئے ہاتھ باہر نکال کر انگلی سے فحش اشارہ کیا اورکچھ کہتا ہؤا گزر گیا ۔ مالی نے انڈیکیٹر دیا اور پھر سے اپنی لین میں آگئی ۔ مالی کو ننا یاد آگئی تھی ۔ ایک پرانی یاد کے ساتھ جس کے بارے میں اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ اس کی یادوں میں کہیں موجود اپنی باری کے انتظار میں بیٹھی تھی ۔
ننا کہتی تھی کہ تب کی بات ہے جب ابھی ان کے شہر میں بجلی نہیں آئی تھی اور لالٹین ، لیمپ اور پیٹرو میکس کی روشنی میں کام ہوتے تھے ۔ ایک روز وہ فجر کی نماز کے لیے اٹھیں ، لالٹین جلائی اور باورچی خانے کے حوض کی طرف وضو کے لیے گئیں ، لالٹین حوض کی منڈیر پر رکھی اورحوض کے نلکے سے لوٹا بھرنے کے لیے نلکے کی طرف ہاتھ بڑھانے والی تھیں کہ سامنے پھن اٹھائے بیٹھے سانپ پر نظر پڑی جو اپنی کالے موتیوں جیسی آنکھوں سے انہیں ہی دیکھ رہا تھا ۔ اگر وہ اپنی جگہ سے ذرا بھی ہلتیں تو وہ یقینا انہیں ڈس لیتا ۔ منڈیر پر رکھے لوٹے پر ہاتھ رکھے وہ ساکت بیٹھ گئیں اور سانپ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بس یہ ہی کہا ’’ تجھے اللہ کے نبی سلیمان ، جن کو اللہ نے تجھ پر حکمرانی عطا کی تھی انہی نبی سلیمان کی تجھے قسم دیتی ہوں تو چپ چاپ یہاں سے نکل جا۔ سلیمان نبی کی قسم دے رہی ہوں ۔ تجھے تیرے حکمران ، تیرے بادشاہ ، تیرے مالک، سلیمان … نبی اللہ کی قسم جا چلا جا ، نکل جا۔اور واقعی کچھ ہی دیر میں سانپ نے اپنا اٹھا ہؤا سر نیچے کیا اور چشم زون میں حوض کی نالی میں جدھر سے آیا تھا ادھر کو نکل گیا۔
ننا کی آواز، مالی کو یوں لگا ، پاس ہی سے آ رہی ہو ۔ مالی کو عجیب سی گھبراہٹ ہوئی جسم میں ایک جھر جھری دوڑ گئی ۔ وہ پھر فاسٹ لین میں داخل ہوئی اورجلد سے جلد گھر پہنچنے کی خواہش کے ساتھ گاڑی کی رفتار بڑھا دی ۔
رات میں روشن سے اس کا ذکر کرتے مالی نے بات پلٹ دی ۔
’’ کیسا تھا دن تمہارا ؟‘‘
’’ تھکا دینے والا … ہمیشہ کی طرح … تمہارا ؟‘‘
’’ اچھا تھا ۔ میں آفس سے واپسی پر ناز کے پاس گئی تھی کچھ دیر کے لیے یہاں آنے کے بعد سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ‘‘۔
’’ ہلنا نہیں مالی!‘‘ اچانک روشن نے دبی آواز میں کہا۔
’’ کیوں کیا ہؤا ؟ ‘‘مالی اس کے اچانک سے بدلتے لہجے پر پریشان ہو گئی۔
’’ ہلنا نہیں ۔ تمہاری شال پر مکڑی بیٹھی ہے ‘‘۔ روشن نے پھر سرگوشی کی ۔
مالی نے بجلی کی سی تیزی سے شال کو جیسے چھیل کر خود سے الگ کیا
اور دور پھینک کر دوڑتی ہوئی بستر پرکود گئی ۔
’’ یہ کیا کیا تم نے ۔ شال کے اندر کہاں ہے وہ ، کیسے پتہ چلے گا ؟‘‘
’’ اور میرے اوپر کیسے مارتے تم ؟‘‘
دونوں چپ بیٹھے شال کی طرف دیکھنے لگے ۔ مکڑی خود ہی شال کے اندر سے نکلی اور دوڑتی ہوئی دروازے کی طرف گئی ۔ روشن نے اخبار اٹھایا اور بستر سے اتر گیا ۔ پھٹ کی آواز آئی اور مکڑی اخبار کے ساتھ چپک گئی ۔ اخبار ڈبے میں ڈال کر وہ پھر بستر پر آگیا۔
’’ کل فون کروں گا فیو میگیشن والوں کو۔ عذاب جان ہو گئی ہیں یہ اب …‘‘
مالی نے اب بھی روشن سے اپنی اورناز کی بات چیت کا ذکر نہیں کیا ۔ بات صرف نا زکی ہی نہیں تھی اس کی اپنی ننا کی بھی تھی اور موجودہ زمانے میں رہنے والے ماڈرن لوگ ایسی باتیں نہیں کرتے اور پھر ننا جاہل بھی نہیں تھی ۔ ساتویں جماعت کے بعد وہ سکول نہیں گئیں۔ انگریزی اور معلومات عامہ کی تعلیم کے لیے استاد گھر پر آنے لگے ۔ انگریزی کو ضروری اہمیت اس لیے دی گئی کہ جس سے شادی ہونا ٹھہری تھی وہ ولایت پلٹ تھے ۔ خیر ، اسے پہلے یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کہنا اور کیا نہیں کہنا چاہیے۔ روشن کوبعد میں بھی بتایا جا سکتا ہے ۔
بیچ رات مالی کی آنکھ کھل گئی ۔ یوں محسوس ہؤا کہ جیسے پیر پرکچھ چل رہا تھا ۔ کمبل پلٹ کر وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پیر پرکچھ بھی نہیں تھا ،کمبل دونوں طرف سے دیکھا ، تکیے کے نیچے بھی کچھ نہیں تھا ۔ شاید سونے سے پہلے کی گفتگو وجہ تھی ۔ مالی نے تکیے درست کیے اورکمبل اوڑھ کر لیٹ گئی ۔ کچھ دیر جاگتی رہی پھر سوگئی ۔ صبح ناشتے کی میز پر مالی نے روشن کو رات میں آنکھ کھل جانے کا قصہ سنایا کہ جیسے پیر پر مکڑی چل رہی تھی ۔ روشن نے چائے کی پیالی واپس میز پر رکھ دی ۔
’’ اچھا یاد دلایا ۔ آج فون کروں گا فیو میگیشن والوں کو… تو کیا تھی بستر پر ؟‘‘
’’اوہ نہیں ۔ سونے سے پہلے ہم بات کررہے تھے نا انہیں کے بارے میں ، بس وہی خیال تنگ کرنے آیا ہوگا !!‘‘
’’چلو ٹھیک ہے اور دیکھوآج بھی کام کی مصروفیت زیادہ رہے گی۔ تم چاہو تو کھانا کھا لینا ۔ میرا کچھ پتہ نہیں …‘‘ روشن کمرے سے نکلتے پھرٹھہر گیا ۔’’دن میں کسی وقت یاد دلا دینا اس مصیبت کا کچھ بندو بست کرنا ہے ۔ یقین تو ہے یاد رکھوں گا لیکن کام کے رش میں بھول بھی سکتا ہوں ۔ فون کر لینا ‘‘ اورچلا گیا ۔
لنچ کے وقفے میں مالی نے ناز کوفون کیا۔
’’ وہ کیا بتایا تھا تم نے نبی سلیمان کے مکڑیوں سے تعلقات کے بارے میں ؟ میں بھی دیکھنا چاہتی ہوں ‘‘۔
’’ کیا ؟‘‘
’’ یہی کہ بات کہاں تک سچ ہے ‘‘۔
’’کچھ خوف خدا ہے بھی ؟ اللہ کو آزمائوگی ؟ توبہ کرو توبہ۔ کفربکا ہے تم نے ‘‘۔
’’ اوہو! ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ ابھی بس و ہ ترکیب بتا دوجو تمہاری ننانے تمہیں بتائی تھی ‘‘۔
’’ دیکھو جب تم لوگ کسی بھی بات کو مانتے نہیں ، ہر بات کا مذاق اڑاتے ہو تو پھر پوچھ کیوں رہی ہو؟ مالی مجھے بھی گنہگار کروگی تم ۔ بس بھول جائو میں نے کچھ کہا تھا ‘‘۔
’’ ناز پلیز …‘‘
’’ نہیں مالی ۔ میری بھی کچھ ذمہ داری ہے ۔ ایک نئی بات تمہارے ہاتھ آئی ہے اور تم چار لوگوں میں بیٹھ کر مذاق اڑانا چاہتی ہو۔انٹر ٹینمنٹ کے لیے کچھ اور ڈھونڈو بھئی‘‘۔
’’ ناز! وعدہ لے لو ، ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔مذاق اڑنے کے لیے نہیں کہہ رہی ۔ کوئی بات ہے جو میں سمجھنا چاہ رہی ہوں ‘‘۔
’’ اوکے۔ وعدے پر قائم رہنا ۔ یہ کہا تھا کہ اللہ کے نبی حضرت سلیمان کو اللہ نے سب چرند پرند، کیڑے یعنی سانپ بچھو وغیرہ وغیرہ پرحکمرانی عطا کی تھی اور وہ سب اللہ کے نبی کی باتیں سنتے اور مانتے تھے ‘‘۔
’’ کمیونی کیش کا ذریعہ کیا کہا تم نے … تھا؟‘‘
’’وہ سب پرندوں ، جانوروںاور کیڑوں وغیرہ کی زبان بولتے تھے ‘‘۔
’’ ہولی کائو! کیا بات کرتی ہو ناز !‘‘ مالی ہنسنے لگی۔
’’ دیکھا ؟ یہی تومیں کہہ رہی تھی ۔ تم نے ابھی ابھی وعدہ کیا تھا ۔ خواہ مخواہ اعتبار کیا میں نے ‘‘ ناز نے فون بند کر دیا تھا ۔
’’ نازر کو… یہ مذاق نہیں تھا‘‘۔ مالی نے کہا مگر فون بند ہو چکا تھا۔
اب اس نے روشن کے آفس کا نمبر ملایا ۔ مگر وہ میٹنگ میں تھا ۔ اس نے فیومیگیشن کی بات ریکارڈ کی اورفون بند کر دیا ۔ رات میں کھانا کھانے اور روشن کے لیے مائیکرو ویو میں رکھنے کے بعد اس نے ٹی وی لگایا او اخبار کی ہیڈ لائنز کے بعد کراس ورڈ کرنے لگی ۔ وہی ہؤا جس خیال سے وہ بچ رہی تھی ۔ لانڈری روم سے ایک موٹی کالی مکڑی ٹہلتی ٹہلتی کھانے کے کمرے کی طرف جا رہی تھی ۔ کچھ دیر وہ چپ بیٹھی دیکھتی رہی پھر غصے اورجھنجھلاہٹ میں اخبار ایک طرف پھینک کر اٹھی کہ روشن کی کلوزٹ سے اس کا جوتا لائے اوراس کالی بلا کو کچل ڈالے … اوراگر واپس آنے تک غائب ہو گئی ؟ مالی رک گئی پھر مکڑی کی طرف رخ کیا اور ایک انگلی اس کی طرف اٹھائی۔
’’ او کے مکڑی صاحبہ ! میری بات غور سے سنیے ‘‘۔ وہ اپنے انتہائی سنجیدہ لہجے پہ خود ہی ہنس دی … ’’ روشن کے کلوزٹ سے اس کا جوتا لینے جا رہی ہوں آپ کے علاج کے لیے ۔ آپ یہاں سے کہیں بھی جائیے گا نہیں ۔ کیونکہ میری سہیلی نے کہا ہے کہ کوئی نبی سلیمان تھے جوآپ کے بادشاہ تھے اور آپ آج بھی ان کی رعایا ہیں ۔ ویسے تو میری ننا کا بھی یہی خیال تھا کہ آپ اپنے بادشاہ کا حکم ٹال نہیں سکتیں توبس پھر انہی نبی کی قسم آپ اپنی جگہ سے جائیے گا نہیں ،بندی ابھی حاضر ہوتی ہے ۔ اوکے ؟ نبی سلیمان … آپ کے بادشاہ سلامت ، قسم دی ہے ان کی ‘‘۔ کہتے کہتے وہ اندر کمروں کی طرف دوڑ گئی۔
مالی واپس آئی تو وہ جہاں کی تہاں موجود تھی ۔ مالی کو جسم میں تھرتھری سی محسوس ہوئی مگر اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا اور باورچی خانے کی طرف سے اس کے پیچھے آئی مگر اب وہ وہاں نہیں تھی ۔ اسی وقت دروازہ کھلا او روشن اندر آیا ۔’’ کہاں گئی ؟ ابھی یہیں توتھی ‘‘۔ مالی نے روشن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ سوری مالی ، تمہارا میسج مل گیا تھا ۔ مگر میں فون نہیں کرسکا ۔ کل اتنا کام نہیں ہوگا‘‘۔ اورکمرے کی طرف چلا گیا مالی نے اسے جاتے دیکھا مگر کچھ کہا نہیں ۔
’’ بہت باتیں بنا رہی تھی ناز!!‘‘ کچھ دیر بعد مالی نے کہا اورجوتا اٹھا کر کلوزٹ کی طرف چلی گئی ۔ ناز کی بات کے غلط ہونے پر اسے کچھ رنج، کچھ مایوسی سی محسوس ہو رہی تھی اور اپنی کیفیت پر کچھ تعجب بھی ۔ مالی نے سر جھٹک کر اس بے سروپا سوچ کو ذہن میں جگہ دینے سے انکار کیا اور کچن سے پانی لینے چلی گئی۔
’’ روشن ! چائے بنا دوں تمہارے لیے ؟‘‘ اس نے آواز دے کر پوچھا مگر کوئی جواب آیا نہیں ؟’’ شاید شاور میں ہوگا ‘‘۔ مالی نے پانی لیا اور پھر فیملی روم میں چلی گئی ۔ کچھ دیر میں روشن بھی اپنا کھانا لے کر وہیں آگیا۔
’’ کیا خبریں ہیں ؟ مکڑیوں کی باتوں کے سوا ‘‘۔
’’ ان کے علاوہ بھی کچھ رہ گیا ہے زندگی میں ‘‘۔
’’ فکر نہیں کرو، جلدی ہو جائے گا ان کا بندو بست ‘‘۔
’’ میں نے کل آفس سے آف لیا ہے ۔ فیومیگیشن والوں کومیں نے فون کر دیا تھا وہ کل کسی وقت کو نٹیکٹ کریں گے ، میں نے تمہارا نمبر دے دیا تھا ۔ بات کر لینا ۔
’’سوری یار آج کل کام بہت تھا آفس میں ‘‘۔
’’ تمہاری حالت سے اندازہ ہو گیا تھا مجھے ، اب کل گھر میں ہر ممکنہ جگہ کی تلاشی لوں گی کہ کہیں ان کا نیسٹ ہے کیا ، کہ ان کی آبادی میں کوئی کمی نہیں ہو رہی ۔‘‘
’’ سونے جاتا ہوں اب۔ تھکا دیا ہے کام کے لوڈ نے ۔ خیر کل اتنا کام نہیں ہے‘‘۔
’’ کب فون کریں گے وہ‘‘۔
’’ کہہ رہے تھے آفس ٹائم میں کسی وقت‘‘۔
’’ جانتے ہو تم بھی ، یہ لوگ کبھی کمٹ نہیں کرتے ۔ اپنی آپشن کھلی رکھتے ہیں ‘‘۔
روشن نے سر ہلایا اوربیڈ روم کی طرف چلا گیا ۔
مالی نے پھر اخبار اٹھایا اورکراس ورڈ مکمل کرنے لگی ۔ ادھر سے مطمئن ہو کر اس نے اخبار واپس رکھا ، اپنی چیزیں سمیٹیں ، صوفے پر کشن ٹھیک سے رکھے ، کچن سے پانی کی بوتل لے کر کمرے میں جانے کے لیے کوریڈور کے کھلے در کی طرف گئی اور ٹھٹک کر کھڑ ی رہ گئی ۔ کمرے کو جاتے راستے کے عین بیچوں بیچ وہ بیٹھی تھی ۔ کالی اور موٹی ، فرش کے ساتھ لگی ہوئی جیسے اس جگہ کے سوا اسے کہیں اور جانا ہی نہیں تھا ۔
’’ او کے … اب خیال آیا آپ کو …! پسپا فوج کے دل شکستہ سپاہی، مجھ سے کسی رحم کی امید فضول ہوگی … بتا رہی ہوں … اب نہیں جانے دوں گی ‘‘۔
مالی دبی آواز میں دھمکیاںدیتی میز کی طرف آئی اور ہاتھ میں پکڑی سب چیزیں واپس میز پررکھیں ۔ اخبار اٹھا کر رول کیا اور ایک ٹائٹ ، ڈنڈے کی طرح ہاتھ میں لے کر آگے بڑھی مگر وہ اب بھی اپنی جگہ سے ہلی نہیں ۔
’’ کیا ہؤا؟ فوت ہو گئیں آپ ؟‘‘ مالی کا جی چاہ رہا تھا مکڑی کو ایسا کچلے کہ اس کی نسلیں بھی سر نہ اٹھا سکیں ۔
مالی نے کچھ دیر چپ رہ کر سوچا کہ کیا کرے پھر ہمت کرکے اخبار سے چھوا تو وہ تیزی سے آگے بڑھ کر پھر رک گئی ۔ مالی کوایک فلیش کی طرح نا ز کے ساتھ گفتگویاد آگئی۔
کیا واقعی! ناز یہی تو کہہ رہی تھی ۔ ننا بھی تو سانپ کی بات کرتی تھی ۔ کیا واقعی ؟ لمحے کی شدت سے باہر ، لمحے بھر کے لیے رک کر اس نے سوچا ۔ صدیوں پہلے کی باتوں کوسند کہنا اور مان لینا ؟ کیا واقعی؟
نا!!سب دقیا نوسی باتیں ! اور زپ ، زٹ رول کیا اخبار پوری طاقت سے مکڑی پر برسا دیا ۔ ڈنڈا واپس ہؤ ا تو مکڑی کا کچلا ہؤا جسم کچھ اخبار اور کچھ فرش پر چپکا ہؤا تھا ۔ اسے اس حالت میںدیکھ کرمالی کوکوئی خوشی نہیں ہوئی بلکہ اچانک کچھ پچھتاوا سا محسوس ہؤا۔ کچھ تعجب۔ ناز کی باتیں ،ننا کا قصہ،عجب ملے جلے جذبوں کی کھچڑی پک گئی ۔
مجھے کوئی خوشی کیوں نہیں ہوئی ۔ یہ خیال ذہن میں اوپر آکر بیٹھ گیا۔
مالی نے بجھے دل سے اپنا سامان اٹھایا اوراس پر سے پھلانگ کر کمرے کی طرف چلی گئی ۔
بھاگی کیوں نہیں ۔ جان بچانے کی کوئی کوشش بھی نہیں کی ۔ وہ چاہتی تھی میں اسے مار دوں؟ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ۔میرا ذہن کچھ زیادہ ہی ایکٹو ہو رہا ہے ۔
ایک عجب من وتو کی کیفیت تھی جس سے چھٹکارہ نہیں ہو رہا تھا ۔
پانی اپنی نائٹ ٹیبل پر رکھ کر وہ پھر فیملی روم کی طرف گئی ۔ اخبار اٹھا کر کچرے میں ڈالنے اور فرش صاف کرنے کے لیے ۔ فرش کو صاف کرتے ہوئے وہی تاسف پھرا بھر آیا ۔ کیا واقعی وہ جان دینے کے لیے آئی تھی ؟… وعدہ نبھانے !میں نے بھی تو قسم دی تھی اسے !!…
پھر کیا ہؤا کہ مالی دونوںہاتھ ماتھے پر رکھ کر وہیں بیٹھ گئی ۔ خاموش حیرت زدہ اور گنگ … پھر ایک اور عجیب بات ہو گئی ۔ اس کے آنسو بہہ نکلے ، پھر ہچکیاں ، جنہوں نے اس کے پورے وجود کوہلا کررکھ دیا۔ اپنے نقصان کاخیال ، مکڑی کا عہد وفا ، حکم کی پاسداری اورخود اس کی اپنی ہٹ دھرمی اور خود مختاری ۔ ایک معمولی مکڑی سے بھی بڑھ کر حقیر ہونے کا خیال۔
اور رنج یہ نہیں تھا کہ مکڑی نے کسی اور کایا د دلایا عہد نبھایا ۔ گھائل اس بات نے کیا کہ وہ کیوں اپنا وعدہ بھول گئی۔
(فنون142)
٭…٭…٭