’’جرسی تو بہت پیاری ہے تمہاری۔‘‘ارمغان نے تعریفی نظروں سے باقر کی نئی جرسی کو دیکھا۔
’’لیکن مجھے یہ پسند نہیں ۔آج سردی زیادہ تھی اسی لیے مجبورا ًپہن کر آنا پڑی۔‘‘باقر نے فورا ًاپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
’’کیوں۔؟‘‘ارمغان اس کی بات سن کر حیران ہوا۔
’’یہ جرسی میری امی نے بازار کی ایک چھوٹی سی دکان سے خریدکر لائی ہیں۔کم قیمت اور بدصورت۔مجھے تو شیرازکی جرسی اچھی لگی تھی،لیکن امی کہتی ہیںکہ ویسی جرسی بہت مہنگی ہے‘‘ باقر نے وجہ بیان کی۔شیراز ان کا کلاس فیلو تھا اور اس کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا۔
’’باقر یار،کبھی تو اللہ پاک کا شکر ادا کر لیا کرو۔ہر وقت نا شکرا پن کرتے ہو۔بہت سے لوگ ایسے بھی ہمارے درمیان ہیں جنھیں ایسی جرسی بھی نصیب نہیں‘‘ ارمغان خفگی سے بولا۔پھر اسے ٹہوکا دیتے ہوئے کہا ۔’’ ذرا اپنے پیچھے دیکھو‘‘!
باقر نے گردن گھمائی۔پچھلے ڈیسک پر کاشف آج بھی وہی چار سال پرانی جرسی پہنے بیٹھا تھا۔جرسی کا رنگ جگہ جگہ سے اڑ گیا تھا اور بازو بھی چھوٹے ہوچکے تھے۔کاشف کا تعلق ایک نہایت غریب خاندان سے تھا۔اس کا حلیہ ہمیشہ خستہ ہی ہوتا تھا۔
باقر نے ایک نظر کاشف پر ڈالی اور ارمغان کی طرف دیکھ کر ’’ہونہہ’’ کہا اور منہ بنا کر کتاب کھول لی۔
’’یہ سدھرنے والا نہیں‘‘۔ارمغان بڑبڑایا ۔
٭…٭…٭
’’یہ کیا! آلو گوشت اور وہ بھی شوربے والا؟ ‘‘ہانڈی کا ڈھکن اٹھاتے ہی باقر چیخا ۔
’’کیوں بھئی۔آپ کو شوربے والا آلو گوشت منع کیا ہے ڈاکٹر نے؟‘‘ امی نے پر مزاح انداز میںکہا۔
’’میں نہیں کھاتا…ہفتے بعد گوشت بنتا ہے ،اس میں بھی آلو اور پانی بھر دیتی ہیں۔‘‘ باقر نے ڈھکن واپس پٹخا اور بیگ اٹھا کر کمرے میں گھس گیا۔
سکول سے آتے ہی وہ باورچی خانے میں گھستا تھا اور کھانے کا جائزہ لیتا تھا۔تقریباً روز ہی وہ سالن دیکھتے ہی برا سا منہ بناتا اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا تھا۔
باقر سدا کا ناشکرا لڑکا تھا…کوئی بھی چیز اسے پسند نہیںآتی تھی۔چاہے وہ کپڑے ہوں یا جوتے،سکول کی کتب ہوں یا بیگز وغیرہ ۔کھانے میں بھی سو سو نکتہ چینیاں کرتا۔
باقر یونیفارم تبدیل کر کے کمرے سے نکلا تو امی نے ایک ڈھکی ہوئی پیالی اسے تھما دی۔
’’یہ آنٹی شکیلہ کے گھر دے آئو۔‘‘
’’کیا مصیبت ہے۔آپ نے تو یہ کام بھی میرے سر ڈال دیا ہے۔پتا نہیں کیوں روز پیالیاں بھر بھر کے پڑوسیوں کے گھر بھیجتی ہیں۔وہ تو ہمیں کبھی کچھ نہیں بھجواتے۔‘‘ باقر نے غصے اور بیزاری سے کہا۔
’’ایسے نہیں کہتے بیٹا۔یہ تو ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔وہ ہمیشہ پڑوسیوں کے گھر اپنے دسترخوان سے کچھ نا کچھ ضرور بھجواتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ
’’جب بھی تم شوربہ پکائو تو اس میں پانی زیادہ ڈالو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔‘‘(صحیح مسلم)
امی نے پیار سے سمجھایا۔
باقر بادل ناخواستہ پیالی لے کر آنٹی شکیلہ کے گھر چلا گیا۔وہ بیوہ تھیں۔واپس آتے ہی وہ کہنے لگا۔
’’امی…امی… آنٹی شکیلہ کے بچے سالن دیکھ کر خوش ہو گئے تھے۔یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں چکن کڑاہی لے آیا ہوں۔آنٹی چولہے پر توا رکھے پیاز بھون رہی تھیں۔وہ سالن لے کر ڈھیروں دعائیں دینے لگیں۔‘‘
’’اچھا۔اب آکر کھانا کھا لو،میں نے دسترخوان بچھا دیا ہے۔‘‘ امی باقر کی بات سن کر مسکرا دی تھیں۔
باقر اب چوں چراں کیے بغیر خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔اسے آلو گوشت بہت مزے کا لگ رہا تھا۔
’’دیکھو بیٹا،ہر وقت اور ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔تم اپنے سے اوپر والوں کو نہیں نیچے والوں کو دیکھا کرو۔اس طرح تمہیں احساس ہوگا کہ تم کتنے اچھے حال میں ہو‘‘ کھانے کے بعد برتن اٹھاتے ہوئے امی اسے سمجھانے لگیں۔
’’اللہ پاک کا فرمان ہے کہ شکر ادا کرو تاکہ میں تمہیں اور نوازوں۔‘‘(القرآن)
امی کو احساس ہوگیا تھا کہ آج لوہا گرم ہے۔بس نپی تلی چوٹ لگانے کی دیر ہے باقر راہ راست پر آجائے گا۔
باقر ان کی باتیں سن کر کسی گہری سوچ میں اتر گیا۔اسے کاشف یاد آگیا تھا۔اگر وہ کاشف کی جگہ ہوتا تو؟ آگے کا سوچ کر ہی اسے جھرجھری آگئی۔
اس نے دل ہی دل میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس نے اسے بہت سے لوگوں سے اچھے حال میں رکھا ہوا تھا۔برانڈز نا سہی لیکن قیمتی اور اچھی اشیاء اس کے پاس بھی تھیں۔اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا۔اسے ماں باپ کا ڈھیرو ںڈھیر پیار ملتا تھا اوراکثر منہ مانگی چیزیںبھی مل جاتی تھیں۔
آج اسے احساس ہوا کہ وہ کتنا خوش قسمت ہے۔آنٹی شکیلہ کے بچے اور کاشف کا چہرہ اس کے دماغ کی سکرین پر گھوم رہے تھے۔
اسے سوچوں میں گم دیکھ کر امی ہولے سے کھنکھاریں اور بولیں۔
’’ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ’’اللہ جل شانہ ایسے بندے سے بہت خوش ہوتے ہیں جو ایک لقمہ کھائے یا ایک گھو نٹ پانی پیے تو اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرے۔‘‘(زبدتہ ا لشمائل۔ص 132)۔
باقر کا چہرہ شرم سے جھک گیا۔وہ آج تک ناشکری ہی کرتا آیا تھا۔کچھ سوچ کر اس نے سر اٹھایا اور کہا۔
’’میںان شاء اللہ آج کے بعد کبھی ناشکری نہیں کروں گا۔کیوں کہ میں جان گیا ہوں ناشکرا انسان کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔‘‘
امی جان نے اسے پیار سے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔باقر نے پرسکون ہوکر ممتا کے سائے میں آنکھیں موند لیں۔
٭…٭…٭